جبل زیتون کہنے کو تو صرف ایک پہاڑی ہے لیکن اس پہاڑ کے ہر ہر چپے سے کوئی نہ کوئی کہانی وابستہ ہے ۔ یہاں قدم قدم پر تاریخ کے صدیوں پرانے ہوش ربا نشانات دامن تھام لیتے ہیں اور آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں ۔
میں نے جب جبل زیتون پر لکھنے کے لئے تاریخ کے اوراق کھنگالنے شروع کئے تو مجھ پرحیرت انگیز انکشافات ہوئے کہ اس پہاڑی چوٹی سے کس طرح یہودیوں اور عیسائیوں کا مستقبل جڑا ہے اور خاص طور پر یہودیوں کے لئے اس کی کتنی زیادہ اہمیت ہے.
جبل زیتون صرف ایک پہاڑی چوٹی ہی نہیں بلکہ یہ جگہ ان کی تگ ودو کا محور ہے اسرائیل کے وجود اور قیام کی ضامن ہے یہ چوٹی وہ پہلا پڑاؤ ہے جہاں سے ان کے ارض اسرائیل Eretz Israel اور تابناک مستقبل کا دروازہ کھلتا ہے ۔ یہودیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن وادی قدرون میں اللّہ تمام قوموں کو اکٹھا کرے گا۔ اور ان سے یہودیوں پر ہونے والے مظالم کا حساب لے گا ۔
Joel 3:22
“I will gather all the nations and bring them down to the valley of Jehoshaphat (Kidron Valley )
and I will enter into judgment with them there, on account of my people and my heritage Israel, because they have scattered them among the nations. They have divided my land,”
میں سڑھیاں چڑھ کر كنيسة باتر نوستر Church of Pater Noster میں داخل ہوا ۔ یہ ایک بڑا اور کھلا چرچ ہے ۔ جس کی بیرونی دیواروں اور کاریڈور کی دیواروں پر ملاکی کی پیشن گوئیاں لکھی تھیں ۔ درحقیقت یہ دو پیشین گوئیاں ہیں جنہیں دس بارہ مختلف زبانوں میں لکھا گیا ہے ۔ ایک طرف صحن میں اس ڈینش پادری کی قبر تھی جس نے گیارہویں صدی عیسوی میں پہلی بار اس چرچ کی تعمیر کے لئے سرمایہ فراہم کیا تھا ۔
چرچ کے احاطے کا ایک چھوٹا دروازہ اس مقبرے میں کھلتا ہے جس میں فرانسیسی شہزادی اوریلیا باسی Bossi Aurelia de la Tour d'Auvergne کا مدفن ہے یہ پتھر کا ایک بڑا خوبصورت تابوت ہے جس کے ڈھکنے پر شہزادی کی شبہیہ بنی ہے ۔ خانقاہ کی موجودہ عمارتیں اور یہ چرچ شہزادی اوریلیا کا تعمیر کدہ ہے ۔ حضرت عیسی کا یہ غار گردش دوراں کی زد میں آکر چرچ کے منہدم ہونے کے بعد گم ہو گیا تھا ۔ شہزادی نے حضرت عیسیٰ کی اس غار کو ڈھونڈنے میں اپنی ساری زندگی صرف کر دی تھی اس کا انتقال ۱۸۸۹ء میں فلورنس میں ہوا لیکن اس کی آخری خواہش کے مطابق اس کی لاش کو اس چرچ میں لا کر دفن کیا گیا ۔ اس کے مرنے کے بعد۱۹۱۰ء میں یہ غار عین اسی جگہ پر دریافت ہوا جہاں شہزادی نے نشاندہی کی تھی ۔
میری خواہش تھی کہ میں بھی یہ غار اندر سے دیکھوں جس میں عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت الیاس کا ظہور ہوگا اور وہ حضرت عیسیٰ کے مسیح ہونے کی گواہی دیں گے لیکن وہاں ایک لمبی قطار میں لوگ گھنٹوں سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ایک وقت میں صرف تین آدمی غار کے اندر داخل ہو سکتے تھے ۔یہ لمبی قطار دیکھ کر میری خواہش دم توڑ گئی ۔ وقت کم تھا ۔ میں کسی کو بتائے بغیر ہی اوپر چڑھ آیا تھا ۔ اس لئے میں اس قطار میں کھڑا ہوکر اپنی باری کےآنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا ۔
مجبوراً میں ایک طائرانہ نظر اس چرچ کے باقی ماندہ حصوں پر ڈالتا باہر نکل آیا اور صدیوں پرانے چھوٹے سے دروازے میں سے گذرتا ہوا ایک بڑے احاطے میں داخل ہوگیا ۔ جس کے عین درمیان میں ایک گنبد نما ہشت پہلو عمارت کھڑی تھی ۔ یہ وہ جگہ تھی جس کی مجھے صبح سے تلاش تھی۔ اس عمارت کے باہر لوگوں کا ایک جھمگھٹاسا لگا تھا ۔ وہ اپنی باری آنے پر اندر داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتے ۔
یہ گنبد نما کمرہ اس عظیم الشان چرچ کی واحد باقی ماندہ عمارت ہے جو تیسری صدی میں پہلے بزنطینی شہنشاہ قسطنطین اول کی ماں ملکہ ہیلنانے بنوایا تھا ۔ اس کمرے کے اندر پتھر کی ایک سلیب پر حضرت عیسیٰ کے دائیں پاؤں کا نقش کندہ ہے ۔ Act of John میں حضرت عیسیٰ کے دونوں پاؤں کے نقوش کا ذکر ملتا ہے لیکن بائیں پاؤں کا نقش حوادث زمانہ کی نذر ہوگیا۔
اس عمارت کو مسجد صعود اسماء Church of Ascension کہتے ہیں ۔
عیسائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ کی پیدائش بیت اللحم Bethlehem میں ہوئی جو یروشلم سے آٹھ کلومیٹر دور ہے ۔ ابھی وہ شیر خوار ہی تھے کہ حضرت مریم انہیں لے کر الناصرہ آ گئیں اور یہیں حضرت عیسیٰ کی پرورش کی ۔ اسی لئے تاریخ میں حضرت عیسٰی کو Jesus of Nazareth” الناصرہ کے یسوع “ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ الناصرہ کو لوقا کی انجیل میں A town of Galilee and home of Mary کہا گیا ہے ۔ یہ شہر بحیریہ طبریہ Sea of Galilee سے پچیس کلومیٹر دور شمال کی طرف واقع ہے ۔ اور یروشلم سے تقریباً ایک سو چالیس کلومیٹر دور ہے ۔
۲۸ عیسوی میں وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ساتھ الناصرہ سے جیریکو آئے جہاں حضرت یحییٰ نے تیس سال کے عمر میں دریائے اردن کے پانی سے ان کا بپتسمہ Baptism کیا ۔ بپتسمہ کے بعد انہوں نے چالیس دن تک صحرائے یہودہ میں روزے رکھے اور اللّہ کی عبادت کی جس کے بعد انہیں نبوت عطا ہوئی اور نبوت ملنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے یروشلم کا رخ کیا اور سڑک کے ذریعے پہلی مرتبہ عید فسح Passover کے موقع پر یروشلم پہنچے کیونکہ یروشلم اس وقت سلطنت یہودہ کا سیاسی معاشرتی اور معاشی گڑھ تھا ۔ اس کا ذکر تین انجیلوں متی Matthew لوقا Luke اور مرقس Mark میں موجود ہے ۔ وہ مقام جہاں حضرت عیسٰی کا بپتسمہ ہوا وہ آج کل اردن میں واقع ہے اور اسے المغطس Al Maghtas کہتے ہیں ۔
