دہائیاں گزارنے کے باوجود اپنے ملک سے ذرہ بھر کمزور نہیں ہوتا۔ ہم چونکہ پاکستان سے عموماً باہر نہیں جاتے، اسی لیے شاید ہمیں اس تعلق کی گہرائی کا پوری طرح ادراک اور اندازہ نہیں ہوتا۔
سرزمین وطن سے رشتے کا انداز مجھے اس وقت ہوا جب قیام لندن کے دوران میرے پاکستانی میزبان نے ایک روز مجھ سے کہا ’’آج میں آپ کو ایک پرانے دوست سے ملانے لے جا رہا ہوں۔‘‘ ان صاحب کو میں نے گزشتہ بیس برسوں سے نہیں دیکھا تھا۔ اس حوالے سے خوش ہوا کہ ایک ہمدم دیرینہ سے ملاقات ہو رہی ہے۔ ایک گھنٹے کار سفر کے بعد جب ہم اس دوست کے گھر پہنچے، گھنٹی بجائی تو دروازہ ایک نوجوان نے کھولا۔ وہ ہمارے دوست کا بیٹا تھا۔ ابھی ہم ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھے ہی تھے کہ اندرون خانہ سے ایک عورت کے رونے اور بین کرنے کی آوازیں سنائی دیں جنھوں نے مجھے پریشان کر دیا۔
میں عجیب مخمصے میں مبتلا تھا کہ یاالہٰی یہ کیا ماجرا ہے؟ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس گھر میں ابھی ابھی کسی عزیز کی وفات کی خبر موصول ہوئی ہے یا پھر اس بے چاری عورت کو بری طرح مارا پیٹا گیا ہے۔
ابھی میں اسی ادھیڑ بن میں الجھا ہوا تھا کہ ہمارا پرانا دوست مسکراتے ہوئے کھلے چہرے کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ گلے ملنے کے بعد سب سے پہلے اس نے ہم سے معذرت چاہی اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ’’بھائی معاف کیجیے گا، آپ کو اندر سے میری بیوی کی رونے اور آہ و زاری کی آوازیں سنائی دے رہی ہوں گی۔‘‘
میں نے فوراً پوچھا ’’خیر تو ہے نا؟ کہیں بھابی بیمار تو نہیں؟‘‘
دوست نے بہت اداس اور پریشان لہجے میں جواب دیا ’’بیمار تو نہیں البتہ انھیں کبھی کبھی دورے پڑتے ہیں جن کے دوران یہ حالت ہو جاتی ہے۔ کئی ڈاکٹروں سے مل کر ان کا معائنہ کرا چکا۔ ڈاکٹروں کی متفقہ رائے ہے کہ یہ دورے وطن سے دوری اور اداسی کی وجہ سے پڑتے ہیں۔ علاج یہ ہے کہ انھیں واپس بھجوا دیا جائے۔ میں یہاں مزدوری کرتا ہوں اور دو سال سے پہلے انھیں واپس بھجوانا ’’افورڈ‘‘ نہیں کر سکتا۔ میری بیوی کو ابھی پاکستان سے آئے بمشکل ایک سال کا عرصہ گزرا ہے۔ یہ میکے پانچ ماہ رہ کر آئی ہے اور وہاں بالکل تندرست اور نارمل رہی ہے۔‘‘
ہمدم دیرینہ کی بات سن کر جہاں میری تشویش کم ہوئی، وہاں مجھے یہ احساس بھی شدت سے ہوا کہ انسان کا اپنے ملک، شہر، گھر، محلے اور گلیوں سے بھی عجیب سا جذباتی رشتہ ہوتا ہے۔ وہ کبھی کمزور نہیں پڑتا اور جسمانی دوری کے باوجود قائم و دائم رہتا ہے۔ پیرس، فرینکفرٹ اور لندن جیسے خوبصورت شہروں میں رہنے کے باوجود اور یورپ میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھی پاکستانی اپنے ملک اور شہر کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ بعض حضرات تو سرد آہیں بھر کر پنجاب کے ماہیے گانے لگتے ہیں۔ ان خوبصورت، صاف ستھرے شہروں کا جادو اِن حضرات کے ذہنوں سے اپنے ملک اور محلے کی یادیں مٹا نہیں سکا۔
