’’الحاد‘‘ کو انگریزی زبان میں Atheism اورالحاد کے پیروکاروں کو ملحد،دہریے،مادیت پرست یا Atheists کہا جاتا ہے۔الحاد ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلنے والایک بہت بڑا فتنہ ہے،جس کے طریقۂ واردات کو سمجھنا اور اس کے حوالے سے ضروری معلومات رکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
جدید الحاد (New Atheism)
یہ ایک اصطلاح ہے جسے 2006 میں وضع کیا گیا، اس کا مقصد اکیسویں صدی کے ملحدین کے مؤقف کو بیان کرنا تھا،جویہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عقیدے، مذہب اور غیر عقلیت پسندی کو یوں ہی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ اس کا مقابلہ کیا جانا چاہیے، اس پر تنقید ہونی چاہیے اور اس کا پردہ عقلی دلائل کے ذریعے فاش کیا جانا چاہیے ۔
یہ فقط اصطلاح کا فرق ہے ورنہ جدید الحاد اور قدیم الحاد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جدید ملحدوں کی اغلب ترین اکثریت اس دھوکے کا شکار ہے کہ وہ عقل کی بنیاد پر اور خوب سوچ سمجھ کر اپنے نظریات قائم کیے ہوئے ہے، ان کی 95 فیصد سے زیادہ اکثریت شوقیہ اوربطورِ فیشن ملحد ہوتی ہے، جنھیں خود اپنی ہی فکر کےمضمرات و حدود معلوم نہیں ہوتے۔ ان سے ان کے اپنے ہی ڈسکورس کے اصولوں کے مطابق سوال کیا جائے تو 95 فیصد کو توسوال ہی سمجھ میں نہیں آتا، جواب دینا تو درکنار،یہ ایک ہی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ مذہب کو ہر برائی کا مرکز ومنبع قرار دو اور مذہب سے فرار وبغاوت کو ہر مسئلے کے حل کے طور پر پیش کرو۔
عموماًاس لفظ کا الحاق وجودِ خدا، نبوت و رسالت اور آخرت میں سے کسی ایک کے یا تینوںکے انکار پر کیا جاتاہے اوریہ انکار، عقل کے بے مہاراستعمال کی بنا پر ہوتا ہے،عقل خود مادے کی پیداوار ہے اورمادی قوت کے ذریعے غیر مادی چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتاہے۔ ایسی الجھنوں کے پیدا ہونے کا بنیادی سبب دراصل اپنی حدود سے تجاوز کر نا ہوتا ہے۔ نفسی قوتوں کا غلبہ انسان کو تکبر اور بڑائی میں مبتلا کر دیتا ہے، یوں ناپاک قطرے سے بنا انسان اپنی غلاظتوں کو بھول کرکبھی انفرادی حیثیت میں’’ اناربُّکم الاعلیٰ‘‘ کا نعرہ لگاتا نظر آتا ہے تو کبھی اجتماعی طور پر انسان کو خدا کے درجے پر فائز کرتے ہوئے’’ لا الٰہ الا الانسان‘‘ کاکلمۂ کفربَکتادکھائی دیتا ہے۔
الحاد دراصل ہر گناہ کی چابی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ یقین کر لے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں، موت کے بعد کوئی زندگی نہیںجہاں اسے اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا ؛تو پھر حکومت کے قوانین کے سوا کوئی چیز دنیا میں اسے کسی برائی کو اختیار کرنے سے نہیں روک سکتی۔اورجب الحاد غالب آئے گا تو پھر حکومت کے قوانین بھی صرف انسانوں کو ایک دوسرے کی آزادی میں مخل ہونے سے روکنے کے لیے ہوں گے۔ یوںپھر زندگی کا مقصد اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ لذت کوشی ہی رہ جائے گا۔پھر مادر پدر معاشرتی آزادی ایک انسان کو برہنہ پھرنے کا حق دے گی اور انسان کو جانوروں کی سطح پر آنے میں کوئی چیز مانع نہ رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملحدین انٹرنیٹ پر یہ دعویٰ کرتے پھرتے ہیں کہ مسلمان جن مشکلات سے دوچار ہیں، وہ دراصل جنسی خواہش کو دبائے رکھنے اور مرد و عورت کے درمیان تفریق و امتیاز کے نتیجے کی وجہ سے ہے۔
