فضل کی باتوں نے اسے چند لمحوں کے لیے سن سا کر دیا تھا اور گھر کی طرف اس کے بڑھتے قدم سست پڑ گئے تھے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی نہ چاہنے کے باوجود رافعہ اور بچوں کی عید کی تیاری رمضان سے پہلے مکمل نہ ہو سکی تھی اوروجہ تھی ہر مہینے کامحدود بجٹ جو کسی شاہ خرچی کی اجازت ہی نہیں دیتا تھا۔
بالآخر اسے دوسرے عشرے میں بھی فضل کے جوتوں کے لئے رمضان میں بازار کا چکر لگا نا ہی پڑا ۔وہ افطاری کے کام نمٹا کر فضل کے ساتھ اپنے علاقے کی مشہور اور پررونق مارکٹ کی جانب روانہ ہوئی ،ابھی افطاری میں تقریبا ایک گھنٹہ باقی تھا۔ دکانوں پر رش ایسا تھا کہ جیسے آشیا مفت بانٹی جارہی ہو اورجن دکانوں پر غلطی سے رمضان کے مہینے میں رعا یتی سیل لگی ہوئی تھی وہاں تو حشر برپا تھا۔رافعہ جلدی سےفضل کا ہاتھ تھامے ایک دکان کی جانب بڑھی جہاں گاہکوں کا ہجوم قدرے کم تھا۔
فضل کی عادت تھی کہ وہ ہر چیز کا بغو ر مشاہدہ کرتا تھا۔راستے میں بھی وہ ماں سے گزشتہ رات نشر ہونے والے مولانا صاحب کے بیان کے بارے میں بات چیت کرتا رہا۔ جس میں انہوں نے روزے کے فضائل اور اس مہینے کی برکات اور اجر کا ذکر کیا تھا اور بالخصوص ناپ تول میں کوتاہی کو اپنا موضوع بنایا تھا۔ ابھی فضل کے سوال جواب چل ہی رہے تھے کہ رافعہ کو اپنی مطلوبہ دکان نظر آگئ اور وہ جلدی سے جگہ بناتی ہوئی دکان کے اندر داخل ہو گئی۔ یہ اور بات ہے کہ کتنے لوگوں کی کہنیاں اوٹھڈے اس کا مقدر بنے, بالآخر رافعہ نےفصل کا جوتا خرید ہی لیا و ہ جب تک جوتے پیک کروا رہی تھی فضل کاؤنٹر پر جا کر کھڑا ہوگیا اور کاؤنٹر پر بیٹھے شخص کے حرکات و سکنات کا بغور مطالعہ کرتا رہا۔ رافعہ جلدی سے کاؤنٹر تک پہنچی کیوں کہ افطاری میں صرف آدھا گھنٹہ بچا تھا، کاؤنٹر پر بیٹھا شخص سر پر ٹوپی جمائے، ہاتھ میں تسبیح لیے ایک مشہور کلام پر سر دھن رہا تھا وہ کلام کچھ یوں تھا
"دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
جو طے کیا ہے تم نے پل بھر کا وہ سفر ہے"
اس کلام نے تو رافعہ کے دل کو بھی گداز کر دیا اپنی دلی کیفیت پر قابو پاتے ہوئےاس نے بھری بھری آنکھوں کے ساتھ دکاندار کو آواز لگائی' بھائی جلدی سے میرے جوتوں کے پیسے کاٹ لیجئے" جس پر دکاندار نے جواب دیا" بہن مجھے پتا ہے روزہ کھلنے والا ہے ہمیں بھی اتنی ہی جلدی ہے" بسم اللہ کہتے ہوئے 500 کا نوٹ تھاما اور جوتے کا ڈبہ رافعہ کے ہاتھ میں تھما دیا. رافعہ نے جلدی سے فضل کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا اور خود بھی باہر کی جانب قدم بڑھا دیے ۔ابھی وہ دو قدم ہی دور گئے ہوں گے کہ فضل نے اس کا کندھا ہلا کر سوال کیا "امی اس جوتے کی قیمت کتنی تھی؟ اس نے عجلت میں جواب دیا "495 روپے!"
