ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران امریکی معیشت میں کئی اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، جن میں سب سے نمایاں تجارتی پالیسی میں اصلاحات اور درآمدی محصولات میں اضافہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان محصولات کو "امریکہ فرسٹ" پالیسی کا حصہ قرار دیا اور ان کے ذریعے امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ تاہم، ان پالیسیوں کے نتیجے میں عالمی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے، جن میں تجارتی جنگیں، مہنگائی میں اضافہ، اور بین الاقوامی تعلقات میں تناؤ شامل ہیں۔ یہ محصولات امریکی صنعتوں کو غیر ملکی مقابلے سے بچانے کے لیے عائد کیے گئے تاکہ امریکی کمپنیاں مقامی پیداوار بڑھائیں اور ملک کے اندر روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ خاص طور پر اسٹیل اور ایلومینیم کی صنعتوں میں یہ اقدام کچھ حد تک مفید ثابت ہوا، کیونکہ ان صنعتوں کو سستی غیر ملکی مصنوعات کے مقابلے میں برتری حاصل ہو گئی۔ تجارتی خسارے میں کمی کے لیے بھی یہ اقدامات کیے گئے تاکہ چین اور دیگر ممالک کے ساتھ امریکی تجارتی خسارہ کم کیا جا سکے۔
ان محصولات کے نتیجے میں امریکہ کو کچھ فوائد ضرور حاصل ہوئے لیکن اس کے نقصانات زیادہ ہیں غیر ملکی مصنوعات پر اضافی محصولات لگنے سے امریکی صارفین کو زیادہ قیمتیں ادا کرنی پڑیں رہیں ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ درآمدات مہنگی ہونے سے کاروباری ادارے بھی متاثر ہوئے اور بہت سی کمپنیوں نے اپنی پیداوار محدود کر دی یا قیمتیں بڑھا دیں۔ اس کے علاوہ، دوسرے ممالک نے بھی جوابی محصولات عائد کیے ہیں جس سے امریکی برآمدات پر منفی اثر پڑے گا خاص طور پر زرعی شعبے کو نقصان پہنچے گا کیونکہ چین اور دیگر ممالک نے امریکی زرعی اجناس پر محصولات بڑھا دیے ہیں جس سے کسانوں کو بھاری نقصان ہوا۔ تجارتی پالیسیاں غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے امریکی کمپنیوں کے لیے طویل المدتی سرمایہ کاری میں مشکلات پیدا ہوں گیں کیونکہ انہیں مستقبل کی منصوبہ بندی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا
ٹرمپ انتظامیہ کی تجارتی پالیسیوں نے نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر ممالک پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن پر سخت محصولات عائد کیے گئے۔ ٹرمپ حکومت نے پاکستان پر 29 فیصد درآمدی محصولات عائد کیے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ پاکستان نے امریکی مصنوعات پر 58 فیصد ٹیرف نافذ کر رکھا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستانی برآمدات، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعتیں متاثر ہوں گیں پاکستان میں کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا اور تجارتی عدم استحکام پیدا ہوگا جبکہ پاک-امریکہ تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوگا چین کو بھی ان محصولات سے سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کی امریکہ کو برآمدات بہت زیادہ ہیں امریکی ٹیرف کے نتیجے میں چین کی برآمدات میں کمی آئے گی جس سے چینی معیشت کو دھچکا لگا جس پر جوابی کارروائی میں چین نے امریکی مصنوعات، خاص طور پر زرعی اجناس اور ٹیکنالوجی پر محصولات عائد کیے۔ اس کے نتیجے میں امریکی معیشت متاثر ہوگی دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ عالمی معیشت میں بے یقینی پیدا کر دے گی.
یورپی یونین اور دیگر ممالک بھی ان پالیسیوں سے متاثر ہوئے ہیں یورپی یونین نے امریکی اسٹیل اور ایلومینیم پر جوابی محصولات لگائے، جس سے دونوں خطوں کے درمیان تجارتی تعلقات کشیدہ ہوئے۔ ترقی پذیر ممالک کو بھی عالمی تجارتی منڈی میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ تجارتی پابندیاں اور محصولات کی وجہ سے ان کی مصنوعات کی مانگ کم ہو گئی۔ عالمی تجارتی نظام میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے، کیونکہ امریکی ٹیرف کی وجہ سے عالمی تجارتی تنظیم کی حیثیت کمزور پڑی اور ممالک نے باہمی معاہدوں کے ذریعے تجارتی مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔
عالمی معیشت پر بھی ان محصولات کے کئی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مہنگائی اور سپلائی چین میں خلل پیدا ہوا، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور تجارتی رکاوٹوں کے سبب اشیاء کی رسد میں مشکلات آئیں۔ سپلائی چین متاثر ہونے کی وجہ سے کئی صنعتیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی اور آٹوموبائل، بحران کا شکار ہو گئیں۔ سرمایہ کاری میں کمی آئی کیونکہ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے کاروباری ادارے نئی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگے، جس سے عالمی ترقی کی رفتار سست ہو گئی۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی اتار چڑھاؤ بڑھ گیا کیونکہ سرمایہ کاروں کو تجارتی جنگ کی شدت اور اس کے اثرات کے بارے میں یقین نہیں تھا۔
ٹرمپ کی محصولات پالیسی نے مختصر مدت میں کچھ فوائد ضرور دیے، جیسے امریکی صنعتوں کو وقتی تحفظ اور تجارتی خسارے میں کمی، لیکن اس کے طویل المدتی نتائج زیادہ تر منفی رہے۔ امریکہ میں مہنگائی بڑھی، کاروباری غیر یقینی میں اضافہ ہوا اور عالمی تجارتی نظام کو شدید دھچکا لگا۔ دیگر ممالک، خاص طور پر چین، پاکستان اور یورپی یونین کو بھی اس پالیسی کے باعث بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ان پالیسیوں کے اثرات آج بھی عالمی معیشت میں دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں ممالک تجارتی جنگوں سے بچنے کے لیے نئے معاہدے کر رہے ہیں۔
تبصرہ لکھیے