ہوم << میرے ساتھ فی الحال تم ہو - ڈاکٹر عزیر سرویا

میرے ساتھ فی الحال تم ہو - ڈاکٹر عزیر سرویا

موجودہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں ایڈلٹ انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری کا حجم لگ بھگ 70 بلین ڈالر ہے۔ اس میں پورن، آن لائن جسم فروشی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے سائز کا اندازہ آپ یہ سوچ کر لگائیں کہ پچیس کروڑ لوگوں کے ملک پاکستان کا سالانہ بجٹ 65-70 بلین ڈالر ہوتا ہے۔

دنیا میں محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت 6 سے دس کروڑ انسان (98% خواتین) جسم فروشی کے دھندے سے براہ راست منسلک ہیں۔ ان کروڑوں کو” مینج“ کرنے والے اور اس ”صنعت“ سے فائدہ حاصل کرنے والے مزید کئی کروڑ ہیں۔ ان میں دلال، کوٹھوں کی میڈمیں، سیکیورٹی گارڈ، ڈرائیور، بارڈر کے آگے پیچھے کروانے والے ٹریفکر، جنسی سروسز دینے والی پوری ہوٹل انڈسٹری اور ٹریول انڈسٹری (جہاز، عملہ وغیرہ) جو جنسی ٹوور ازم کو سپورٹ کرتی ہے اور وہ سرکاری اہلکار جو اس تمام دھندے کو چلتا دیکھ کر آنکھیں بند رکھنے کی قیمت پاتے ہیں وغیرہ شامل ہیں۔ پھر اس ”صنعت“ کے اندر روح یعنی مال پھونکنے والے ”گوشت کے خریدار“ ہیں جنھوں نے سارے گلشن کا کاروبار چلا رکھا ہے۔ اس سارے معاملے کا مالی تخمینہ سینکڑوں بلین ڈالرز سالانہ ہے۔ اندازہ لگانے کے لیے پاکستان جیسے کئی ممالک کا اجتماعی سالانہ بجٹ تصور میں لے آئیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے دھندے میں ”پراڈکٹ“ عورت ہے، لیکن ساری کمائی کا بمشکل 10% ہی اس تک آتا ہے۔ باقی نوے فیصد ان تمام وچولوں، مینجروں کی جیب میں جاتا ہے جو بالعموم مرد ہیں۔ مرد پیسا بنا رہا ہے، لگا رہا ہے، کما رہا ہے، جبکہ عورت استعمال ہو رہی ہے۔ غور کریں یہ سینکڑوں بلین ڈالر کا لین دین آخر ہو ہی کیوں رہا ہے؟

اس سارے دھندے کے پیچھے مرد کی جنسی نا آسودگی ہے۔ جانوروں کی جملہ اقسام سے شروع کر کے انسان کی معلوم تاریخ سے لگ بھگ آج سے ایک ڈیڑھ صدی پیچھے تک آپ دیکھیں کہ نر/مرد کبھی “مونو گیمس” یعنی صرف ایک مادہ کے ساتھ نہیں رہا۔ مرد کی سرشت میں شامل ہے کہ اس کی جنسی بھوک زیادہ ہے۔ تبدیلی صنعتی انقلاب کے بعد آئی کہ مرد کو بس ایک عورت تک محدود رہنے کا سماجی و معاشی طور پر پابند بنایا گیا۔ وجوہات بہت ہیں، لیکن ایک وجہ ہے کہ ایک پوری صنعت جس میں پراڈکٹ عورت ہے کو وجود میں لانے کے لیے مردوں کی جنسی ناآسودگی کو باقاعدہ نظام بنا کر رائج کرنا ضروری تھا۔

