ہوم << ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے- عاصمہ حسن

ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے- عاصمہ حسن

انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے.پھر سوچ' سمجھ بوجھ ' عقل و شعور عطا کی گئی تاکہ وہ اچھے اور بُرے کی تمیز کر سکے.صحیح اور غلط کی پہچان کر سکے پھر اپنے لیے بہترین فیصلے کر سکے اور درست راستے کا انتخاب کر سکے. وہ راستہ جو ہمارے دین نے ہمیں سکھایا ہے اور اس پر چلنے کی تلقین کی ہے.
خطبہ حجتہ الوداع اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور انسانی حقوق کا اولین و مثالی منشور ہے. اس میں واضح کر دیا گیا ہے کہ ہماری زندگی کس طرح کی ہونی چاہیے جس سے ہمیں اللہ تعالٰی اور اس کے آخری رسولؐ کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے. اس خطبے میں آپ ﷺ نے فرمایا " میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں ـ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہو گے اور وہ آخری کتاب' کتابِ اللہ یعنی قرآن پاک ہے اور پھر اس کا عملی نمونہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے.

افسوس تو اس بات کا ہے کہ اکثریت نے ان تعلیمات کو یکسر بھلا دیا ہے ـ اپنے آخری نبیﷺ کی سنت پر عمل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی تقلید کرنے لگے ہیں ' کہ فلاں نے سود لیا تو ہم کیوں پیچھے رہیں. یہ بھول گئے کہ سود کو حرام قرار دیا گیا ہے. فلاں ایسے کر رہا ہے تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے، بے شک وہ کام غلط ہی کیوں نہ ہو یا وہ راستہ برائی کا ہی کیوں نہ ہو . ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں ، ہم یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کہ فلاں ایسا کر رہا تھا تو میں نے بھی ویسا کر لیا . ہمیں ہمارے اعمال کی سزا اور جزا مل کر رہے گی. دنیا مکافاتِ عمل ہے ہم جو بوتے ہیں وہی ہمیں کاٹنا پڑتا ہے .

حقیقت تو یہ ہے کہ ہر شخص خود کو کامل سمجھتا ہے، اپنی غلطی تسلیم ہی نہیں کرتا . سوچتا ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ ٹھیک ہے اور جو دوسرے کر رہے ہیں وہ غلط ہے.حد اس وقت پار ہو جاتی ہے جب اپنی غلطی دوسرے پر تھوپ دی جاتی ہے اور خود کپڑے، ہاتھ منہ جھاڑ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں. بھول جاتے ہیں کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے. ہم دنیا میں لوگوں کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی کے سامنے کیسے پیش ہوں گے،کس طرح سامنا کریں گے. ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے، لوٹ کر ہم نے اُسی کے پاس جانا ہے. ہم اس بات کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں کہ ہمارا ہر عمل ریکارڈ میں لایا جا رہا ہے. کچھ لوگوں کی رسی اللہ تعالٰی دراز کر دیتا ہے کیونکہ وہ خود فرماتا ہے کہ " اور خبردار رہے انسان ہم نے ان کے تمام اعمال کو اپنے احاطے میں لیا ہوا ہے ـ" (القرآن). ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے کہ " یہ نظام عدل الہی کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور اپنے کیے کا خود جواب دہ ہے ـ " پھر ارشاد ہوتا ہے کہ " جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے خود اپنے ہی خلاف کرتا ہے اور آپ کا پروردگار تو بندوں پر قطعاً ظلم کرنے والا نہیں ہے ".

ہم انسانوں پر دو طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں. ایک تو فردی یا انفرادی ہیں کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں نے مجھے بہکایا تھا، یا میں فلاں کے کہنے میں آ گیا تھا . ہر انسان اپنی نفسی خواہشات،عمل، سوچ، عقل، مال، فعل حتٰی کہ وقت کے استعمال کا بھی خود ذمہ دار ہے. دوسری ذمہ داری انسان پر معاشرتی و سماجی ہے کیونکہ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے لہٰذا ہم ان اعمال اور فعل کے بھی ذمہ دار ہیں جن کی وجہ سے دوسرے لوگ ہم سے وابستہ ہیں.

ہمارا اخلاق، معاشرتی قدریں، کام کرنے کا طریقہ، اپنی دیگر ذمہ داریوں کو نبھانے کا فریضہ ہے، جس سے ہمیں کسی بھی طور پر نظر نہیں چرانی چاہیے. اگر کسی کام کا بیڑہ اٹھاتے ہیں تو اس سے پورا انصاف کریں. اگر آپ کے کسی فعل سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کے ذمہ دار آپ ہیں، آپ جواب دہ ہوں گے. اپنی کوتاہیوں، کمیوں اور ناکامیوں کا بوجھ ہم کسی دوسرے پر نہیں ڈال سکتے، یہی قانونِ قدرت ہے.

ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ کو درست کریں کیونکہ یہ کام سب سے آسان ہے. اچھا اخلاق اپنائیں. بقول واصف علی واصف " اخلاق یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے مزاج کو بد اخلاق نہ ہونے دیں ـ " صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، ہر کام کرنے سے پہلے سوچیں کہ اس سے کسی دوسرے کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی، اگر کسی کا حق مارا جا رہا ہے لیکن آپ کو فائدہ ہو رہا ہے تو وہ کام ہرگز نہ کریں. کسی کو دھوکہ نہ دیں. جو بات ہے وہ سیدھی طرح کریں، تمام معاملات کھول کر رکھ دیں تاکہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ رہے، اور کسی کو نقصان نہ پہنچے. واصف علی واصف لکھتے ہیں کہ " اگر سکون چاہتے ہو تو دوسروں کا سکون برباد نہ کرو" ـ اگر کوئی غلط کام کر رہا ہے تو وہ اس کا فعل ہے اور وہ خود اس کا جواب دہ ہے. ہم اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں لہٰذا لوگوں کی اندھی تقلید' یا ان میں نقص نکالنے کےبجائے خود میں تبدیلی لائیں، اپنے اعمال کو بہتر کریں تاکہ ہم روزِ قیامت سر اٹھا کر خالقِ کائنات کے سامنے حاضر ہو سکیں اور ہمیں اس دن شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے .
ہمارے حسنِ اخلاق سے معاشرے میں مثبت تبدیلی آتی ہے.ہم انفرادی طور پر اپنے آپ میں بہتری لائیں گے تو ہمارے اردگرد کا ماحول بہت عمدہ ہو جائے گا. چہروں پر مسکراہٹ آئے گی اور تناؤ کی کیفیت دور ہو گی. ہمارے نیک اعمال سے ہی دنیا میں امن و سکون میسر آ سکتا ہے.
خوش رہیں، خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے والے بنیں.

Comments

Avatar photo

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment