1982ء میں ہمارا میٹرک کا امتحان قریب آیا تو سارے کھیل کود سیر سپاٹے غیر اہم ہو گئے ، صرف پڑھائی اہم ہو گئی، کیونکہ اب جو بورڈ کا امتحان تھا اس پر ہمارے مستقبل کا دارومدار تھا۔ اس لئے ہم باقی سارے مشغلے چھوڑ چھاڑ، صرف پڑھائی میں مگن ہو گئے۔
اس وقت تک ہمارا یہ خیال پختہ ہو چکا تھا کہ سب سے اہم پرچہ ریاضی کا ہے، کیونکہ اس میں پورے پورے نمبر حاصل کرنا بھی ممکن ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ سبجیکٹ خطرناک بھی ہے، کیونکہ اس میں کی گئی معمولی غلطی پورے کام کو صفر صفر کر سکتی ہے۔ چنانچہ ہم نے سب سے زیادہ توجہ میتھ ہی کو دینا شروع کی۔ اب ہماری راتیں الجبرا، ٹرگنومیٹری اور جیومیٹری میں کالی ہونے لگیں۔ ہمارا دوست ارشاد بھی پڑھائی کے ان رت جگوں میں ہمارا ساتھی ہوتا تھا۔
ارشاد سرخ و سفید رنگت کا رامپوری پٹھان لڑکا تھا۔ اس کی سرخ رنگت کی وجہ سے محلے والے اسے ”ارشاد لال ٹماٹر“ کہتے تھے۔ ارشاد پڑھائی میں کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ڈرپوک بھی تھا۔ اکثر وہ اور اقبال رات کو پڑھنے میرے گھر آ جاتے تھے۔ لیکن ارشاد کی کوشش ہوتی تھی کہ رات کا سناٹا ہونے سے پہلے ہی وہ میرے گھر پہنچ جائے، کیونکہ اندھیرے اور سناٹے میں اسے لگتا تھا جیسے کوئی بھوت اس کا تعاقب کر رہا ہو۔ خصوصاً رات میں آپاں چری کے آسیبی گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔
اس زمانے میں کراچی کی راتیں ہوتی بھی بڑی خاموش تھیں۔ دور دور تک کوئی آواز نہیں۔ بس کبھی کبھی کہیں دور سے کسی چوکیدار کی سیٹی فضاؤں میں تیرتی آ جاتی تھی۔ برنس روڈ پر رہنے والے میرے دوست احمد انصاری بتاتے ہیں کہ کراچی کی اُن گہری خاموش راتوں میں اکثر چڑیا گھر سے شیرکے دہاڑنے کی آواز ہمارے گھروں میں صاف سنائی دیتی تھی اور جاگتے ہوئے بچے سہم جاتے تھے۔ ارشاد بھی ان خاموش راتوں کے سناٹے سے گھبراتا تھا۔ میری زبانی کچھ خوفناک قصے سن کر وہ اور بھی ڈر گیا تھا۔ اسی لئے جب وہ رت جگے کیلئے آتا تو پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے گھر واپس جانے سے کتراتا تھا۔
لیکن ایک دفعہ اسے تقریباً آدھی رات کے وقت بشری تقاضے سے مجبور ہو کر گھر جانے کی ضرورت پیش آئی۔ اس نے مجھ سے اور اقبال سے التجا کی کہ یا تو وہ اسے گھر تک چھوڑ کر آئیں، یا کم از کم اس وقت تک گلی میں کھڑے رہیں جب تک وہ آپاں چری کے گھر سے آگے نہ نکل جائے۔ گلی میں کھڑے ہونے کیلئے اقبال نے فوراً حامی بھری، لیکن ساتھ ہی چپکے سے مجھے آنکھ بھی ماری۔ میں کچھ نہ سمجھا۔ بہرحال ارشاد ہانپتا کانپتا باہر نکلا اور اندھیری گلی میں ہم دونوں کی موجودگی سے ہمت پا کر تیز تیز قدموں سے اپنے گھر جانے لگا۔ ابھی وہ کچھ ہی آگے گیا ہوگا کہ اقبال میرا بازو پکڑا، خود بھی گھر کے اندر گھسا اور مجھے بھی گھسیٹ لیا۔
