ہوم << کہانیوں کا قاف از طاہرے گونیش - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

کہانیوں کا قاف از طاہرے گونیش - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

میرا سارا بچپن کوہ قاف اور اس سے جڑی کہانیاں سنتے اور پڑھتے ہوئے گزرا ۔ اور اپنے خوابوں میں انہی کہانیوں میں پائی جانی والی پریوں اور شہزادیوں کا تعاقب کرتے کرتے جوان ہوگیا ۔ اردو کی دیو مالائی اور لوک کہانیوں میں خوبصورت ، دلکش پہاڑیوں اور جنگلوں پر مشتمل کوہ قاف پریوں کا دیس ہے بہادر شہزادوں اور ظالم جادوگروں ، بدصورت مکار جادوگرنیوں ، احکامات بجا لانے والے جنوں اور طاقتور دیوؤں کی سرزمین ہے ۔ لیکن کوہ قاف میں رہنے والی پریوں جیسی ہفت زبان خوش دہن ترکی پری طاہرے نے اپنے دل سے نکلنے والی آواز کو الفاظ کے طلسم میں پرو کر کہانیوں کی ایک ایسی ہوشربا دنیا ترتیب دی ہے کہ قاری ایک دفعہ اس جادونگری میں داخل ہو جائے تو پھر اس کا نکلنا محال ہو جاتا ہے.

کہانیوں کے اس قاف میں اس کی اپنی جیسی پریوں کی آپ بیتی بھی ہے اور کوہ قاف کی جگ بیتی بھی۔ اس میں پریوں اور شہزادیوں پر ہونے والے مظالم کی روداد بھی ہے ظالم جادوگروں اور طاقتور دیوؤں کے مظالم کی کہانیاں بھی ہیں اور شہزادوں اور جری جوانوں کی جدوجہد کی داستانیں بھی۔ یقین نہیں آتاکہ یہ کتاب ایسی مصنفہ نے لکھی ہے اردو جس کی دوسری تیسری یا چوتھی زبان ہے۔ ہفت زبان طاہرے کی اردو زبان پر گرفت اور کمال دیکھ کر اکثر اہل زبان کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے

کوہ قاف کے خوبصورت جنگل میں نرم ہری گھاس پر بیٹھی شہزادی کے ہاتھ میں پکڑے انجیر کے زعفرانی پھول جو باہر سے شہد اور دودھ جیسا ہے سے شروع ہونے والی کہانی علی کی “من برگچیہ -الف لیلوی چائے “ ، بدصورت جادوگرنی ، شیروان کے قالین ۔ گوئے چائے کے انار اور خواہشات پوری کرنے والی پری کے طلسم سے گزرتی ہوئی اگلی جست میں پھر آپ کو استنبول لے جاتی ہے ۔ جہاں جانسیلی اور ایمرے کی دکھ بھری محبت آپ کی منتظر ہے ۔ جہاں جانسیلی کی ایمرے کی قربت کےلئے مانگی دعا قبول تو ہوجاتی ہے لیکن وہ اپنے مقدر سے نہیں لڑ پاتی ۔

اگلا پڑاؤ پھر استنبول ہے جہاں سادہ لوح اور مخلص ملک اپنے دھوکہ باز پاکستانی محبوب مصطفٰی کے ساتھ آپ کی منتظر ہے ۔ اگلی کہانی پرانے استنبول کے ٹائیروں کے سوداگر خلیل کی حسرتوں کی داستان ہے . ”گل کاغذ اور پیتل “ غلاطہ کے یعیت کی داستان حسرت ہے جسے حلب کی بے وفا ” نعمت“ مل گئی تھی ۔ ”دل کا قبلہ “ یروشلم کے رہنے والے ترک فاتح کی کہانی ہے جو یروشلم کے قبلہ اول کی محبت میں گرفتار ہوکراستنبول کی ”امل “ کی محبت کو ہار جاتا ہے ۔

اس کتاب کی خوبصورتی اس کے عنوان سے شروع ہوتی ہے، ایسا انوکھا، پراسرار اور خوبصورت عنوان شاید اردو ادب میں اس سے پہلے کسی اور کتاب کو نصیب نہیں ہوا ۔اس کتاب سے صحیح طور پر وہی لطف اندوز ہو سکتاہے جس کی دوستی بچپن میں کوہ قاف اور اس پر پائی جانے والی پریوں اور شہزادیوں سے رہی ہے. اس کتاب کے عنوان اور اس کی کہانیوں کی طرح ان کہانیوں کے عنوان بھی انتہائی دلکش ہیں اور اپنے اندر ایک وسیع دنیا ہوئے ہیں. پری کی پیشانی،تنہائی میں نے پائی، مسکان لئے چشمان،محلے میں اکیلے ، رقص کا عکس، کھمبی کی چھتری ،کہانی کا کرب ، شاہ دانے سے بھرے ویرانے، جان کا جہان غرض یہ کتاب نہیں، درحقیقت الفاظ کی منظر کشی کا ایک طلسم ہوش ربا ہے جس کے سحر میں قاری کچھ اس طرح کھو سا جاتا ہے کہ اس کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتاہے کہ اس ”قاف “ کی کون سی نگری زیادہ دل کش ہے ۔

طاہرے سچ کہتی ہے: ” ترک محاورہ ہے کہ جھوٹے کی موم بتی تہجد تک جلتی ہے ۔ یعنی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے وہ جلد سامنے آ جاتا ہے ۔ لیکن کہانیوں کا جھوٹ ایسا ہوتا ہے کہ ہم اس کے فسوں سے باہر نہیں آنا چاہتے ۔ میں نہیں ماننا چاہتی کہ جادوئی چراغ ، اڑتے قالین،دیو،جن ، پری ، عمروعیار، شہرزاد یہ سب نہیں تھے ۔ یا ان کو جھوٹ قرار دے جائے۔ میں ان کو سچے کردار مانتی ہوں۔ کیونکہ بیان کرنے اور لکھنے والے نے میرے دل میں ان کی سچائی کی روشنائی گھول دی ہے۔“

میں آج عمر عزیز کے وقت عصر میں ہوں اور زندگی کی پچاس دہائیاں گزارنے کے بعد بھی اس کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں ۔ بچپن میں سنی اور پڑھی کوہ قاف کی پریوں کے قصے ، الف لیلہ کی شہرزاد کی کہانیاں ، داستان امیر حمزہ کی رنگینیاں اور طلسم ہوش ربا کا طلسم آج بھی میرے دل میں بستا ہے اور میں آج بھی کوہ قاف کی پری کی جادوئی چھڑی اڑنے والے جادو کے قالین ، عمرو عیار کی زنبیل ، الہ دین کے چراغ اور جام جم کے خواب دیکھتا ہوں انہیں سچ مانتا ہوں اور انہیں پانے کی دعائیں مانگتا ہوں ۔ جس طرح بچپن میں انہیں حاصل کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔

اور وہ یہ بھی سچ کہتی ہے کہ ”اکثر لوگ سوچتے ہوں گے کہ یہ کتاب ' کہانیوں کا قاف ' کیوں ہے ؟ کہانیوں کا ف کیوں نہیں ؟ وہ اس لئے کہ کہانی حرف ک سے شروع نہیں ہوتی ۔ کہانی دل کی اس کفیت سے شروع ہوتی ہے جو آنکھ کی زبانی اسے مشاہدے کی صورت میسر آتی ہے۔ اور وہی منظر کوئی اپنے لفظوں میں تصویر کردے توبس وہی کہانی ہوتی ہے۔ “

آنکھ اور کہانی کا یہ تعلق ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ طاہرے کو اپنے اردو کے انداز بیان ، اسلوب اور لفظوں پر کتنی قدرت اور مہارت حاصل ہے۔ طاہرے سے تعلق بہت پرانا نہیں ہے ۔ یہ رفاقت محض چند مہینے پرانی ہے جب عارف انیس صاحب نے میری کتاب ”زبان یار من ترکی “ اس کے پاس سند اور تصیح کے لیے بھیجی اور پھر اس کے مخلصانہ مشوروں نے اور اس کی لکھی خوبصورت تقریظ نے اس کتاب کو چار چاند لگا دیے ۔ اور وہ بیسٹ سلر Best Seller بن گئی ۔ ”زبان یار من ترکی “ کا پیش لفظ ”ترکیہ : داستان محبت کا ایک ورق “ اس نے لکھا جو اپنی زبان کی خوبصورتی اور فصاحت و بلاغت کی بنا پر کتا ب کی جاں ہے۔ میں اس سے کبھی ملا بھی نہیں لیکن چند مہینوں پر مشتمل اس رفاقت نے طاہرے سے رشتہ اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ لگتا ہے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ مجھے وہ چھوٹی بہن شبینہ کی طرح لگتی ہے ۔
میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اور روز سیکھتا ہوں ۔

طاہرے ہفت زبان ہے ۔ سنا ہے اسے عبرانی ، عربی ، پولش ، فارسی ، لتھونین اور کئی دوسری زبانوں پربھی مہارت حاصل ہے ۔اور ترکی تو اس کی اپنی مادری زبان ہے ہی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ دوسری زبانوں پر اس کی حکمرانی کس حد تک ہے لیکن اردو کے معاملے میں وہ ہم اردو والوں سے بھی آگے نظر آتی ہے۔ اس کی اردو تحریر تو لاجواب ہے ہی لیکن جب وہ اردو بولتی ہے تو اس کا تلفظ اور اردو بول چال پر اس کی گرفت دیکھ کر ہم اردو بولنے والے بھی انگشت بہ دندان رہ جاتے ہیں ۔

کہانیوں کا قاف تشکیل دینے والی پریوں کی شہزادی طاہرے خود بھی اردو کے قاف کی چوٹی پر بیٹھی اردو زبان وادب کی ایسی محسنہ ہے جس نے اپنے خوبصورت الفاظ اور انداز بیان سے اردو زبان کو نئی جہت اور ہمہ گیری عطا کی ہے ۔ اردو زبان اور ہم اردو بولنے والے اپنی اس محسنہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اردو کو چنا اور اپنے شہزادے ایدیز کے قیمتی وقت میں سے اردو کے لئے لمحات نکالے اور اپنے انداز بیان اور الفاظ کے سحر سے کہانیوں کا اتنا شاندار قاف تعمیر کیا ہے کہ اردو اور اردو کے عشاق ہمیشہ اس کے شکر گزار رہیں گے،لیکن شاید کبھی اردو پر اس کے احسانات کا قرض ادا نہیں کرسکیں گے۔