بپتسمہ ایک عیسائی رسم ہے جس میں بچے کو دریائے اردن کے پانی سے غسل دیا جاتا تھا ۔ آج کل دریائے اردن کے پانی کے چند قطروں کا چھڑکاؤ ہی بپتسمہ کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے۔ عیسائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ تین بار یروشلم تشریف لائے تھے اور تینوں مرتبہ انہوں عید فسح کے موقع کا انتخاب کیا تھا ۔
۳۱ عیسوی میں حضرت عیسٰی دوسری بار یروشلم آئے اور انہوں نے ایک مردہ آدمی ( یت عنیاہ کے لعزر Lazarus of Bethany) کو زندہ کیا جسے مرے ہوئے چار دن ہو چکے تھے ۔ تو یہودی اشرافیہ اور مذہبی طبقہ جو پہلے ہی ان کی شہرت سے خائف اور نالاں تھا اس نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ۔ یہ خبر ملنے پر وہ اپنے حواریوں کے ساتھ جریکو کے قریب ایک گاؤں افرائیم Ephraim میں آگئے اور بہت عرصہ یہاں مقیم رہے ۔ اسی سال جب یہودیوں کے سالانہ تہوار عید فسح (Passover)کا موقع آیا تو وہ اس میں شریک ہونے کے لئے گدھے پر سوار ہو کر یروشلم کے لئے روانہ ہوئے ۔
عید فسح یہودیوں کے تین بڑے سالانہ تہواروں میں سب سے زیادہ اہم ہے ۔ وہ یہ تہوار سات دن تک ہرسال بہار کے موسم میں مناتے ہیں اور اس کا آغاز ۱۵ اپریل کے لگ بھگ ہوتا ہے ۔ کتاب خروج Book of Exudes کے مطابق اس دن انہیں مصر میں فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی ۔ یہ حضرت عیسیٰ کی زندگی کا آخری ہفتہ تھا جسے انجیل میں مقدس ہفتے Holy Week کا نام دیا گیا ہے۔ اسے ایسٹر Easter week بھی کہتے ہیں ۔ جبل زیتون پر لوگوں نے کھجور کی ٹہنیاں لہرا کر اور اپنے جبے اور قمیضیں ان کی راہ میں بچھا کر ان کا والہانہ استقبال کیا ۔ یہ اتوار کا دن تھا اس لئے اسے Palm Sunday کہا جاتا ہے ۔
انجیل میں حضرت عیسٰی کی زندگی کے اس آخری ہفتے کا ہر دن مقدس مانا جاتا ہے اور عیسائی اسے ایسٹر ویک کے طور پر مناتے ہیں ۔ اسی ہفتے جمعہ Good Friday کے دن ان کو صلیب میں چڑھا دیا گیا ۔ ہولی ویک Holly week کا اختتام ایسٹر اتوار Easter Sunday پر ہوتا ہے جس دن وہ دوبارہ زندہ ہو گئے تھے ۔
یہ واقعات تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ چاروں انجیلوں میں درج ہیں ۔ عیسائیوں کی ساری ہی کتابوں میں تھوڑے بہت واقعات اور مقامات کے اختلاف کے باوجود اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ کو وادی قدرون میں جبل زیتون کی ڈھلوان پر واقع باغ گستمنی Gethsemani سے گرفتار کیا گیا۔ حضرت عیسٰی نے اپنے “ آخری کھانے The Last Supper” کے بعد اپنی آخری رات اس باغ میں گزاری تھی ۔ یہ جمعرات کا دن (Holy Thursday )تھا۔
حضرت عیسیٰ کے اس آخری کھانے کا تذکرہ قرآن کی سورة المائدہ میں بھی موجود ہے۔ رومی سپاہیوں نے انہیں دو دوسرے آدمیوں کے ساتھ گرفتار کرکے یہودیوں کے ایک عدالتی جرگے کے سامنے پیش کیا ۔ یہ دونوں آدمی حضرت عیسیٰ کے ہم شکل تھے اور بڑے مشہور چور تھے لیکن حضرت عیسیٰ سے ملنے کے بعد ان پر ایمان لے آئے ۔ یہودیوں کے اس جرگے کو سنہردرین Sanhedrin کہاجاتا تھا ۔ اس جرگے کی کاروائی جبل زیتون کے اسی باغ میں منعقد ہوئی ۔ اور جب یہودی جرگے کو حضرت عیسیٰ کی شناخت میں مشکل پیش آئی تو یہوداہ آسکریوتی Judas Iscariot نے انہیں شناخت کرنے کے لئے ان کے رخسار پر بوسہ دیا ۔ جو تاریخ میں یہودا کا بوسہ Kiss of Judas کے نام سے مشہور ہے ۔ یہوداء حضرت عیسیٰ کا حواری تھا لیکن کچھ رقم کے عوض اس نے غداری کی اور حضرت عیسیٰ کی مخبری کر دی۔ بعض روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ کو مسجد صعود اسماء سے گرفتار کیا گیا۔ اکثر مورخین متفق ہیں کہ یہ ۳۰ ء یا ۳۳ء کا سال تھا ۔ باغ گستمنی میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور ان پر یہودیوں کے مقدس ہیکل کو جادو کے ذریعے نذر آتش کرنے کی سازش اور یہودیوں کی مسلمہ مذہبی روایات کو جھٹلانے کا الزام عائد کیا گیا ۔ حضرت عیسیٰ ان الزامات کے جواب میں خاموش رہے ۔
جرگے نے انہیں ملزم قرار دے کر سزائے موت کا حکم سنایا اور انہیں فلسطین کے گورنر پیلاطس Pontius Pilates کے حوالے کر دیا۔ یہ دوسرے رومی شہنشاہ طبریس جولیئس سیزر Tiberius Julius Caesar کا زمانہ تھا۔ پیلاطس نے یہودی جرگے کی طرف سے سنائی سزا کی توثیق کرتے ہوئے انہیں صلیب پر چڑھانے Crucifixion کا حکم دے دیا ۔ بعض عیسائی فرقوں کے نزدیک پیلاطس نے یہ اقدام یہودیوں کے مجبور کرنے پر اٹھایا اور وہ حضرت عیسیٰ کو سزائے موت دینے کے حق میں نہیں تھا ۔ اس لئے وہ پیلاطس کو سینٹ کا درجہ دیتے ہیں ۔ رومی سپاہی انہیں اذیتیں دیتے ہوئے گلگتا (Golgotha) کیولری کے مقام پر لے گئے جہاں انہیں جمعہ کے دن (Good Friday ) صلیب پر چڑھا دیا گیا اور وہیں انہیں دفن کر دیا گیا ۔ اناجیل (متی ، لوقا ، یوحنا ، مرقس) کے مطابق یہ مقام اس وقت یروشلم کی دیواروں کے باہر واقع تھا ۔ اور بعد میں ملکہ ہلینا کے حکم پر یہاں ایک چرچ بنایا گیا جو عیسائیوں کا سب سے مقدس ترین مقام تصور ہوتا ہے ۔ اس کا نام کلیسائے مقبرہ مقدس Church of the Holy Sepulchre ہے۔ آج کل یہ چرچ مشرقی یروشلم کی فصیلوں کے اندر کرسچئین کواٹرز میں واقع ہے
مسیحی عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ اپنے مصلوب ہونے کے تیسرے دن دوبارہ زندہ ہوگئے۔ متی کی انجیل Gospel of Matthew میں لکھا ہے کہ حضرت عیسٰی کے دفن کے دوسرے دن ( سبت ہفتہ ) جرگے کے تمام یہودی علماء پیلاطس سے ملے۔ اور اسے کہا کہ '' وہ دھوکے باز جب زندہ تھا۔ تو اس نے کہا تھا کہ تین دن بعد میں دوبارہ جی اٹھوں گا یہ بات اب تک ہمیں یاد ہے۔ اس لیے تین دن تک اس قبر کی سختی سے نگرانی کا حکم دو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے ماننے والے اس کی لاش کو چرا کر نہ لے جائیں۔ اورپھر وہ لوگوں سے یہ کہیں گے کہ وہ زندہ ہو کر قبر سے اٹھ گیا ہے۔ اور یہ پچھلا دھوکہ پہلے سے بھی برا ہو گا۔'' جس پر پیلاطس نے حکم دیا کہ ”تم چند سپاہیوں کو ساتھ لے جاؤ اور جس طرح چاہتے ہو قبر پر پوری چوکسی کے ساتھ نگرانی کرو۔“ وہ گئے اور قبر کے منہ کو پتھر سے بند کر دیا اور چند سپاہیوں کی نگرانی میں وہاں پر سخت پہرہ بٹھا دیا-
جب سبت ( ہفتے ) کادن گذر گیا۔ تو اتوار کے دن (Easter Sunday)مریم مگدلینی اور دوسری مریم' آپ کی قبر پر خوشبوئیں اور پھول لے کر آئیں تو پتھر کو لڑھکا ہوا پایا اور قبر خالی تھی ۔ یوں آپ چالیس روز تک اپنے ماننے والوں کو دکھائی دیتے رہے۔ اس کے بعد آپ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ چالیس دن کے بعد وہ جبل زیتون کے کلیساء صعود سماء Church of Ascension سے آسمان پر تشریف لے گئے ۔ اور اس وقت ان کے قدموں کے نشان ایک پتھر کی چٹان پر ثبت ہوگئے ۔
اس عمل کو عیسائی مذہب میں resurrection of Jesus کہتے ہیں ۔ جس کے مطابق اللّہ نے انہیں جنت میں اٹھا لیا اوران کامرتبہ اپنے برابر بلند کردیا ۔ یوں انہوں نے قیامت تک کے لئے ساری دنیا کے عیسائیوں کے گناہ کا کفارہ اداکر دیا ۔ اور وہ قیامت سے پہلے مسیح کے روپ میں دنیا میں واپس تشریف لائیں گے اور ان کی واپسی کس جگہ پر ہوگی اس پر عیسائیوں میں اختلاف ہے بعض فرقوں کا کہنا ہے کہ ان کی واپسی جبل زیتون پر ہوگی اور کچھ کا ماننا ہے کہ وہ دمشق کی اموی مسجد میں واپس آئیں گے جو کسی دور میں چرچ ہوا کرتا تھا ۔
جبکہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا اوران کی جگہ ان کا ایک ہم شکل صلیب کی نذر ہوا ۔ ان کا دوبارہ ظہور قیامت کے نزدیک دمشق کی اموی مسجد میں ہوگا۔جہاں وہ مسجد کے مشرقی مینار سے آسمان سے نیچے اتر کر اس وقت مسجد میں تشریف لائیں گے جب فجر کی نماز کے لئے صفیں کھڑی ہو چکی ہوں گی اور امام مہدی امامت کے لئے تیار ہوں گے ۔
میں اس گنبد نما کمرے میں داخل ہوا تو کمرے کے عین درمیان میں پتھر کی ایک سلیب پر کسی انسان کے قدموں کے نشان ثبت تھے ۔ جس کے سرہانے کئی موم بتیاں جل رہی تھیں ۔ عیسائی زائرین اس سلیب کو سجدہ کرتے اور بوسہ دیتے اور پھر دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتے ۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی پیمائش تقریباً ۳x۳ تھی ۔ اس کے ایک طرف محراب بنی تھی ۔ جیسی مسجدوں میں ہوتی ہے ۔ زیادہ ٹھہرنے اور غور وفکر کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ میرے پیچھے زائرین کی بہت لمبی قطار بے چینی سے اپنی باری کی منتظر تھی لہٰذا میں ایک طائرانہ نظر کمرے اور حضرت عیسیٰ کے قدموں والی سلیب پر ڈالتا باہر نکل آیا ۔ اس گنبد نما کمرے سے چند قدم دور دیوار کے ساتھ ایک مسجد بھی بنی تھی جسے زاویہ رابعہ بصری کہتے ہیں ۔