”ابے کیا کر رہے ہو … ارشاد گلی میں ہی نہ بے ہوش ہو جائے“ میں ہڑبڑا کر بولا۔ لیکن اقبال تو بس کھی کھی ہنسے جا رہا تھا۔ وہ تو چاہتا ہی یہی تھا کہ ارشاد ڈر جائے۔ میں نے اس سے ہاتھ چھڑایا اور واپس گلی میں گیا۔ اس وقت تک ارشاد دیکھ چکا تھا کہ ہم دونوں غائب ہیں۔ گلی کے سرے پر نصب کھمبے پہ لگے بلب کی پیلی روشنی میں مَیں نے دیکھاکہ اس نے اپنی چپلیں اتار کر ہاتھوں میں لے لی ہیں اور بگٹٹ بھاگتا ہوا گلی سے باہر نکل رہا ہے۔ اسی وقت اقبال بھی باہر آیا اور زورسے چلایا :
”بھوت … بھوت … بھوت“
ارشاد ایک لمحے کیلئے رکا، پیچھے مڑ کر دیکھا، ہمیں اپنے دونوں ہاتھوں سے لعنت دی اور پھر بھاگتا چلا گیا۔ اس رات وہ واپس ہی نہیں آیا۔ البتہ اگلے دن اقبال کو خوب کھری کھری سنائیں۔ اقبال قہقہے لگاتا رہا۔
ارشاد پیارا اور معصوم آدمی تھا، بڑی مزے کی باتیں کرتا تھا۔ ہمارا کوئی دن اس کے بغیر نہیں گزرتا تھا۔ وہ بہت اچھا فٹبالر اور سائیکلسٹ تھا۔ 1983ء میں جس دن مجھے اپنی پہلی سائیکل خریدنے لائٹ ہاؤس کی سائیکل مارکیٹ جانا تھا، اس دن مجھے بس یہی پریشانی تھی کہ اتنی دور سے سائیکل گھر تک کیسے آئے گی؟… ارشاد نے مجھے اطمینان دلایا کہ وہ نہ صرف میرے ساتھ چلے گا بلکہ واپسی میں مجھے بھی ساتھ بٹھا کر تیس چالیس کلومیٹر دور کھوکھراپار تک سائیکل چلا کر لائے گا۔ پھر یہی ہوا۔ ارشاد میرے ساتھ سائیکل مارکیٹ گیا جہاں میں نے 900 روپے کی نئی سہراب سائیکل خریدی۔ پھر ہم اسے شارع فیصل پر چلاتے ہوئے دو ڈھائی گھنٹے میں اپنے گھر پہنچ گئے۔
ارشاد لال ٹماٹر نے بعد میں وکالت کی تعلیم حاصل کی اور ڈگری لے ایک بڑے وکیل کے ساتھ پریکٹس کرنے لگا۔ اس کی شادی بھی ہو گئی۔ کیریئر شروع کئے ہوئے ابھی دو ہی سال گزرے ہونگے کہ ایک دن آفس میں بیٹھے بیٹھے اس کے سینے میں درد اٹھا۔ یہ درد دراصل دل کا شدید دورہ تھا۔ وہ فوراً ہی بے ہوش ہو گیا۔ اسے جلدی جلدی ہاسپٹل پہنچایا گیا، لیکن وقت گزر چکا تھا۔ شریف النفس ارشاد بھری جوانی میں اپنا سرخ چہرہ لئے، کسی کو تکلیف دیئے بغیر، سرخرو اپنے رب کے پاس پہنچ گیا۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے۔ ارشاد بہت یاد آتا ہے۔
تبصرہ لکھیے