ہوم << طبی نقطہ نظر سے روزے کے فوائد - ڈاکٹرمولانا محمدجہان یعقوب

طبی نقطہ نظر سے روزے کے فوائد - ڈاکٹرمولانا محمدجہان یعقوب

پہلے یہ غلط فہمی عام تھی کہ روزہ رکھنے سے جسمانی کمزوری واقع ہو جاتی ہے، یا اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں، یا جسم کو کوئی ایسی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے جو نقصان پہنچاتی ہے۔ سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے ایسی کوئی کمزوری واقع نہیں ہوتی، بلکہ حیرت انگیز طور پر جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے، روزے دار کے جسم میں قدرت کی طرف سے توانائی کے دوسرے ذرائع پیدا ہوتے ہیں جو اپنا کام انجام دینا شروع کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں روزے پر تحقیق ہو رہی ہے اورمختلف بیماریوں میں روزے کو بطور طریقۂ علاج استعمال کیا جا رہا ہے۔ماہرینِ طب نے اپنی تحقیقات میں روزے کے طبی فوائد کے حوالے سے بڑے عجیب انکشافات کیے ہیں،معلومات میں اضافے اور اللہ تعالیٰ کے اس مہتم بالشان حکم کی حکمتوں سے آگاہی کی غرض سے ان تحقیقات کاخلاصہ ذیل میں درج کرتے ہوئے اس اہم امر کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ روزے کے انواروبرکات اور اخروی اجور اسی شخص کو ملیں گے جو اسے اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر بجالائے گا،اس لیے نیت مذکوہ ذیل طبی فوائد کے حصول ہی کی نہ ہو،بلکہ نیت یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ فرض کیاہے اور ہم اس فریضے کی بجاآوری کے لیے روزہ رکھ رہے ہیں،تاکہ ہمار اخالق ہم سے راضی ہوجائے۔

سائنسی تحقیقات کے چیدہ چیدہ نکات ملاحظہ فرمائیے:
٭…جرمن ماہرینِ طب کاکہناہے کہ روزے دارشخص لاعلاج امراض، نظام ہضم اور موٹاپے کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اُن کاکہناہے کہ لوگوں میں معدے اور آنتوں کی بیماریاں بہت عام ہیں، ان میں سے زیادہ تر بیماریوں کا سبب غذا کا ضرورت سے زیادہ اور بار بار استعمال یا ایسی غذاؤں کا استعمال ہے جو صحت کے لیے مفید نہیں ہیں۔ روزہ آنتوں اور معدے کو آرام دیتا ہے اور اس آرام کے نتیجے میں آنتوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ اپنے نظام کو درست کر سکیں۔حال ہی میں جرمن ڈاکٹروں کاایک نیا طبی جائزہ سامنے آیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ: انسانی صحت کے لیے روزوں سے علاج بے حدمفید ہے،کیونکہ روزے رکھنے کی بدولت انسانی جسم دل کے امراض، خون کی گردش کے نظام کے امراض ، جوڑوں کی سوزش اور نظام ہضم کی بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔

٭…جدیدسائنسی تحقیقات سے یہ پتا چلتا ہے کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنے اور بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کے جسم میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور یہ تبدیلیاں جسم، دماغ، صحت، قوتِ مدافعت اور اس کی بیماری پرکون سے قلیل المدت اور طویل المدت اثرات مرتب کرتی ہیں؟ ان کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ چوبیس(24)گھنٹے کے دوران انسانی جسم کی ضروریات کیا ہوتی ہیں؟اس کو کتنی غذا،کتنا پانی اور کتنی توانائی درکار ہوتی ہے؟جب ہم یہ جان لیں گے تو یہ سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ روزہ رکھنے کی صورت میں وہ ضروریات کس طرح پوری ہوتی ہیں؟

٭…انسان کی پہلی ضرورت غذا کی صورت میں کیلوریز(حراروں)کی ہوتی ہے۔ انسانی جسم کو یومیہ اوسطا ًدو سے تین ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔بہت زیادہ فعال لوگوں کو یومیہ 3ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے،جبکہ بستر پر بیمار پڑے لوگوں کی ضروریات2ہزار کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ کیلوریز غذا کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ اگرچوبیس(24)گھنٹے کے دوران ایک یا دو وقت غذا پہنچ جائے تو بھی انسانی جسم کی یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔اس لیے روزے دار کو بھی سحر وافطار کی شکل میں ملنے والی غذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

٭…انسانی جسم کو یومیہ ڈیڑھ سے تین لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔بالعموم گھر کے اندر موجود رہنے والے فرد کی پانی کی ضرورت ڈیڑھ سے دو لیٹرپانی کی ہوتی ہے،جبکہ گھر کے باہر دھوپ اور گرمی میں کام کرنے والے ا فراد کی ضرورت تین سے چار لیٹر پانی کی ہوتی ہے۔ اگر اتنا پانی چوبیس(24) گھنٹے میں انسان کے جسم میں پہنچ جائے تو یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔جب ایک فرد روزہ رکھتا ہے اور صبح صادق سے ہی بھوکا رہنا شروع کرتا ہے تو اس کاجسم خود کو برقرار رکھنے اور اپنی توانائی کو استعمال کرنے کے لیے بہت سی تبدیلیاں کرتا ہے۔ بہت سے ہارمونز (Hormones)جسم کے اندر توانائی برقرار رکھنے کے لیے خارج اور استعمال ہوتے ہیں، جسم کے اندر بہت سے کیمیائی مادے جو نیورو ٹرانسمیٹرز کہلاتے ہیں، اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان کا جسم اس قابل ہوتا ہے کہ روزے کے ثمرات اور فوائد کو طبی ثمرات میں تبدیل کر سکے۔چنانچہ انسانی جسم میں سب سے نمایاں تبدیلی یہ پیدا ہوتی ہے کہ انسانی جسم پانی کو محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے ،اس کے لیے قدرت نے یہ نظام بنارکھاہے کہ خون میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو پانی کو محفوظ کرتے ہیں، جسم کے اندر خون کی گردش کو فعال بناتے ہیں اور جسمانی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یوں قدرت کی طرف سے روزے دار کی پانی کی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے۔

٭…انسانی جسم اور دماغ کو متحرک رکھنے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے، یہ توانائی چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی شکل میں ہر وقت جسم کے اندر موجود ہوتی ہے۔ اس کی کمی پوری کرنے کے لیے قدرت نے یہ نظام بنارکھاہے کہ سحری میں لی گئی غذا جزوِ بدن بن کر توانائی میں تبدیل ہوتی رہتی ہے اور روزے کے دوران جسم میں استعمال ہوتی ہے،جس کی وجہ سے روزے دار کی توانائی چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی کمی بھی پوری ہوجاتی ہے ۔

٭…جسم کو گلوکوز کی متواتر ضرورت ہوتی ہے،روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں گلوکوز کی سطح گر جاتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے قدرت نے یہ نظام بنایا ہے کہ جب جسم کو باہر سے گلوکوز نہیں ملتا تو جسم از خود گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے اور جسم کے اندر محفوظ چربی، کاربوہائیڈریٹ، پروٹین وغیرہ گلوکوز میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں،یوں جسم کے اندر کیمیائی تبدیلیوں کا عمل (metabolism) شروع ہوجاتا ہے اورجسم گلوکوز جمع کرنا شروع کردیتا ہے۔یوں روزے دار کی گلوکوز کی کمی بھی پوری ہوجاتی ہے۔

٭…جن لوگوں کے خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، روزے سے ان میں شوگر کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم کے اندر شوگر کی سطح متوازن ہو کر نارمل ہو جاتی ہے۔

٭…بلڈ پریشر دنیا میں بہت عام بیماری ہے۔ خود پاکستان میںچون(54) سال سے زائد عمر کے ایک تہائی افراد کو بلڈ پریشر کی بیماری ہے۔روزے کے نتیجے میں بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے،کیونکہ بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے،جب جسم کو دو چار گھنٹے پانی نہیں ملتا تو اس سے بلڈ پریشر میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے قدرت نے یہ نظام بنایاہے کہ روزے دار کے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونے لگتے ہیں جو بلڈ پریشر کے اس عمل کو بہتر کرتے ہیں۔ جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے ان کو روزہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا بلڈ پریشر قابو میں آ جاتا ہے۔ دنیا میں یہ مستند طریقۂ علاج بھی ہے اور جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہو اور کنٹرول نہ ہو رہا ہو، ان کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

٭…عام حالات میں جسم میں محفوظ چربی عموماً استعمال نہیں ہو رہی ہوتی، کیونکہ انسان مطلوبہ توانائی اپنی غذا سے حاصل کر رہا ہوتا ہے،یوںیہ زائد چربی انسانی جسم کے اندر بیماریاں پیدا کرتی ہے،اس سے جسم میں کولیسٹرول کی سطح اور موٹاپا بڑھتا ہے ،نیزخون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔روزے کی حالت میں چونکہ چربی کا یہ ذخیرہ توانائی میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے،اس لیے جسم کے اندر چربی کی سطح اور کولیسٹرول کم ہونے لگتا ہے اور زائد چربی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔
نوٹ:واضح رہے کہ روزے دار کے وزن میں کمی اسی وقت ہو گی جب وہ اپنے حراروں کے حصول (کیلوریک انٹیک)کو ایک حد کے اندر رکھے گا۔ اگر وہ رمضان میں غذاؤں کا استعمال زیادہ کرے اور چکنائی والی چیزیں زیادہ لے تو وزن کم کرنے کا فائدہ اسے حاصل نہیں ہوگا۔پوری دنیا میں وزن کم کرنے کے لیے لوگ مکمل فاقہ (Fasting) کرتے ہیں۔

٭…سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں زہریلے مادے ختم ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسانی جسم میں طرح طرح کے مادے پیدا ہوتے رہتے ہیں، جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جسم کا پورا میٹابولزم تبدیل ہو کر ایک مختلف شکل میں آ جاتا ہے اورجسم کے اندر ازالہ ٔ سمیت(detoxification) کا عمل شروع ہوجاتا ہے،یعنی روزہ ان کو بے اثر بناتا اور خارج کردیتا ہے،اس سے جسم کو اپنے بہت سے زہریلے مادوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے،روزہ رکھنے کا یہ ایک بڑا طبی فائدہ ہے۔

٭…روزے سے جسمانی قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے۔ روزہ رکھنے سے مدافعت کا نظام فعال ہو جاتا ہے اوراس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔انسان صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوجاتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں، بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود بھی ہوں تو ان کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ روزہ انسان کی قوتِ ارادی(motivation) کو بڑھاتا ہے جو لوگ قوتِ ارادی کی کمزوری کی بنا پر تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں، دماغی اور ذہنی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں، روزہ ان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے بڑے کام کر سکیں۔

٭…اللہ تعالیٰ نے روزے کاجودورانیہ مقرر کیا ہے، وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کی تندرستی میں بڑا کردار ادا کرتاہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل15سے18گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے،کیونکہ بھوکا رہنے کا عمل اس سے طویل ہوجائے تو اس کے نتیجے میں پٹھے (muscles)کمزور ہوجاتے ہیں اور انسانی جسم کے اندر نقصان دہ سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔قربان جائیے خلاقِ عالم اللہ رب العالمین کے،کہ اس نے روزہ فرض کرتے ہوئے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیںان کا دورانیہ بھی 15سے18گھنٹے کے آس پاس ہی رکھاہے،یوںیہ دورانیہ بھی ہماری صحت کے لیے مفید ثابت ہوتاہے۔

٭…روزہ اینٹی الرجی(Anti-Allergy)عمل کو فعال کرتا ہے۔ انسانی جسم میں اس چیز کی گنجائش ہوتی ہے کہ اس میں الرجی کے اثرات ہوں، چاہے وہ غذا کی الرجی ہو، ہوا کی الرجی ہو یا مختلف الرجی پیدا کرنے والی بیماریاں ، روزے سے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو الرجی کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں الرجی کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔

٭…انسانی جسم میں شوگر کی ریگولیشن بہت اہم چیز ہے، کیونکہ دماغ کے تمام افعال کا تعلق شوگر کی سطح سے ہوتا ہے۔اگر جسم کے اندر شوگر کی سطح بڑھ جائے تو انسان کو شوگر کی بیماری ہو جاتی ہے، اگر شوگر کم ہوجائے تو ہائپو گلے سیمیا (Hypoglycemia) ہوجاتا ہے، جس سے کمزوری،بے ہوشی لاحق ہوجاتی ہے، جو اس کی صحت اور حیات کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ روزہ شوگر کو کم ہونے دیتا ہے نہ بلند۔ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں جن مریضوں کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی ان کو روزے رکھوائے جاتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا جبرا ًبند کرا دیا جاتا ہے، جس سے ان کی شوگر کنٹرول میں آ جاتی ہے۔

٭…شوگر اور بلڈ پریشر کے کنٹرول اور جسم کے اندر پانی کی مقدار کے کنٹرول کے نتیجے میں دل کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے والوں میں دل کے دورے کا امکان عموماً کم ہو تا ہے، اگر ان کوپہلے سے دل کے دورے کا کا خطرہ ہو تو ان کی طبیعت روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ میں اب یہ ایک طریقہ علاج بن چکا ہے کہ جن مریضوں کے ہارٹ فیل ہونے کا خدشہ ہو ان کو جبرا ًفاقہ کرایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی صحت بہتر ہو جاتی ہے۔