”میرے ساتھ فی الحال تم ہو“ والے شوشے کے مرکزی کردار دانش تیمور کے بیان کو لے کر سوشل میڈیا سرگرم ہے۔ خواتین کو اپنی تضحیک محسوس ہو رہی ہے۔ کوئی ”عائزہ خان“ کا شوہر ہوتے ہوئے کہنا تو دور یہ سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورت نکاح میں لائے؟ عورت جاتی کا کہنا ہے کہ بالعموم ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے کہ مرد اپنی مذہبی اجازت کیوں اچھالتے پھرتے ہیں، کیوں جتاتے ہیں احسان کہ وہ دوسری تیسری چوتھی نہیں لا رہے کہ” فی الحال میرے ساتھ تم ہو“۔۔۔

جن عورتوں کے جذبات کو ٹھیس لگی ہے، یہ ہماری بھولی بہنیں ہیں، کیونکہ ان کو محض مرد کے اپنے اندر پائی جانے والی جنسی ناآسودگی کو آواز فراہم کرنے سے ہی دل آزاری ہو گئی ہے۔ یہ نہیں جانتیں کہ مرد عموماً اپنے جذبات یا امنگوں کو آواز فراہم کرنے کا عادی نہیں ہوتا، وہ کہتا کم ہے کرتا زیادہ ہے۔ اس وقت اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں ہر دس میں سے ایک مرد قبول کرتا ہے کہ اس نے سیکس کے لیے پیمنٹ کبھی نہ کبھی کر رکھی ہے۔ جو نہیں مانتے ان میں سے بھی نناوے فیصد (ایک فیصد درویش صفتوں اور تکنیکی فالٹ والوں کا مارجن رکھ رہا ہوں) نے عورت کی جنسی سروسز آن لائن کسی نہ کسی صورت حاصل کر کے اپنی ناآسودگی کا عملی تدارک کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرد جب تھوک کے حساب سے ناآسودہ ہوتا ہے تو وہ ٹی وی پر تو فقط ایک آدھ بیان ہی دیتا ہے، لیکن عملاً اپنی ناآسودگی کا ازالہ کرنے کے لیے سینکڑوں بلین ڈالر کی صنعت بھی کھڑی کرتا ہے، جس میں پراڈکٹ کی طرح بیچی جانے والی عورت اپنے آپ کو گزرے ادوار کی طرح مظلوم لونڈی بھی نہیں سمجھ رہی ہوتی، اور کئی گھروں کے چولہے بھی جل رہے ہوتے ہیں۔ مرد کی جنسی ناآسودگی کے الفاظ میں اظہار سے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے، لیکن اسی ناآسودگی کے عملی اظہار سے ایڈلٹ صنعتی انقلاب آتے ہیں.

جو نظام بھی فطرت کے قریب ہو گا، وہ اگر کبھی زمانے میں رائج ہوا تو پہلا حل وہ مرد کی اس دو صدیوں سے مسلسل بڑھتی ہوئی جنسی ناآسودگی کا کرے گا (میرے نزدیک ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج حل کا ایک حصہ ہو گا)۔ مرد کی جنسی ”قوت“ کو چینلائز کر کے اگر سینکڑوں بلین کی غلیظ انڈسٹری پیدا ہو سکتی ہے تو اس کا ازالہ کر کے مثبت سمت دینے سے سوچیے کیا کچھ ہو سکتا ہے! تب تک انجوائے کیجیے، کیونکہ ”فی الحال“ تو اپنے مرد کے پاس آپ ہیں، لیکن باقی اوقات میں اس کے پاس انٹرنیٹ اور ستر بلین ڈالر کی ایڈلٹ انٹرٹینمنٹ ہے! جس سے آپ کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی!!

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر عزیر سرویا

ڈاکٹر عزیر سرویا ماہر کینسر کے طور پر سرگودھا اور فیصل آباد میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ سماجی و مذہبی امور میں دلچسپی ہے۔ سوشل میڈیا کے معروف لکھاریوں میں سے ہیں۔ وسیع حلقہ قارئین رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں شوق سے پڑھتی جاتی ہیں

Click here to post a comment