وہ ملک جہاں مچھروں، مکھیوں کی بہتات ہے اور وہ شہر جن کی گلیاں بدبو سے ’متعفن‘ رہتی ہیں۔ ان تمام حضرات کی حالت اس خاتون کی سی تھی جس کا ذکر میں ایک دوست کے حوالے سے کر چکا۔ بس فرق یہ تھا کہ وہ کمزور عورت وطن، شہر اور میکے کی محبت میں حواس کھو بیٹھتی تھی اور بلند آواز سے بین کرنے شروع کر دیتی۔ جب کہ یہ حضرات مضبوط اعصاب رکھتے تھے، اس لیے باطنی درد کو ظاہر نہ ہونے دیتے۔ البتہ میں نے جب بھی ان کے اندر جھانکنے کی کوشش کی تو ان کے باطن میں اداسی کے سمندر تلاطم خیز پائے۔
بزرگ کہتے ہیں کہ وطن نصف ایمان ہوتا ہے، اس لیے کہ پورا ایمان تو بہرحال مذہب سے وابستہ ہے۔ مسلمان ملت کے تصور پر یقین رکھتا ہے اور وطن کو بت بنا کر نہیں پوجتا۔ دنیائے اسلام کے کسی حصے میں بھی آفت آئے، ہر مسلمان کا جسم درد سے دکھنے لگتا ہے۔ شاید اسی جذبے سے مغرب خوفزدہ ہے اور اسے دنیائے اسلام میں مذہب کی اٹھتی لہر سے خوف آتا ہے۔ ہمارے اکثر دانشور اس حقیقت کو مذاق کا نشانہ بناتے اور مولوی کا خواب سمجھتے ہیں۔ لیکن مجھ پر یہ حقیقت اس وقت منکشف ہوئی جب میں نے ایک ممتاز امریکی دانشورکی تحریریں پڑھیں۔
بہرحال اس موضوع پر پھر کبھی بات ہو گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ملت کے ساتھ ساتھ اور دنیائے اسلام سے بڑھ کر ہمارا رشتہ اپنی زمین سے کہیں زیادہ مضبوط، نازک، قلبی اور جذباتی ہے جس کا بہتر اندازہ ملک سے باہر جا کر ہوتا ہے۔ ایک پاکستانی واقف کار کی کار میں بیٹھا تو اس نے کار چلاتے ہی پنجابی گانوں کی کیسٹ لگا لی۔ جب اس کی کار لندن کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی تو مجھے یہ عجیب احساس ہوا کہ کار کے اندر پاکستان ہے اور باہر انگلستان!
کار کی پچھلی نشست پر بیٹھے دوست نے سرد آہ بھری اور کہا ’’مجھے لندن آئے تیس برس بیت چکے۔ لیکن میں اب بھی رات کو اپنے شہر اور آبائی گھر کے خواب دیکھتا اور سونے سے پہلے پاکستانی گانے سنتا ہوں۔‘‘
شام چائے پرچند پاکستانی دوست اکٹھے ہوئے تو ایک صاحب نے دلچسپ بات کی۔ وطن کا ذکر چھیڑا تو کہنے لگے ’’ہم اپنی مٹی سے دور جا کر عالم برزخ میں رہتے ہیں۔ تب وطن کی یاد ستاتی ہے اور مٹی کی محبت بے چین رکھتی ہے۔ لیکن جب وطن واپس لوٹیں تو وہاں بھی جی نہیں لگتا۔ وہاں کے مصائب سے گھبرا کر پھر دیار غیر کا رخ کرتے ہیں۔ اپنایا مگر وہاں بھی پوری زندگی گزارنے کے باوجود ہمیں نہ جاتا ہے اور نہ ہی ہم کو اول درجے کے شہری کا مقام حاصل ہوتاہے۔‘‘
انسان کا مٹی سے عجیب رشتہ ہے۔ وہ ہوائوں میں پرواز، خلائوں میں سیر یا سمندروں کو فتح کرے یا ستاروں پر کمندیں ڈالے لیکن اسے صحیح چین اور سکون اسی وقت ملتا ہے جب اپنی زمین پر قدم رکھے۔ انسان زمین کے سینے پر محلات تعمیر کرتا، اس پر جنگیں لڑتا اور خون کی ندیاں بہاتا ہے۔ پھر مٹی کا بنا ہوا انسان دھرتی کی گود میں ابدی نیند سو کر مٹی میں مل جاتا ہے۔ لیکن مرتے وقت بھی اس کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ابدی نیند سونے کے لیے وطن کی مٹی نصیب ہو بلاشبہ انسان کا اپنے وطن کی خاک سے عجیب رشتہ ہے جس پر غور کیا جائے تو سوچ کے دروازے کھلتے اور نئے نئے حقائق منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے