رات کی تاریکی چاروں طرف چھائی ہوئی تھی، سردیوں کی رات تھی،وہ بے چینی کے ساتھ بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی، نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
اس کا تخیل اونچی پرواز پر تھا، اس کے دماغ میں ایک سوال گونج رہاتھا۔
"کیا ساۓ بھی بولتے ہیں"
رات کی تاریکی میں اسے کچھ آوازیں سنائی دینے لگی،گویا مدھم آوازمیں کوئی اس کو پکار رہا تھا، وہ وحشت زدہ انداز میں چاروں طرف دیکھنے لگی، پر اس کو کوئی بھی نظر نہیں آیا۔
" اچانک زمین پر ایک سایہ ابھرا، اس کو دیکھ کر چونک گئی، اور بولی، کون ہوتم؟
وہ بولا" میں تمہارا سایہ"
پھر کہنے لگی " کیا ساۓ بھی بولتے ہیں؟"
ہاں بولتے ہیں.
تم اتنی بیچین اور مضطرب کیوں ہو؟
مجھے سکون نہیں مل رہاہے، میں کس سے کہوں، اپنی فریاد ہر بندہ میرے سے دور بھاگتا ہے، میری تنہائی کا ساتھی کوئی نہیں، میرا وجود اندیکھی آگ میں جلتارہتاہے۔
مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟
"وحشتناک انداز میں چیختے ہوۓ بولی"
اس کی چیخیں سن کر در و دیوار بھی ساکت تھے، سب اس کا غم محسوس کررہے تھے، سواۓ اس کے گھر والوں کے جن کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ" وہ مرے یاجیے".
اس کی اس حالت کا ذمہ دار کون تھا؟
"وہ شخص جس کو اس نے دل کی گہرائیوں سے چاہاتھا، مگر آج اس نے دوسری شادی کرلی تھی، (اس کو بانجھ سمجھ کر)
راتوں کی تنہائیاں اس کی زندگی کی ساتھی بن گئی تھیں۔
سایہ بولا دیکھو تم، رونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، دعاکرو تمہارا مقدر بدل جاۓ۔
(دعا تو تقدیر کا لکھا مٹا سکتی ہے)
پھر تم مایوس کیوں ہو؟
کیا تمہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہیں؟
اگلی رات کامنظر:
وہی لڑکی دیوانہ وار سڑک پر بھاگی جارہی تھی، لوگ اس کو حیرت اور تعجب کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، مگر اس کو کسی کی بھی پرواہ نہ تھی، بھاگتے ہوئے سامنے نظر آتے جنگل میں داخل ہوگئی، اس کو یوں محسوس ہورہاتھاکہ" گویا بہت سے ساۓ اس کے ساتھ چل رہے ہوں۔"
وہ اچانک رک گئی، اس کی نظروں کے سامنے ایک منظرتھا۔
درخت کی شاخوں سے روشنی پھوٹ رہی تھی، جس کی وجہ سے اردگرد کا ماحول روشن معلوم ہورہاتھا، اس کے نیچے ایک بزرگ سر جھکائے تسبیح ہاتھ میں لیۓ ذکر واذکار میں مصروف تھے، وہ چلتی ہوئی آگۓ آئی، اور روشنی کے دائرے میں داخل ہوگئی، "اس کے پیچھے آتے ساۓ رک گۓ."
بزرگ نے اس سے پوچھا۔
کیوں رات کے سناٹے میں بھٹکتی پھرتی ہو؟
سکون کی تلاش میں، مجھے سکون نہیں ملتا، میں در در بھٹکتی پھرتی ہوں، مجھے ایسا نسخہ بتائیں کہ مجھے سکون مل جاۓ، میری دعائیں بھی بے اثر ہیں، مجھے نہیں معلوم میں کیا کرتی پھرتی ہوں۔
وہ روہانسے لہجے میں بولی۔
بزرگ نے کہا،
کیا آپ کو معلوم نہیں ہے۔
"الابذکر اللہ تطمئن القلوب"
"خبردار سکون صرف اللہ تعالیٰ کی یاد میں ہے."
جاؤ گھر لوٹ جاؤ، اپنے سارے درد وغم"رب" کو بتاؤ، حال دل سناؤ، رو رو کر مانگو، ایڑیاں بچھاؤ، مگر آئندہ یوں تنہائی میں اپنے گھر سے باہر مت جاؤ۔
بیٹی! مجھے تمہارے پیچھے سایوں کا ہجوم نظر آرہاہے۔
جاؤ رب سے لو لگاؤ، اور ان سے پیچھا چھڑاؤ۔
لوٹ جاؤ!
لوٹ جاؤ!
وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور واپس کے سفر پر روانہ ہوئی، دل بوجھل، اور قدم بھاری تھے، سایوں نے بھی حرکت کی اس کے پیچھے چلنے لگے۔
"کچھ دور جاکر جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے پیچھے کچھ نہ تھا، نہ روشنی، نہ بزرگ، صرف اندھیری، اور کالی رات تھی،وہ تیز قدم اٹھاتی گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔
(وہ ساۓ مایوسی، نا امیدی، شیطانی وسواس، اور غم کی اتھاہ گہرائیوں کے تھے)
وہ جلدی سے کمرے میں داخل ہوئی، وضو کیا، اور نماز کے لیے کھڑی ہوگئی،
سایوں میں ہل چل مچ گئی۔
یہ کیا کرنے لگی ہے؟
یہ ہم کو دور بھیجنے لگی ہے؟
سایوں کی بولیاں وہ سن سکتی تھی۔
اور دل ہی دل میں خوش بھی تھی۔
مجھے سکون کا راستہ مل گیا۔
اب میری بے چینی دور ہوجاۓ گی۔
مجھے میرے رب نے بھٹکنے سے بچالیا۔
سلام پھیر کر مسکراتی نگاہوں سے "سایوں" کی طرف دیکھا اور بولی،
کیا تم بھی بولتے ہو؟
ساۓ بولے ہاں ہم ان کے سامنے بولتے ہیں، جو حقیقی منزل پالیتے ہیں، جن کے نزدیک ویرانی اور تنہائی نہیں بھٹکتی، جو سیدھا راستہ پالیتے ہیں، جو امید وفا رب العالمین کو بنالیتےہیں۔
اب ہمیں تمہارے پاس سے رخصت ہونا ہوگا، تمہارے جیسی کسی اور لڑکی کو جاکر اپنا شکار کرناہوگا، جو مایوسی میں بھٹکتی پھرتی ہو۔
"اچانک ساۓ وہاں سے غائب ہوگۓ"
اس کو محسوس ہوا کہ وہ اچانک گہری نیند سے بیدار ہوئی ہے، وہ سب اس کے لاشعور میں چلتی ایک کہانی ہے، ایسی کہانی جس نے اس کو حقیقت سے روشناس کروادیاہے،
جس نے اس کو سیدھا راستہ دکھادیاہے،
آخر اس نے" سکون " حاصل کرنے کا راز معلوم کرلیاتھا۔
تبصرہ لکھیے