ہوم << سائبر کرائم اور روحانی مانیٹرنگ -عارف علی شاہ

سائبر کرائم اور روحانی مانیٹرنگ -عارف علی شاہ

ذرا ایک لمحے کو تصور کیجیے،آپ رات کی تاریکی میں تنہا بیٹھے ہیں، موبائل کی روشنی چہرے پر پڑ رہی ہے، اردگرد کوئی نہیں،بس آپ اور اسکرین۔ آپ کے انگلیوں کا ہر لمس، ہر کلک، ہر میسج، ہر سرچ ،جیسے کسی ان دیکھے کمرے میں گونج رہا ہو۔ آپ سمجھتے ہیں یہ رازداری ہے، پر درحقیقت یہ عدالت ہے ۔ ایک الٰہی عدالت، جہاں ہر حرکت، ہر نیت، ہر Send اور ہر Delete محفوظ ہو رہا ہے۔

قرآن کی آیت کانوں میں گونجتی ہے:مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق:18) کوئی لفظ بھی زبان سے نہیں نکلتا مگر ایک نگران لکھنے پر مامور ہوتا ہے۔

اور ہم؟ سمجھتے ہیں کہ خفیہ براؤزر، فیک آئی ڈی، یا انکرپٹڈ چیٹ ہمیں محفوظ بنا لیں گے؟ نہیں صاحب، ربّ العالمین کے نظام میں کوئی VPN نہیں لگتا، وہاں نیت بھی لاگ اِن ہوتی ہے، اور ندامت بھی لائف لانگ ریکارڈ میں چپک جاتی ہے۔

سائبر کرائم آج کا لفظ ہے، مگر اس کا وجود اتنا ہی پرانا ہے جتنا نفس کا فریب۔ آج کل کے ہیکر وہی پرانے چور ہیں، صرف آلہ بدل گیا۔ آج کی بلیک میلنگ وہی پرانی فتنہ پروری ہے، بس طریقہ بدل گیا۔ وہی جھوٹ، بہتان، غیبت، تجسس… بس اب فیس بک کی پوسٹ، انسٹا کی اسٹوری، یا واٹس ایپ کے اسکرین شاٹ میں لپٹا ہوا۔

قرآن چیخ چیخ کر کہتا ہے: وَلَا تَجَسَّسُوا ،تجسس مت کرو۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: جس نے کسی مسلمان کو اذیت دی، اس نے گویا اللہ کو اذیت دی (المعجم الاوسط)۔

اب ذرا اسلامی تاریخ کی طرف پلٹتے ہیں ،ایک شام حضرت عمرؓ گشت پر نکلے، ایک آواز آتی ہے، ایک گھر میں کوئی شراب پی رہا ہے۔ جو اس کی مخفی کمزوری ہے،عمرؓ دروازہ پھلانگ کر اندر داخل ہو جاتے ہیں، اور جرم پر پکڑ لیتے ہیں۔ مگر کیا ہوتا ہے؟ مجرم کہتا ہے: اے امیرالمؤمنین! میں نے ایک گناہ کیا، آپ نے تین: تجسس، دیوار پھلانگنا، اور اجازت کے بغیر داخل ہونا! حضرت عمرؓ سر جھکا لیتے ہیں، اور واپس پلٹ جاتے ہیں۔

کیا یہ وہی پیغام نہیں جو آج سوشل میڈیا پر نظرانداز ہو رہا ہے؟ جہاں ہم ہر دن کسی کی پرائیویسی میں نقب لگاتے ہیں، اور پھر فخر سے شیئر بھی کرتے ہیں۔

اگر وہ وقت ہوتا تو آج کے ڈیجیٹل پردے کیسے محفوظ ہوتے؟ ہم تو اسکرین شاٹ کو فخر سے گروپس میں بانٹتے ہیں، اور وہ بزرگ ایک گناہ پر درگزر کر جاتے ہیں کہ کہیں کسی کی عزت پامال نہ ہو جائے۔

کیا آپ جانتے ہیں؟ ایک نوجوان نے صرف مذاق میں کسی کی تصویر ایڈیٹ کر کے اپ لوڈ کی، اور اگلے دن وہ لڑکی اپنی زندگی ختم کر بیٹھی۔ عدالت میں کیس چلتا رہا، مگر آسمان میں فیصلہ ہو چکا تھا۔

اور ہاں، جو سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر جو ہوتا ہے، وہ وہیں ختم ہو جاتا ہے ، ان کے لیے بری خبر ہے۔ قرآن کہتا ہے: وَكُلَّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُّسْتَطَرٌ (القمر: 53) چھوٹی بڑی ہر چیز لکھی جا چکی ہے۔