فتنہ الحاد کی تاریخ
تاریخ میںانسانوں کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ انیسویں صدی میں جب چارلس ڈاروِن کے نظریۂ ارتقا کو مقبولیت حاصل ہوئی توگویا الحاد نے ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی اور بڑی تیزی سے مذہب کی پابندیوں سے آزادی کے خواہاں مادر پدر آزاد لوگ اس قافلے میں شریک ہونے لگے۔ان افراد نے نظریۂ ارتقاکی باقاعدہ تبلیغ کرنا شروع کردی اور اس کے اثرات عالمگیر سطح پر پڑنے شروع ہوئے۔ ڈاروِن کے نظریۂ ارتقامیں الحاد کے نظریاتی اور فلسفیانہ پہلواہم تھے، جنھوں نے خصوصا ًالہامی ادیان کے بنیادی عقائد :یعنی وجود باری تعالیٰ، رسالت اورعقیدہ آخرت پر حملہ کیا۔
لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس کے باوجود فکری اور نظریاتی میدان میں الحاد اسلام کے مقابلے میں کلیۃً ناکام رہا، البتہ عیسائیت کے مقابلے میں اسے جزوی فتح حاصل ہوئی۔الحاد نے کئی روپ بدلے اور مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے جانا گیا۔شروع ہی سے مذہب کے ساتھ الحاد بھی تمام معاشروں میں رہا ہے، لیکن یہ تاریخ میں کبھی بھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے متبعین یعنی ایک اللہ کو رب ماننے والے غالب رہے یا پھر شرک کا غلبہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ الحاد ابتدائی ادوار میں اسلام کے سامنے بالکل ناکام و نامراد رہا ،مگر اب مادیت پرستی کے دور میں دینی علوم سے ناآشنا مسلمانوں میں بھی تیزی سے الحاد بڑھ رہا ہے۔جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوا کہ الحاد مسلمانوں میں بالکل بے اثر رہا ۔ الحاد یا دہریت کا عالمی دن 17 مارچ کو منایاجاتاہے جس کی شروعات 2013 میں ہوئی۔
الحادکی قسمیں:
الحاد کو سمجھنے کی غرض سے ہم اسے دو قسموں میں بانٹ سکتے ہیں: علمی الحاد اور نفسانی الحاد۔علمی الحاد میں کسی شخص کو علمی طور پرخدا کے وجود کے بارے شکوک وشبہات لاحق ہوتے ہیں،ایسے لوگ دنیا میں گنے چنے ہیں جیسا کہ فلاسفہ اور نظریاتی سائنسدانوں کی جماعت۔اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ علمی الحاد کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے فلسفہ، چاہے فلسفہ برائے فلسفہ ہو یا فلاسفی آف سائنس ہو، قدیم دور اور قرون وسطی (Middle Ages)میں الحاد کا سب سے بڑا سبب فلسفہ ومنطق تھا، لہذا اس دور میں فلسفہ ومنطق کا رد وقت کی ایک ضرورت تھا۔
معاشرے میں نفسانی الحاد بڑے پیمانے پر موجود ہے، جس میں ایک شخص کو خدا کے وجود کے بارے شکوک وشبہات علمی طور تو لاحق نہیں ہوتے،لیکن وہ اپنی خواہشِ نفس کے سبب خدا کے بارے شکوک وشبہات کا اظہار کرتا ہے۔ ملحدوں کی بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔
ملحدین کی تعداد:
الحاد کے ماننے والوں کی تعداد ماہرین سماجیات( (Ariela Keysar کے الحاد پر متعدد عالمی مطالعہ اور Juhem Navarro rivera کے جائزے کے مطابق،ایک ارب یعنی دنیا کی آبادی کا 7 فیصد ملحد( agnostics )دنیا بھر میں ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں مسیحیوں اور مسلمانوں کے بعد تیسرا بڑا گروہ ملحدین افراد پر مشتمل ہے، جبکہ ہندو چوتھے نمبر پر ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق ملحدین کی تعداد ایک ارب 10 کروڑ ہے۔(گلوبل ریلیجیس لینڈاسکیپ ،واشنگٹن)
ملحدکاکفر:
