ہوم << چمکتے خزانے، اندھیرے سودے - عدنان فاروقی

چمکتے خزانے، اندھیرے سودے - عدنان فاروقی

پاکستان میں حالات کچھ یوں ہیں کہ عوام آلو پیاز کے نرخ سے لے کر بجلی کے جھٹکوں تک مصروف ہیں، اور ادھر کچھ عقلمند قسم کے لوگ "ترقی" اور "سرمایہ کاری" کے نام پر قومی دولت کے تاش کے پتّے بانٹ رہے ہیں۔

تازہ ترین چال خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرلز بل 2025 ہے، جو اگر منظور ہو گیا، تو سمجھیں معدنیات کے ذخائر کا "میچ فکس" ہو چکا!
اب جناب، اصل کھیل سمجھنے کے لیے ہمیں ایک پرانی واردات کو یاد کرنا پڑے گا ریکوڈک معاہدہ!
جسے حکومت نے شادیانے بجا کر خوشی خوشی قبول کیا، جیسے خالہ کے امریکہ پلٹ بیٹے کا رشتہ مل گیا ہو۔ لیکن حقیقت میں یہ ایسا معاہدہ ہے جسے اگر کسی شادی کی مثال دی جائے تو دولہا کے بدلے بھینس بیچ دی گئی، اور ولیمے میں پانی پوری کھلائی گئی۔

ریکوڈک کوئی عام سی کان نہیں، بلکہ سونے اور تانبے کا ایسا خزانہ ہے کہ اگر اسے صحیح طریقے سے نکالا جائے تو شاید آئی ایم ایف بھی ہم سے قرض لینے لگے۔ مگر افسوس، ہم نے اسے بیچ دیا وہ بھی قسطوں میں! بیریک گولڈ نامی کمپنی نے وعدہ کیا ہے کہ دس سال میں دس ارب ڈالر "لگائیں گے"، لیکن یہ پیسہ وہ ہماری ہی زمین سے نکالے گئے خزانے سے نکالیں گے۔ یعنی یہ تو وہی بات ہوئی کہ کسی کے گھر سے چینی چُرا کر اُسی سے چائے پلا دی جائے۔

پھر کمپنی فرماتی ہے کہ فی ٹن صرف 0.17 گرام سونا نکلے گا۔ واہ جی واہ! یہ کان ہے یا ہومیوپیتھک سونا؟ عالمی معیار پر اچھی کانوں سے 17 سے 44 گرام نکلتے ہیں، اور ہمارے ہاں صرف خوشبو؟ اور اسی "خوشبو" پر 100 ارب ڈالر کی آمدنی کا خواب بیچا جا رہا ہے، جیسے کوہِ قاف کی پریاں نزاکت سے کان کنی کر رہی ہوں۔

اس میں چاندی، پلاٹینم، پیلاڈیم، اور پتہ نہیں کیا کیا چھپی دولت بھی ہے، مگر معاہدے میں اس کا ذکر ایسے غائب ہے جیسے ٹیکس گوشوارے میں اصل آمدنی۔ شاید ان نایاب دھاتوں کو "سرپرائز ایلیمنٹ" بنا کر رکھا گیا ہے جیسے کرکٹ میچ میں اچانک بارش ہو جائے۔

اب خیبرپختونخوا والے بھی اسی فلم کی ری میک بنانے جا رہے ہیں۔ بل کے مطابق ایک منرل اتھارٹی اور ایک پی ایم سی بنائی جائے گی، جو بغیر کسی نیلامی کے "دوستی یاری" کی بنیاد پر معاہدے کر سکے گی۔ اور پروسیسنگ؟ وہ تو بیرون ملک ہو گی جناب! یہاں تو صرف مٹی اڑے گی، درخت گریں گے، اور بچے گڑھے دیکھ کر سوچیں گے کہ یہ کیا نیا تھیم پارک بنا ہے؟

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کانیں کیوں دی جا رہی ہیں، بلکہ یہ ہے کہ دماغ کیوں بند کیے جا رہے ہیں۔
کیا ہمیں واقعی یہ سب بیچ دینا ہے صرف اس لیے کہ ہمیں باہر سے ایک چمچ پلاٹینم کی شکل میں واپس مل جائے؟
کیا ترقی کا مطلب یہی ہے کہ زمین کھودو، خزانے دو، اور بدلے میں پاور پوائنٹ پریزنٹیشنز لو؟
کیا ہم واقعی اتنے "غریب" ہو چکے ہیں کہ اپنی زمین کو بھی گروی رکھ دیں؟
یہ صرف معدنیات کی چوری نہیں، بلکہ سوچ کی کمی ہے۔

اب آئیے ذرا اصل مسئلے کی جڑ تک جائیں ہمارے محترم حکمرانوں کے پاس وژن نام کی چیز صرف جلسوں کے پوسٹرز پر ہوتی ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کوئی ایک ایسا معیاری تعلیمی ادارہ تک نہیں بنایا گیا جہاں سے مائننگ انجینئر پیدا ہوں، جو اپنی زمین کے خزانے خود نکال سکیں۔
ادھر سکھر بیراج 1924 سے 1932 کے درمیان بنایا گیا، اور اس سے پہلے، جی ہاں اس سے پہلے 1921 میں این ای ڈی یونیورسٹی سندھ میں قائم ہوئی، تاکہ انجینئر تیار ہوں اور یہ کارنامہ اپنے ہاتھوں انجام دیں۔
یہ ہوتا ہے وژن، یہ ہوتا ہے خودداری، یہ ہوتی ہے "ترقی"۔
اور ادھر ہم؟ اب بھی سوچ رہے ہیں کہ اگلا جوائنٹ وینچر کس "دوست ملک" سے ہو گا، اور اس بار کتنی رائلٹی میں ملکیت دے دی جائے گی۔

زمین خاموش ہوتی ہے، چیخ نہیں سکتی۔
پہاڑ بظاہر ساکت ہیں، مگر ان میں تاریخیں دفن ہیں۔
ہم نے انہیں صرف دھاتوں کا ذخیرہ سمجھا، مگر وہ نسلوں کی امید، ایک پوری تہذیب کا امکان تھے۔
اصل سوال یہ نہیں کہ ہم کیا کھو رہے ہیں—بلکہ یہ ہے کہ ہم کیا بن رہے ہیں؟
کیا ہم واقعی ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جو اپنے کل کو بیچ کر آج کا ناشتہ خریدتی ہے؟

ہوس کی کان شاید کسی مشین سے نہ کھودی گئی ہو, وہ تو ہمارے اندر ہے۔

Comments

Avatar photo

عدنان فاروقی

عدنان فاروقی ربع صدی سے زائد عرصہ بیرون ملک رہے۔ انگریزی، اردو، عربی اور ترکی زبانوں سے شناسائی ہے۔ مترجم اور محقق کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے لگاؤ ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور غالب کے عاشق ہیں۔ ادب، تاریخ، سماجی علوم اور بین الاقوامی تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو نثر میں مزاحیہ و سنجیدہ اسلوب کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سماجی، تاریخی اور فکری موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں

Click here to post a comment