آج جب کوئی نوجوان لڑکی فیک اکاؤنٹ کے ہاتھوں رسوا ہوتی ہے، کوئی کمزور طالبعلم امتحانی ہیکنگ کا شکار ہوتا ہے، کوئی کاروباری شخص ڈیجیٹل دھوکے میں برباد ہوتا ہے۔تو یہ محض ایک جرم نہیں، یہ پورے معاشرے کے ایمان کی کڑی آزمائش ہے۔

اور جب حضرت علیؓ فرماتے ہیں: انسان چھپ کر جو کرتا ہے، وہی اس کا اصل چہرہ ہے،تو گویا وہ ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ خفیہ براؤزر میں کرتے ہیں، وہ بھی اللہ کی عدالت میں عیاں ہے۔اورسمجھ لیجیے کہ آپ کا اصل چہرہ وہ ہے جو آپ رات 2 بجے اسکرین پر دیکھتے ہیں، نہ کہ جو فجر کے وقت سیلفی میں نظر آتا ہے۔

کیا آج کا ہیکر، وہی چور نہیں جو بیت المال سے سونا چرا کر چھپایا کرتا تھا؟ کیا جعلی اکاؤنٹ بنانے والا، وہی دھوکے باز نہیں جو نبی کریم کے دور میں جھوٹی گواہی دینے آتا تھا؟ کیا ڈیجیٹل بلیک میلر، وہی ظالم نہیں جو اہلِ مدینہ کی خواتین کو خوفزدہ کیا کرتا تھا؟

اسلام کی عظمت یہ ہے کہ وہ جرم کےوسیلےکو نہیں، نیت کو بھی جرم قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائبر کرائم، چاہے جتنا بھی نیا لگے، اس کی بنیاد وہی پرانا فتنہ ہے: نفس کا لالچ، شیطان کی ترغیب، اور معاشرتی بے حسی۔،لہٰذا خواہ جرم تلوار سے ہو یا ٹچ اسکرین سے،دونوں برابر۔ اگر غلول (خیانت) میدانِ جنگ میں حرام تھی، تو پھر فائل کا چوری شدہ پاسورڈ بھی ویسا ہی حرام ہے۔ اگر جھوٹے گواہ کو شریعت میں سزا ہے، تو جعلی پروفائل پر لکھی گئی جھوٹی پوسٹ بھی اسی زمرے میں ہے۔

اور وہ گناہ کے سمارٹ مجرم، جو سمجھتے ہیں کہ وہ ڈیجیٹل ماسک کے پیچھے چھپے ہیں اوریہ خیال ہو کہ ڈیجیٹل دنیا بے قانون ہے، تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو بغیر وائی فائی کے بھی کنیکٹ رہتی ہے۔ حدیثیں وہ نوٹیفکیشنز ہیں جو انسان کو گناہ کے وقت دل میں لرزہ پیدا کر دیتی ہیں، اور اسلامی تاریخ وہ انسائیکلوپیڈیا ہے جو ہر مسئلے کا ورچوئل حل پیش کرتی ہے۔ ،ان کے لیے وہ حدیث کافی ہے: "قیامت کے دن ایسے لوگ بھی اٹھائے جائیں گے جن کے اعمال پہاڑوں جیسے ہوں گے، لیکن سب بکھر جائیں گے، کیونکہ وہ چھپ کر گناہ کرتے تھے۔" (ابن ماجہ)

اور ہاں، اگر سائبر دنیا کے جرائم کا کوئی سچا علاج ہے، تو وہ ہے تقویٰ ،یہ وہ انٹی وائرس ہے جو آپ کے اعمال کو بھی محفوظ رکھتا ہے، اور آخرت کی فائر وال سے بھی بچاتا ہے۔

ہمیں آج ایسے ڈیجیٹل متقی بننے کی ضرورت ہے، جو آن لائن بھی وہی ہوں جو آفلائن ہیں۔ ہمارے فون وہی کھولیں جو مسجد کے دروازے ادب، حیا، خوفِ خدا، اور نیت کی پاکیزگی کے ساتھ۔ کیوں کہ اللہ کا کیمرہ ہر وقت آن ہے ۔نہ low battery کا مسئلہ، نہ signal lost کا خدشہ، نہ کوئی logout۔ اور یاد رکھیے، دنیا کی عدالتوں میں وکیل بچا لیتے ہیں، لیکن اللہ کی عدالت میں صرف سچ اور توبہ۔

Comments

Avatar photo

عارف علی شاہ

عارف علی شاہ بنوں فاضل درس نظامی ہیں، بنوں یونیورسٹی میں ایم فل اسکالر ہیں، اور کیڈٹ کالج میں بطور لیکچرر مطالعہ قرآن اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ان کی تحریروں میں عصرحاضر کے چلینجز کا ادراک اور دینی لحاظ سے تجاویز و رہنمائی کا پہلو پایا جاتا ہے

Click here to post a comment