ملحد کے کفر میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ، اس پر مؤمن کی تعریف صادق ہی نہیں آتی، بلکہ کافر کی تعریف صادق آتی ہے:کیونکہ ایمان ان تمام احکامات کی تصدیق کا نام ہے، جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک وتعالیٰ سے لے کر آئے اور ان کا آنا بداہۃً ثابت ہے اور کفر کا معنی ہے:کسی بھی ایسے امر کاانکار جس کا دعویٰ کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بداہۃًثابت ہے۔ملحدبھی دین سے انحراف اور آیاتِ قرآنی کو غلط معانی پر محمول کرکے کفر کی وادی میں داخل ہوجاتا ہے۔ملحد مرتد سے بھی بدترین درجے کا کافر ہے، کیونکہ مرتد نے جب کفر اختیار کیا تو اس کا اظہار کردیا، جس کی وجہ سے اس کا کفر لوگوں پر واضح ہوگیا،یوں وہ خود توکافر ہوا، لیکن باقی لوگوں کے کفر کا سبب نہ بنا،جبکہ اس کے برعکس ملحد اپنے کفریہ عقائد کو ملمع سازی کرکے ایمان کی شکل میں پیش کرتا ہےاوراس کا یہ اقدام مزید لوگوں کی گمراہی اور کفر کا سبب بن سکتاہے۔
دین اور اسلام کے خلاف ملحد وبے دین لوگ ہمیشہ برسرپیکار رہے ہیں، ان باطل پرستوں نے،اپنے خلاف علما ومشائخ کے فتاویٰ کو بے اثر ثابت کرنے کے لیے، مختلف ومتنوع حربے استعمال کیے ہیں،جن میں سے چند کا ذکر ذیل میں اجمالاًکیا جاتاہے:
(۱) فقہا ومفتیانِ کرام کے یہ کفر وارتداد کے فتوے تو محض ڈرانے دھمکانے کے لئے ہوتے ہیں، ان سے کوئی مسلمان فی الحقیقت کافر یا مرتد نہیں بنتا۔
(۲)ہم تو تاویل کرنے والے ہیں اور تاویل کرنے والے کی تکفیر جائز نہیں۔
(۳) وہ بے باکی اور دریدہ دہنی کے ساتھ اہلِ حق کے ان تکفیر کے فتوؤں کو دشنام طرازی سے اور کافر، مرتد، ملحد، زندیق، جاہل،اوربے دین وغیرہ احکام شرعیہ کو گالیوں سے تعبیر کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں:علما کو کافر قرار دینے اور گالیاں دینے کے سوا اور آتا ہی کیا ہے؟
خلاصہ اِ ن تمام باتوں کا یہی ہے کہ ملحدین اپنی باتوں کو تاویل سے تعبیر کرتے ہیں۔کیااُن کی تاویلات کی دین میں گنجائش ہے؟اس سلسلے میںصاحبِؒ روح المعانی فرماتے ہیں: الحاد کوئی ایسا کفر ہے جس کو یہ لوگ چھپانا چاہتے ہیں۔دنیا کے تمام کافر اپنے کفر کی تاویل کرتے ہیں، اگرہرتاویل معتبر مان لی جائے تو پھر تودنیا میں کوئی بھی کافر نہ رہے گا، کیونکہ مشرکینِ مکہ کی تاویل تو خود قرآن میں مذکور ہے کہ ہم ان بتوں کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کا مقرب بنادیں۔اس لیے فقہا ئے کرام نے فرمایا:صرف وہی تاویل ایمان کے دائرے کے اندر مانی جائے گی جس کی وجہ سے ضروریاتِ دین سے انکار لازم نہ آتا ہو۔
واضح رہے کہ ضروریاتِ دین سے مراد وہ عقائدواحکام ہیں جو اسلام اور مسلمانوں میں اتنے مشہور ہوں کہ عوام میں بھی ان کی واقفیت ہو، جیسے: (۱)نمازوں کی فرضیت اور نمازکی رکعتوں کی تعداد(۲)سود، شراب اور خنزیر کی حرمت وغیرہ ، لہٰذا ہر وہ قطعی اور یقینی امرِ شرعی جو اس قدر واضح ہو کہ اس کے تعبیر کرنے والے الفاظ اور ان کے معانی کو ہر اعلیٰ، ادنیٰ اور متوسط درجے کا آدمی بآسانی جانتا ہو اور ان کی مراد بھی اتنی واضح ہو کہ اس کے متعین کرنے کے لیے دلائل وبراہین کی ضرورت نہ ہو؛ تو اس پر بعینہ اور ہو بہو اسی ظاہری صورت میں بغیر کسی تاویل وتصرف کے ایمان لانا فرض ہے اور اس کا انکار یا اس میں تاویل وتصرف کرنا کفر ہے۔(اکفار الملحدین)
جیساکہ اس زمانے کے بعض بے دین اور ملحد’’ صلوٰۃ‘‘ کے لفظ کو عربی کے لفظ مصلِی(بمعنی دوڑ میں دوسرے نمبر پر آنے والے گھوڑے)سے مشتق مان کر صلوٰۃ کو ایک جسمانی ورزش قرار دیتے ہیں، یہ کفریہ تاویل ہے۔
ملحدین کے عقائدونظریات:
(۱) دنیا کسی خدا نے نہیں بنائی، بلکہ خودبخود وجود میں آئی ہے یا پھر پہلے سے موجود تھی اور مختلف اشکال میں ہمیشہ موجود رہے گی۔
(۲) صرف وہ باتیں یقین کے قابل ہیں، جن کا کوئی عقلی یا سائنسی ثبوت موجود ہو۔امورِ غیبیہ کا چونکہ عقلی یا سائنسی ثبوت نہیں،لہٰذا ہم ان کو تسلیم نہیں کرتے۔
(۳) ملحدین مذہبی قیود کے سخت خلاف ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں کسی قسم کی لچک کے قائل نہیں ہوتے۔
(۴)تقریباً تمام ہی ملحدین لچک دار نظریات کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے اگر کوئی تھیوری غلط ثابت ہو جائے یا ترمیم کے قابل ہو تو اس کوتسلیم کرتے ہیں۔
(۵) وہ سب کے لیے مرضی سے جینے کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں۔
جدید تعلیمی ادارےاورالحاد:
ملحدین نے بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے دنیاوی تعلیم کے بڑے ادارے قائم کیے، جن میں سیکولرزم جیسا خوب صورت نام رکھ کر الحاد کو پالاپوساگیا اور لوگ اعلی تعلیم کے خواب میں ان اداروں میں جاتے رہے اور انجانے میں الحاد کا شکار ہوتے رہے۔
ان اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے نام پر مذہب بے زاری کا سبق، مخلوط تعلیم کی آڑ میں نفس پرستی اور گناہوں کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے ۔یہ نظام ونصاب تعلیم اسی غرض سے وجود میں لایا گیا تھا،جیساکہ اس کے بانی لارڈ میکالے کا بیان ہے:’’ہمارے تعلیمی اداروں میں مسلمان عیسائی نہ بھی بنیں تو کم ازکم مسلمان بھی نہ رہیں گے۔‘‘ یعنی سیکولر لادین، نیچری اور ملحد بن جائیں گے۔اہلِ فراست اس چیز کو بہت پہلے ہی سمجھ گئے تھے،خود انگلستان کی اعلیٰ درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے خبردار کیا تھا؎
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا ’الحاد‘بھی ساتھ
اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اعلیٰ تعلیم کے نام پر جو ادارے قائم کیے گئے، انہوں نے الحاد کو گھر گھر تک پہنچایا، یہاں تک کہ بعض اچھے اچھے دین داروںکے بچے بھی پکے ملحد بنتے جارہے ہیں۔اس کے پیچھے بھی وہی عمل سے بھاگنے والا نظریہ کارفرماہے۔حالانکہ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ جب آپ کسی بھی ادارے میں جاتے ہیں اور اس کا حصہ بنتے ہیں ،چاہے وہ اسکول کالج یونیورسٹی وغیرہ ہو یا کوئی اور ادارہ؛اس کے قوانین کی پابندی کرنا ضروری ہوتی ہے۔جب دین کو مانا ،مسلم کہلائے تواَب دین کے احکام کو بھی ماننا پڑے گا ۔لادینیت چونکہ دینی احکام سے آزادی اور ہر طرح کی من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ فراہم کرتی ہے اس لیے ہمارے نوجوان بالخصوص اس کے دام میں آجاتے ہیں۔لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان سمیت اکثرمسلم ممالک میں اعلیٰ تعلیمی ادارے الحاد کا گڑھ بنتے جارہے ہیں۔ الحادی گروپوں میں سے ایک گروپ کا نام ہے :’’مجھے ملحد ہونے پر فخر ہے‘‘،اس گروپ کے 27000ارکان ہیں، ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ دنیا بھر کے علمی اداروں اور یونیورسٹیوں پر ان کا تسلط ہے۔
الحاد کی کامیابی کی وجہ:
سیاسی، معاشی اورمعاشرتی میدانوں میں الحاد کو مغربی دنیاکے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ سیاسی میدان میں الحاد کی سب سے بڑی کامیابی سیکولر ازم کا فروغ ہے، پوری مغربی دنیا اور مسلم دنیا کے بڑے حصے نے سیکولر ازم کو اختیار کرلیاہے۔ سیکولر ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو مسجد تک محدود کردیا جائے اور کاروبارِ زندگی کو خالصتاً انسانی عقل کی بنیاد پر چلایا جائے، جس میں مذہبی تعلیمات کا کوئی حصہ نہ ہو۔ مغربی دنیا نے تو سیکولر ازم کو پوری طرح قبول کرتے ہوئے اپنے مذہب کو گرجے کے اندر محدود کرکے کاروبارِ حیات کو مکمل طور پر سیکولرائز کر لیا ہے،لیکن ان کی اتباع میں مسلمانوں کی اشرافیہ(ایلیٹ کلاس) بھی الحاد کے اثرات کو قبول کرنے لگی، اور آخر کاربہت سے اسلامی ممالک نے سیکولر ازم کو بطورِ نظامِ حکومت قبول کرلیا۔دوسرے مسلم ممالک نے سیکولر ازم اور اسلام کا ایک ملغوبہ تیار کرنے کی کوشش کی ،جس میں بالعموم غالب عنصر سیکولر ازم کا ہی رہا۔
اسی طرح معاشی میدان میں کارل مارکس کی اشتراکیت یا کمیونزم کے نظریے نے الحادکے ڈھانچے میں نئی جان ڈال دی۔ مارکس اور ملحدفریڈرک اینجلزکے مشترکہ نظریے نے کمیونسٹ انقلاب برپا کیا، جس نے یکلخت ملحدوں کی تعداد لاکھوں کے ہندسے سے نکال کر کروڑوں تک پہنچا دی۔ لیکن اس زبردست کامیابی کے بعد بھی الحاد کا زور ابھی تک مخصوص خطوں میں تھا، جن میں کچھ یورپی ممالک ، جہاں نظریۂ ارتقابہت مقبول ہوا، اور روس ا ور چین شامل تھے جہاں کمیونزم کی وجہ سے دہریت پھیلی۔باقی متمدن دنیا اور خصوصاًمسلم دنیا میں اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر رہے۔
سوشل میڈیا:ملحدین کا اہم ترین ہتھیار
ملحدین نے الحاد کی تبلیغ کے لیے دنیا کے مختلف زونز میں خصوصی انٹرنیٹ گروپس تشکیل دیے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس قسم کی الحادی فکر رکھنے والے گروپس میں سے اکثر کا تعلق’’سوشل میڈیا‘‘سے ہے۔ پاکستانی نیٹ کی دنیا میں ملحدوں نے 2008ء کے اوائل میں اپنے قدم جمائے اور آہستہ آہستہ اپنا دائرہ عمل بڑھاتے چلے گئے۔پہلے پہل انہوں نے بلاگ بنائے ، جو انٹرنیٹ پرآزادیِ اظہار کا سب سے مؤثر طریقہ اور ایک طرح کی آن لائن ڈائری ہے،اس نے باقاعدہ عوامی مقبولیت اس وقت حاصل کی، جب اگست 1999ء میں ’پائرا لیبس‘ نامی ایک امریکی ادارے نے پہلی مفت بلاگنگ سروس شروع کی اور اس کا نام ’’بلاگر‘‘ رکھا۔ پھر رفتہ رفتہ دنیا بھر میں بلاگنگ کے تصور نے آزادیِ اظہار کے لیے انٹرنیٹ پرگویا ایک’ ہائیڈ پارک‘ دے دیا ۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت ہزاروں افرادایسی بلاگنگ کر رہے ہیں،جس کے ذریعے شعائرِ اسلام کا مضحکہ یا کم ازکم ان کے بارے میں شکوک پھیلائے جاتے ہیں۔ انگلش بلاگنگ توگویا سیکولرازم کی تبلیغ کے لیے وقف ہے، اردو بلاگنگ کی دنیا میں بھی کئی بلاگر ایسے ہیں جن کی تحریریں توہینِ اسلامِ کے زمرے میں آتی ہیں۔ایک عجیب بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اکثر اسلام کے مسلمہ اصول و ارکان کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے والے وہ پاکستانی ہیں ، جن کے نام بدستور مسلمانوں والے ہیں، اور وہ کھلے عام کفریہ باتیں کر کے اور ہر طرح کی گستاخی کر کے بھی اپنے کفر کا کھل کر اقرار نہیں کرتے، ان کی یہی رٹ ہوتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں ،بلکہ اصل مسلمان ہم ہی ہیں!