"امی آ پ نے پانچ روپے پھر واپس کیوں نہیں لیے".
" ارے بیٹا لینا بھول گئی پانچ روپے ہی تو تھے "
اور دکان والے انکل نے کیوں نہیں واپس کیے فضل نے پھر جرح کی. اب رافعہ کو غصہ آگیا مگر اسے یاد آیا کہ اس کا تو روزہ ہے چنانچہ اس نے تحمل سے جواب دیا
" بیٹا وہ دینا بھول گئے ہوں گے اور تمہیں پانچ روپے کی فکر کیوں ستا رہی ہے""۔
امی آپ کو پتہ ہے وہ دکان والے انکل کسی کو بھی پانچ روپے واپس نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی وہاں کوئی چندے کا ڈبہ تھا جس میں وہ پیسے ڈال رہے ہوں"
وہ ا یک لمحے کو رکی اور پھر اس نے فضل سے پوچھا'' تم کہنا کیا چاہ رہے ہو کیا میں5 روپے کے لیے لڑوں"
"نہیں امی !میں صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کیا ان کا یہ عمل ناپ تول کی کمی میں شمارنہیں ہوگا؟ اور کل ہی مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ ناپ تول میں کمی کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے، اورآپ اپنے جائز پیسے چھوڑ کر کر اس گناہ میں برابر کی شریک ہو رہی ہیں، وہ بھی روزے کی حالت میں''
12سال کے بیٹے کی باتوں نے اسے لمحے بھر کو سن کر دیا تھا. ایک لمحہ لگا اسے فیصلہ کرنے میں، اور وہ فضل کے ساتھ دوبارہ دکان پر جا کھڑی ہوئی . فضل ماں کو ہچکچاتا دیکھ کرایک قدم آگے بڑھا، اوردکاندار سے مخاطب ہوا "انکل آپ نے ہمارے بقیہ پانچ روپے واپس نہیں کئے تھے." دکاندار نے حیرت اور غصے سے فضل کو دیکھا ، اسے دکان بند کر نے کی پڑی تھی، وہ نہایت طنزیہ انداز میں فضل سے مخاطب ہوا بیٹا اس پانچ روپے سے محل بناؤ گے کیا ؟انکل معذرت کے ساتھ اس 5روپے سے محل تو نہیں بنے گا لیکن ہاں! میں نے آپ کا اور شاید اپنی امی کا بھی دوزخ میں ایک کمرا بننے سے ضرور بچا لوں گا، ان شاءللہ" فضل نے مستحکم اور پرعزم لہجے میں جواب دیا۔ اس کی یہ بات سنتے ہی دکاندار کے چہرے پر شرمندگی کے سائے دکھائی دینے لگے۔ اور اس نےفضل کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "بیٹا اک نادانستگی میں کیے جانے والے گناھ ہے بچانے کا شکریہ"اور پانچ روپے فضل کی اوپری جیب میں رکھ دیے۔
فضل نے مسکرا کر دکاندار کی طرف دیکھا اور مخاطب ہوا انکل ایسا بھی ہوسکتا ہے نا کہ اس مبارک مہینے میں اس غلطی کو سدھارنے کی بنا پر آپ کے اور میری امی کے محل جنت کی ایک اینٹ میں اوراضافہ کر دیا جائے ۔ رافعہ اور دکاندار نے مسکرا کر اس بچے کو دیکھا جس نے ان کی آنکھیں کھول دی تھیں اور اس گناہ سے بچا لیا تھا, جسےوہ اب تک گناہ سمجھتے ہی نہیں تھے رافعہ کے دل کا سکون اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اس کی مٹھی میں دبا یہ پانچ کا نوٹ ان کے لیے ضرور جنت میں موجود محل کی ایک اینٹ ثابت ہوگا اور وہ مطئن ہو کر فضل کا ہاتھ تھامےگھر کی جانب قدم چل دی۔
تبصرہ لکھیے