کبھی اس سارےاحاطے میں ملکہ ہلینا کا بنایاہوا شاندار چرچ تھا جسے ان یہودیوں نے میلا میٹ کر دیا جو ۶۱۴ء میں کسریٰ ایران خسرو پرویز کی فوجوں کی راہنمائی کر رہے تھے ۔ ۱۰۹۹ء میں پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب یروشلم صلیبیوں کے قبضے میں آیا تو انہوں نے اس جگہ ایک دوسرا چرچ تعمیر کر لیا ۔ عیسائیوں کا الزام ہے کہ ۱۱۸۷ء میں جب صلاح الدین ایوبی کی افواج یروشلم میں داخل ہوئیں تو انہوں نے اس چرچ کو گرا دیا اور اس کی جگہ مسجد تعمیر کر لی اور اس گنبد نما کمرے میں موجود محراب غالباً اسی دور کی یاد گار ہے ۔ جب یہ واقعہ صلاح الدین ایوبی کے علم میں آیا تو اس نے فوراً اس عمارت میں نماز پر پابندی لگا دی اور اس گنبد سے چند میٹر دور ایک نئی مسجد تعمیر کروانے کا حکم دیا ۔ کیونکہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق اس جگہ حضرت رابعہ بصری کا مزار تھا ۔ یہ مسجد احاطے کی شمال مغربی دیوار کے ساتھ بنی ہے اس کے مین ہال سے سٹرھیاں ایک تہہ خانے میں اترتی ہیں ۔ جس کے اندر ایک قبر ہے اور یہ قبر بھی تنازع سے خالی نہیں تینوں مذاہب کا اس پر دعویٰ ہے ۔
عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ قبر پانچویں صدی عیسوی کی سینٹ پیلاجیا آف انطاکیہ Pelagia of Antioch کی ہے ۔ پیلاجیا انطاکیہ کی رہنے والی تھی ۔ وہ ملک شام کی معروف مغنیہ تھی اور اپنے حسن و جمال کے لئے پورے ملک میں مشہور تھی ۔ ملک بھر کے امیر زادے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اس کے دروازے پر گھنٹوں کھڑے رہتے پھر ایک دن وہ بڑے چرچ کے سامنے سے گذری چرچ کے اندر گھنٹی بج رہی تھی جس کی سحر انگیز آواز نے اس پر جادو سا کردیا وہ اندر داخل ہوئی تو اندر پادری سینٹ نونس St. Nonnus حضرت عیسیٰ کے صلیب پر چڑھائے جانے اور آسمانوں پر جانے کے واقعے کا ذکر کر رہا تھا۔اس کی کایا پلٹ گئی اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جبل زیتون پر آبسی اور مرد کے روپ میں ایک کٹیا بنا کر یہاں رہنے لگی ۔ یہ کٹیا کلسیائے صعود اسماء سے زیادہ دور نہیں تھی ۔راہبانہ زندگی اختیار کرنے کے بعد اس نے شدید ریاضیت شروع کر دی اور کئی کئی روز تک روزہ رکھتی ۔ اس کے دن رات اللّہ کی عبادت میں گذرنے لگے اور چند سالوں کے بعد اس شدید ریاضت کے نتیجے میں وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی اور یوں ہی بھوک پیاس کے نتیجے میں ایک دن اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔ اس کی وفات کا سال ۴۵۷ء بتایا جاتا ہے ۔ اس کے مرنے کے بعد عیسائیوں نے اسے سینٹ کا درجہ دیا اور اس کی کٹیا پر ایک چرچ تعمیر کیا گیا ۔ جسے ایرانیوں نے ۶۱۴ء میں تباہ کر دیا ۔ چودھویں صدی عیسوی میں انطاکیہ کے ایک پادری نے رابعہ بصری کی قبر کو پیلاجیا کی قبر قرار دیا اور اس پر دعویٰ کر دیا ۔ اس دن سے عیسائی اس قبر کو پیلاجیا کی آخری آرامگاہ قرار دیتے ہیں ۔ اور ہرسال ۸ اکتوبر کو اس کا دن مناتے ہیں ۔
جبکہ یہودیوں کایہ دعویٰ ہے کہ یہ قبر ان کی خاتون پیغمبر خلدہ Hulda کی ہے ۔ خلدہ کے تفصیلی حالات زندگی تو تاریخ میں میسر نہیں البتہ اُس کا تذکرہ بائبل کے پہلے حصہ عہد نامہ قدیم کی کتاب سلاطین اور کتاب تواریخ میں موجود ہے۔عبرانی روایات کے مطابق خلدہ کا درجہ سات عبرانی خواتین نبیاؤں سارہ، مریم، دبورہ، حنہ، آستر اور ابیجیل کے ساتھ شمار کیا جاتا ہے۔
خلدہ کا زمانہ غالباً 650 قبل مسیح سے 600 قبل مسیح کا وسطی دور ہے۔
خلدہ کا تذکرہ سلطنت یہوداہ کے بادشاہ یوسیاہ کے عہدِ حکومت کے اٹھارہویں سال (یعنی 623 قبل مسیح) میں ملتا ہے جب تورات کا اصل نسخہ ہیکل سلیمانی میں دریافت ہوا۔اس نسخے میں تورات کی پانچویں جلد “ کتاب استثنا Book of Deuteronomy “ بھی شامل تھی اس سے پہلے یہودی تورات کی صرف چار جلدوں سے ہی واقف تھے۔ تورات کے اِس نسخے کی دریافت کے بعد یوسیاہ بادشاہ نے وہ نسخہ خلدہ کے پاس تصدیق کے لئے بھجوایا ۔ کیونکہ اس وقت اس کی تصدیق کا دوسرا کوئی ذریعہ میسر نہیں تھا اور نہ ہی اُس عہد میں دوسرا کوئی نبی موجود نہ تھا ۔ خلدہ نے اس نسخہ کے اصلی ہونے کی شہادت دی تھی ۔ کتاب سلاطین کے حصہ دوئم Kings Book 2 اور کتاب تواریخ دوئم Book of Chronicles 2میں یہ واقعہ بڑی تفصیل سے درج ہے اور اسی لئے عبرانی مفسرین کے نزدیک خلدہ کا مقام بہت بلند تصور کیا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں خلدہ کے زمانے میں سلطنت یہوداہ اور ہیکل سلیمانی میں بت پرستی اور نجوم شناسی عام تھی اور ہیکل سلیمانی میں کئی مذبح خانوں کا قیام عمل میں آچکا تھا ۔ اور اس نے یہودیوں کو بت پرستی ، شرک اور بے راہ روی سے روکنے کے لئے اپنی زندگی گذار دی تھی. لیکن تقریباً تمام ہی مفسرین کا خیال ہے کہ خلدہ کا اصل مقبرہ یروشلم کی قدیم دیوار کے دروازے خلدہ گیٹ Hulda Gate کے باہر واقع ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق اس مسجد کے تہہ خانے میں رابعہ بصری مدفون ہیں ۔
( یہ مضمون فلسطین کے سفر کی یاد داشتوں پر مشتمل میری کتاب “ اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے.)
تبصرہ لکھیے