اللہ کی شان میں گستاخی، اس کے کلام پر اعتراضات کی بھرمار، رسول اللہﷺ کی صحیح احادیث کا مضحکہ اڑا کر اور جنت دوزخ اور دوسرے مغیبات کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلا کر بھی یہ لوگ مسلمان ہیں تو پتا نہیں کفر اور کیا ہوتا ہے!بقولِ اقبالؒ ع مجھے بتا تو سہی اور کافری کیاہے؟
چند ہی برس بعدپاکستانی ملحدین نے بلاگنگ سے ایک قدم آگے بڑھا کراور انفرادی طور پر کام کرنے کے بجائے متحد ہو کر پاکستان کے یومِ آزادی 14 اگست2011کو ایک ویب سائٹ (PAA )یعنی Pakistani Atheists and Agnostics groupکے نام سے لانچ کی۔ ایمان سوز عزائم کی حامل یہ ویب سائٹ بے حدمقبول ہوئی ، جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے لانچ ہونے کے اگلے 48گھنٹوں میں 95ممالک سے 17000افراد نے اس کو دیکھا ، پسند کیا، اور اس میں اکثریت مسلمان ناموں کی رہی،یعنی وہ لوگ جو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے لیکن اب ملحد ہیں اور اپنے کوCloset Atheist یعنی چھپا ہوا ملحد کہتے ہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مسلم معاشرے میں الحاد کا اعلان کرنے میں اپنی جان کا خطرہ ہوتاہے، ورنہ ہماری تعداد بہت زیادہ ہے۔اور زیادہ عبرت کی بات یہ ہے کہ نیٹ ٹریفک کے اعدادو شمار کے اعتبار سے اس ویب سائٹ پر پچانوے ممالک میں سے سب سے زیادہ وزیٹرز پاکستان، سعودی عرب اور امریکہ کے تھے،صرف دو دن میں پاکستانی ملحدین کو اس ویب سائٹ کے ذریعے پانچ سو ممبر مل گئے ۔
ساری دنیا کے ملحدین نے پاکستانی ملحدین کی اس موقع پر ہمت بندھائی اور کہا کہ تم اکیلے نہیں ہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب ملحدین کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ انہوں نے سوشل گروپس کے علاوہ فلم، ٹی وی اور پرنٹ میڈیا میں بھی ڈھکے چھپے انداز میں اسلامی احکام اور ارکان کے خلاف شکوک پھیلانے شروع کر دیے ہیں۔
ملحدین کااصل ہدف اسلام:
اللہ تعالیٰ کا آخری،پسندیدہ اور سچادین’دینِ اسلام‘ملحدین کا خاص ہدف ہے۔ اسلام کا تمسخر تمام ملحد گروپوں کا مشترکہ مقصد ہے،جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ اپنا اصل حریف اسلام کو ہی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر مناقشے اسلام کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ اب تک انٹرنیٹ پر اس قسم کے قریباً ساڑھے چار سو سے زائدمناظرے ہو چکے ہیں، جن میں جنت و دوزخ کا تخیل، قرآن بحیثیت ِکلامِ الہی اور رسالت جیسے موضوعات زیر بحث لائے گئے۔ ان بحثوں میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر نازیبا تنقیدیں کی گئیں۔ ملحدین کا باقاعدہ لٹریچر انٹرنیٹ پر موجودہے، جس میں نظریۂ ارتقاکے علاوہ جان کوز کی ایک کتاب بھی ہے جس کا نام ’’ملحدین کی مقدس کتاب‘‘ہے۔اس لٹریچر کے علاوہ انٹرنیٹ پرملحدین کا ایک ویڈیو چینل بھی ہے، اس الحادی چینل کا نام Channel Chakooniہے، جس کا آغاز2006ء میں ہوا۔ اس چینل سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد 80000 تک پہنچ چکی ہے۔ اس چینل پر اظہار ِخیال کرنے والے بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ: مذاہب کی کوئی حقیقت نہیں، یہ خیالی داستانیں ہیں۔
وہ مرتدین، جو اسلام چھوڑ کر ملحد ہوئے، ملحدین کے کچھ خاص آئیڈیل بھی ہیں، یہ ان لوگوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔پاک و ہند کے وہ ملحد ،جو کبھی مسلمان تھے، دورِ جاہلیت کا شاعرامیہ بن ا بی ال صلت،چھٹی صدی ہجری کے مشہور فلسفی اورمتکلم ابنِ رشد، آزاد منش ادیب نیاز فتح پوری ،مشہور سیکولر تاریخ دان پروفیسر مبارک علی اورمصری ملحد ادیب طٰہ حسین ملحدین کے ہیروز ہیں۔ امیہ بن ا بی ال صلت کے بارے میں ملحدیں کا دعویٰ ہے کہ قرآن نعوذ باللہ! اس کلام کی نقل ہے۔جبکہ عرب ملحدین ،اسلام کے رد کے لیے طٰہ حسین کی کتاب ’’فی الشعر الجاہلی‘‘کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، جس میں اس نے اسلام اور عربوں کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا ہے۔
