ہوم << نبی کریم ﷺ کی تمدنی زندگی - ام فیضان

نبی کریم ﷺ کی تمدنی زندگی - ام فیضان

تاریخ انسانی میں ایسی شخصیات کم ہی پیدا ہوتی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی قوم بلکہ پوری دنیا کو فکری، اخلاقی اور تمدنی طور پر نئی راہیں دکھائیں۔ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایسی ہی عظیم المرتبت ہے جنہوں نے ایک بکھرے ہوئے، جاہلیت زدہ اور غیرمہذب معاشرے کو علم، حکمت، اخلاق اور عدل کی بنیادوں پر مہذب معاشرہ بنا دیا۔ آپؐ کی تمدنی زندگی انسانیت کے لیے ایک جامع نمونہ ہے، جو رہنمائی، تربیت، محبت، عدل اور انسانی ہمدردی سے عبارت ہے۔

آپؐ کی تمدنی زندگی کا آغاز نبوت سے پہلے بھی ایک بہترین کردار کے طور پر ہو چکا تھا۔ اہلِ مکہ آپ کو صادق و امین کہتے تھے، اور معاشرتی مسائل میں آپؐ کی رائے کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حلف الفضول کے واقعے میں آپؐ نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، حالانکہ وہ معاہدہ نبوت سے پہلے تھا، لیکن آپؐ نے فرمایا: ’’اگر آج بھی کوئی ایسا معاہدہ ہوتا تو میں اُس میں ضرور شامل ہوتا۔‘‘ یہ آپؐ کے عدل اور انسانی حقوق سے وابستگی کی ایک واضح مثال ہے۔

نبوت کے بعد جب آپؐ نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو ایک مثالی تمدنی نظام کی تشکیل کی۔ میثاقِ مدینہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپؐ نے مختلف قوموں، مذاہب اور قبائل کے درمیان باہمی حقوق و فرائض کا واضح خاکہ پیش کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔‘‘ یہ تمدنی اصول ہر انسان کے لیے امن و سکون کی ضمانت ہے۔

مدینہ کے بازاروں میں آپؐ نے ذخیرہ اندوزی، دھوکہ دہی اور ناپ تول میں کمی جیسے غیر مہذب عوامل کی روک تھام کی۔ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک تاجر کے اناج میں ہاتھ ڈالا تو نیچے کی تہہ گیلی پائی۔ فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ تاجر نے کہا: بارش کا اثر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘

آپؐ کی خانگی زندگی بھی تمدنی اقدار کا نمونہ تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "آپؐ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے، جوتے سی لیتے، کپڑے پیوند لگا لیتے۔" آپؐ ازواج مطہرات کے ساتھ مشاورت کرتے، ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے، حتیٰ کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ام سلمہؓ کے مشورے پر عمل کیا۔

آپؐ نے غلاموں کے ساتھ بھی مساوات کا برتاؤ فرمایا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ: ’’میں دس سال تک رسول اللہؐ کی خدمت کرتا رہا، لیکن آپؐ نے کبھی مجھے اُف تک نہ کہا۔‘‘

آپؐ نے بچوں سے محبت کا درس دیا۔ حسن و حسینؓ کو گود میں اٹھانا، ان کے ساتھ کھیلنا، ان کے ساتھ سجدے میں لیٹ جانا، یہ سب آپؐ کی انسان دوستی اور تمدنی عظمت کے مظاہر ہیں۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تمدنی زندگی ایک ایسی جامع اور ہمہ گیر مثال ہے جو ہر زمانے کے لیے قابلِ عمل اور قابلِ تقلید ہے۔ آپؐ نے جس معاشرے کو وحی الٰہی کی روشنی میں اخلاق، عدل، مساوات، ہمدردی اور محبت کی بنیاد پر سنوارا، وہ آج بھی دنیا کی ہر سوسائٹی کے لیے مشعل راہ ہے۔ اگر آج کا انسان، جو ٹیکنالوجی اور ترقی کے باوجود عدمِ برداشت، ظلم اور اخلاقی زوال کا شکار ہے، آپؐ کی تمدنی تعلیمات کو اپنا لے تو دنیا میں امن، خوشحالی اور انصاف کا دور دورہ ہو سکتا ہے۔ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ صرف عبادات نہیں بلکہ معاشرتی حسنِ سلوک، انسانی وقار اور تمدنی عدل ہی وہ ستون ہیں جن پر ایک مضبوط امت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment