مغرب نے عورت کےحقوق کے نام پر وہ توازن بگاڑ کے رکھ دیا، جو اللہ نے مرد اور عورت کی زندگی کو متوازن کرنے کیلئے متعین فرمایا تھا، عورت کے پاس مرد کو متوجہ کرنے اور اسے متعین رکھنے کو بہت کچھ تھا مگر جذباتی نازکی کے باعث کچھ چیزوں میں گھریلو زندگی کی تکمیل کے لیے اسے مرد کی ضرورت تھی، پھر کوئی بھی ادارہ ہو یا گھر، برابر حقوق سے نہیں چل سکتا، لازما وہاں فیصلہ سازی میں کسی نہ کسی کو دوسرے پر ترجیح ہونی چاہیے،اس کائنات کا ایک خدا ہے، اور اس خدا نے یہ بتایا کہ اگر دو خدا ہوتے تو اس کائنات میں فساد اور بگاڑ پیدا ہو جاتا ، ظاہر ہے دونوں کی مرضی ٹکراتی اور نقصان کون و مکاں کا ہوتا، منطقی طور پر یہی کچھ اداروں اور گھر میں بھی لازم ہے، اسلام نے عورت کو تمام ضروری حقوق دے دینے اور مرد کو نبی کی زبان سے ان حقوق کے بارے اللہ سے ڈرنے کے احکامات سنانے اور پھر ان حقوق کے تحفظ کے لئے عدالت کو مقرر فرمانے کے بعد مرد کو عورت کے لیے قوام مقرر کر دیا گیا، یعنی دونوں کے بیچ باہمی محبت و مودت اور حقوق کی ادائیگی طے کر دینے کے بعد حتمی فیصلہ سازی کا اختیار مرد کو دے دیا گیا، یہ ظلم نہیں، یہ ظلم ہوتا تو دنیا ہر ادارے اور نظم حکومت میں کسی ایک کو زیادہ حقوق نہ دیتی۔ پھر اللہ کو معلوم تھا بات منوانے کی بے پناہ اور بے شمار قابلیتیں اس نے عورت کو دے رکھی ہیں۔
اب مغرب ہو یا مشرق جہاں جہاں اس اصول پر اخلاص سےعمل ہوتا ہے، وہاں وہاں خاندان کا ادارہ ٹھیک ٹھیک نتائج دے رہا ہے مگر جہاں یہ بیلنس خراب ہوا، عورت نے مرد کو قوام ماننے سے انکار کیا یا مرد نے خود کو قوامیت کے درجے سے گرا دیا،وہاں نتیجے کے اعتبار سے خرابی لازم آئی۔ عورت کے حقوق کے حوالے سے مغرب کو آج تحسین کی نگاہ سے دیکھا ضرور جاتا ہے مگر مغرب نے سوائے اس کے کوئی حقوق نہیں دئیے کہ عورت کو آزادی کے نام پر ایک پراڈکٹ میں بدل ڈالا اور اس کی ساری آسانیاں چھین کے اسے نت نئے بوجھ سے نواز دیا،بہرحال اس آزادی کی قیمت وہاں کی عورت اور معاشرہ برابر چکا رہا ہے، امریکی سپریم کورٹ میں ابارشن کا تاریخی کیس اس کی ایک مثال ہے۔
حرم میں پیش آیا واقعہ بھی اسی فکری تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، بطور فرد اور شہری بھی اور بطور ایک عورت بھی خاتون کے وقار کے منافی ہے کہ وہ قانون شکنی کرے، اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ اس قانون شکنی سے روکے جانے پر ڈیوٹی پر موجود قانون نافذ کرنے والے پر ایک تھپڑ بھی کھینچ مارے، ظاہر ہے، یہ دہرا جرم تھا اور فوری اشتعال اور ردعمل میں اسے جوابی تھپڑ بھی سہنا پڑا۔ بطور شہری جرم کی سزا پانے میں شرعا اور قانونا مرد اور عورت دونوں برابر ہیں، قانون اپنے نفاذ میں کس قدر سنگین ہو جاتا ہے، اس سلسلے میں مغرب کے ان طلبا کو دیکھنا چاہئے، امریکی یونیورسٹیز میں فلسطین کے حق میں نکلنے پر جن کا حشر نشر کر دیا گیا، نہیں دیکھا گیا کہ یہ آئین کی حدود میں ضمیر کی آواز پر جمہوری حقوق کے تحت نکلے تھے۔ ان میں موجود لڑکیوں تک کو جس سلوک کا نشانہ بنایا گیا، وہ ویڈیو کی صورت میں آج بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
عورت کے لیے غیر متوازن اور خود عورت پر بوجھ لاد دینے والے یہ انھی مغربی اصولوں سے کی گئی ذہن سازی کا نتیجہ ہے کہ حرم میں ایک شہری کے دہرے جرم کو بھی جرم یا غیر اخلاقی رویے کے دائرے میں دیکھنے کے بجائے ایک عورت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ تو کیا عورت کو محض عورت ہونے کی بنا پر گلی محلے میں ہر ایک پر کسی کن ٹٹے کی طرح ہاتھ اٹھانے دیا جائے؟ چونکہ وہ عورت ہے تو اب کسی بھی رکاوٹ کو توڑ کے اسے کہیں بھی گھسنے کی اجازت دے دی جائے؟ وہ جس پر چاہے ہاتھ اٹھائے اور عورت ہونے کی بنا پر ساری ہمدردیاں اس کے دامن میں ڈال دی جائیں گی؟
ایسا نہیں ہو سکتا اور، کہیں بھی نہیں ہو سکتا، قانون تو اسے روکے گا ہی، اور قانون نافذ کرنے والا بھی، اور کہیں کوئی غیر قوام شوہر کے بجائے برداشت نہ کرنے والا مرد مل گیا تو جوابی تھپڑ بھی عورت کو گوارا اور برداشت کرنا پڑے گا۔ محض عورت کہہ کر اس کے عمل کو جواز بخشنے والے دراصل کسی دوسری عورت کے لیے کسی دوسرے تھپڑ کا اہتمام کرنے کے سوا دوسری کوئی خدمت سر انجام نہیں دے رہے۔
تبصرہ لکھیے