مسلم عورتیں الحاد کے راستے پر:
اسلامی دنیا میں مردوں کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ عورتیں بھی، اسلام کے جداگانہ صنفی احکامات کو بنیاد بنا کر(جو فطرت کے قریب اور انتہائی خوب صورت احکامات ہیں) اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کرنے لگی ہیں،جس کا لازمی نتیجہ خاندانی نظام کے خاتمے اور فری سیکس کے فروغ کی شکل میں نکل رہاہے،کیونکہ جنسی زندگی سے متعلق آداب انسان کواللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام ہی کے واسطے سے بتلائے ہیں۔ اور جب ایک مرد یا عورت، خدا اور انبیاہی کا انکار کردیں تو پھر اُن کی راہ میں ایسی کون سی رکاوٹ ہے جو انھیں دنیا کی کسی بھی عورت یا مرد سے آزادانہ صنفی تعلقات قائم کرنے سے روک سکے اورجب’ حیات بعد الموت‘ اور ’محاسبہ‘ کا یقین اٹھ جائے توپھرانسان اس دنیاوی زندگی کو لذت کا جہان بنانے کے لیے نئے نئے راستے کیوں نہ نکالے گا؟ پھر تو ہم جنس پرستی کاطوفان بھی اٹھے گااور اس سے آگے بڑھ کر محرم خواتین کا تقدس بھی پامال کیا جائے گا۔
الحاد کے فتنے سے نسلوں کی حفاظت کیسے؟
اپنی نسلوں کو الحاد سے بچانے کے لیے ہمیں کچھ اقدامات کرنے ہوںگے،جو ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:
(1) انٹرنیٹ کے منفی پہلو، اس کے مثبت پہلوؤں سے کئی گنا بڑھ کرسامنے آ رہے ہیں۔خصوصاً اُن نوجوانوں کے لیے یہ بے حد خطرناک ہیں، جن کے ذہن سادہ سلیٹ کی طرح ہوتے ہیں اورجن پر کوئی بھی اپنے نظریات کی تحریر لکھ سکتا ہے، ایک ایسی تحریر جو اکثر اَن مٹ ثابت ہوتی ہے۔اس لیے نوجوانوں کو نیٹ استعمال کرنے کی کھلی آزادی دینے کے بجائے ان کی نگرانی بہت ضروری ہے۔اگر کوئی نوجوان فارغ اور بے کاربیٹھا،دن بھر انٹرنیٹ میں وقت برباد کرتا رہتاہے تو اسے کسی تعمیری سرگرمی میں مصروف کر دینا چاہیے،کیونکہ خالی گھر میں شیطان ڈیرہ ڈال ہی لیتے ہیں۔
(2) مسلمان الحاد کی گھاٹیوں میں تب ہی اترتا ہے، جب اسے شکوک و شبہات اور وسوسے گھیر لیتے ہیں اور وہ کسی سے اس کا جواب نہیں پاتا یا پھر اپنی عقل پر بھروسا اسے کسی سے کچھ پوچھنے نہیں دیتا، یوں اندر ہی اندر شیطانی وسوسے بالآخراللہ تعالیٰ کے انکار کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وسوے ہر ایک کو آتے ہیں، اس لیے کبھی کوئی نوجوان اپنے والدین،اساتذہ،علماء کرام یا کسی بھی بڑے کے سامنے اپنے وسوسے کا اظہار کرے تو اسے سختی سے جھٹلانے،اس پر فتوے لگانے یااسے بلا تحقیق کسی کاآلہ کار قرار دے کر دھتکارنے کے بجائے:
الف: بڑی حکمت عملی سے اس کو تسلی بخش جواب دینے،شفقت سے سمجھانے اور حکمت وبصیرت سے اس کا ذہن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ب:اگر کوئی بہت بری طرح وسوسوں کا شکار ہو، تو کسی محقق عالم دین کے پاس لے کر جانا چاہیے۔
(3)اپنی آنے والی نسلوں کو گمراہی، بد عملی اور الحاد و لادینیت جیسی بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے قوم کے مفکر، اہلِ وسائل اور ذی وقار شخصیات ایسے تعلیمی ادارے قائم کریںجن میں دینی اور دنیاوی تعلیم کا بہترین سنگم ضرور ہو، تاکہ وہ بچہ جسے ہم ڈاکٹر، انجینئر یا وکیل بنانا چاہتے ہیں وہ دینی اور مذہبی اقدار سے غافل نہ ہو ،بلکہ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ دینی تعلیم کابھی حامل اور اس پر عمل پیر اہو۔عوام کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر دنیاوی تعلیم دلانے کے چکر میں آپ نے اپنے بچے کو دین سے دور کردیا اور وہ بچہ اسکولوں، کالجوں اوریونیورسٹیز میں پڑھ کر ملحداور دین بیزار بن گیا تو اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟
(4)اس سلسلے میں اربابِ اختیار واقتداراوراہلِ تحقیق کو بھی کچھ اقدامات کی ضرورت ہے:
الف:پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں سے یہ الحاد کی پراڈکٹ درآمد ہو رہی ہے، اس پر قانونی پابندی لگانی چاہیے، جیسا کہ ملحدوں کی کتابوں کے انگریزی سے اردو ترجمے وغیرہ۔
ب:دوسری بات یہ ہے کہ جو الحاد انگریزی میں ہے، اس کا جواب انگریزی میں آنا چاہیے اور جو اردو میں ہے اس کا جواب اردو میں دے دیا جائے۔
ج:تیسری بات جو اہم تر ہے، وہ علمی الحاد اور نفسانی الحاد کا جدید علم نفسیات کی روشنی میں تجزیہ ہے۔ جس دن ہم یہ کام کر لیں گے، اس دن ہم فلسفیوں، فلسفے، ملحدوں اور الحاد کا ذہنی تکبر خاک میں ملا دیں گے۔
د:ذہنی الحاد اور نفسانی الحاد دونوں اصل میں نفسیاتی مسائل ہیں، مثلا: دیسی ملحد عام طور وہ ہوتے ہیں، جنہیں گھر میں بچپن میں کم توجہ ملی ہو یا وہ معاشرے میں اس سے زیادہ توجہ کے خواہاں ہوں کہ جو انہیں مل رہی ہوتی ہے، لہٰذا وہ معاشرے میں توجہ حاصل کرنے کی شعوری اور لاشعوری کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں اور جب ان کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ خدا کے بارے شکوک وشبہات کا اظہار کر کے وہ جلد ہی لوگوں میں توجہ حاصل کر سکتے ہیں تو وہ اس قسم کی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو علمی جواب دینا وقت کا ضیاع ہے۔ آپ اگر ان کا بہتر علاج چاہتے ہیں تو انہیں توجہ دیں، انہیں اہمیت دیں، ان کا مسئلہ ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔
الحاد کا رد بھی ضروری ہے اور علاج بھی!
الحاد کے رد سے لوگ مسلمان نہیں ہوتے ہیں بلکہ ملحدوں کا شر کم ہو جاتا ہے۔ الحاد کے علاج سے مراد یہ ہے کہ ہمارا مقصد ملحدوں کو لاجواب کرنے کے بجائے دین کی طرف راغب کرنا ہے اور علاج میں عقلی ومنطقی دلیلیں کم ہی مفید ہوتی ہیں۔ الحاد کا علاج صرف اور صرف قلبی اور روحانی طور ممکن ہے کہ جو نبیوں اور رسولوں کا طریق کار تھا یعنی صحبتِ صالحین یا قرآن مجید کی صحبت وغیرہ یعنی قرآن سے تعلق کا وہ درجہ کہ جس کے اہل کو حدیث میں صاحبِ قرآن کہا گیا ہے۔
ذہنی الحاد کا نفسیاتی جائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اس کی وجہ کثرت سے فلسفے اور نظریاتی سائنس کا مطالعہ ہے۔ انسان کی ذہنی ساخت ایسی ہے کہ اگر سارا دن مرغیوں کے بارے پڑھے گا تو خواب میں بھی اس کو مرغیاں ہی نظر آئیں گی؛ تو اگر ایک شخص تسلسل سے خدا کے بارے شکوک وشبہات پر مبنی لٹریچر کا مطالعہ کرے گا یا ویڈیوز دیکھے گا تو اس کو تو بیداری کیا خواب میں بھی شکوک وشبہات پیش آئیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ الحاد انسان کا فطری مسئلہ کبھی بھی نہیں رہا ، نہ علمی الحاد اور نہ نفسانی؛ سب خارجی اسباب کی وجہ سے ہے۔ آپ اس سبب کو تلاش کر کے دور کریں، الحاد ختم ہو جائے گا۔ قرآن مجید الحاد کو علم کے مقابلے میں ظن وتخمین سے زیادہ مقام نہیں دیتا۔ اور فلاسفی کل کی کل ظن وتخمین ہی ہے۔
اربابِ اختیار سے مطالبہ:
ان سطور کے ذریعے ہم اربابِ اختیار سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک کمیٹی بنا ئی جائے، جو ایسی تمام الحاد کی مبلغ ویب سائٹس اور بلاگز،بلاگرزاور ان کے سرپرستوں کی فہرست بناکر حکومت کو پیش کرے، تا کہ ان تمام ویب سائٹس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مکمل پابندی لگائی جائے اور ان ملحدین اور ان کے سرپرستوں کو،چاہے وہ کہیں بھی اور کسی بھی بڑے سے بڑے منصب پر فائز ہوں،گرفتار کرکے امت کو ان کے شر سے بچایا جائے ،کیونکہ یہ ایمان و کفر کا مسئلہ ہے۔
تبصرہ لکھیے