٭…روزے کے نتیجے میں جو ہارمونز جسم میں خارج ہوتے ہیں، ان میں بالخصوص کورٹی سول(cortisol) ہارمون ہے، جس سے جسم میں ورم کم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوڑوں کے درد اور گٹھیا (arthritis) کے مریضوں کی تکلیف روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے اور جن لوگوں کے پیروں پر یا جسم میں یاکسی اور جگہ ورم ہوتا ہے، یاFluidجمع ہوجاتا ہے، ان کوبھی روزے کے نتیجے میں افاقہ ہوجاتا ہے۔

٭…روزہ انسانی دماغ کے اندر ایک سیلف کنٹرول اور ڈسپلن پیدا کرتا ہے اور انسان کو نظم و ضبط کا عادی بناتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کی دماغی صحت بہتر ہوجاتی ہے۔روزہ دماغ کے اندر سیروٹونین (serotonin) ہارمون جو نیورو ٹرانسمیٹر ہے، کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کو مستقل دردِ سرکی بیماری ، گھبراہٹ اور ڈ پریشن رہتا ہو، ان کی تمام تکالیف روزے کی وجہ سے دور ہوجاتی ہیں۔

٭…روزہ نیند کو بہتر بناتا ہے۔ نیند نہ آنے کی بیماری عام ہے اوراکثر لوگ بے خوابی کی شکایت کرتے ہیں، لیکن جو لوگ روزہ رکھتے ہیں ان کی نیند بہتر ہوجاتی ہے۔

٭…روزے کے جہاں بہت سے طبی فوائد ہیں، وہاں ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو کسی قسم کے نشے کی بیماری ہو،روزہ اُن کے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج کرتا ہے جن سے انسان میں ذہنی طور پر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نشے کی طلب کو کنٹرول کر سکے اور اس عادت سے نجات حاصل کر سکے۔عام مشاہدہ ہے کہ سگریٹ پینے کے عادی افراد رمضان کے مہینے میں بڑی آسانی کے ساتھ اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

٭…روزہ حسِ ذائقہ کو بہتر کرتا ہے۔ بعض اوقات لوگ شکایت کرتے ہیں کہ زبان میں ذائقہ باقی نہیں رہا ، کھانے کا مزہ محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زبان کے اندرذائقے کی حس (taste buds) ہوتی ہے جو غیر فعال ہو جاتی ہے یا اس کے اندر ایسی تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں کہ غذا کا ذائقہ محسوس نہیں ہو پاتا۔ روزے میںمسلسل بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے ذائقے کی یہ حس دوبارہ فعال ہو جاتی ہے۔

٭…دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریاں عام ہیں، ان کا تعلق بھی غذاؤں کے استعمال سے ہے۔ روزہ رکھنے کا عمل دانت اور مجموعی صحت کو بہتر کر دیتا ہے۔ ماہرینِ دندان(Dentists) کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے والوں میں دانتوں اور مسوڑھوں کے امراض کم ہو جاتے ہیں۔

٭…روزہ انسان کی جلد اور بینائی کو بھی بہتر کرتا ہے۔ روزہ جلد کو پھٹنے سے بچاتا، آنکھوں کو روشن کرتا اور بصارت کو تیز کرتا ہے۔

بے شک!میرے رب کے ہرحکم میں حکمتوں اور فوائد وثمرات کی ایک پوری دنیا موجود ہے،اُس نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو ہمارے بس میں نہ ہو ،یاجس کے نتیجے میں ہمار اکوئی طبی،جسمانی اور بدنی نقصان ہو۔

Comments

Avatar photo

مولانا محمد جہان یعقوب

ڈاکٹر مولانا محمد جہان یعقوب فاضل درسِ نظامی ہیں۔ وفاقی اردویونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی میں پبلی کیشنز، تصنیف اور صحافت کے شعبہ جات کے نگران ہیں۔ کئی کتب، رسائل اور ریسرچ جرنلز کے مصنف ہیں۔ اصلاحی و تحقیقی موضوعات پر سو سے زائد رسائل لکھ چکے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا سے بطور کانٹنٹ رائٹر، کمپیئر اور اینکر منسلک ہیں۔

Click here to post a comment