گو کہ رسولِ کریم ﷺ کو صاحبِ شریعت بنا کر بھیجا گیا تھا لیکن انسانوں کی اہم ترین ضروریات کا علم بھی آپ کو دے دیا گیا تھا. یوں آپ جہاں پیامبری اور دعوت وتبلیغ کے فرائض انجام دے رہے تھے، وہیں آپ سپہ سالاری بھی کرتے اور بہترین منتظم اور عمدہ دور اندیش حکمران ہونے کا بھی ثبوت دیتے. یہ دنیا وما فیہا کے لیے عجیب منظر ہوتا کہ بادشاہت امام الانبیاء کے قدموں میں ہے، رعایا آپ کے عالی مرتبت صحابہ ہیں، خطہ مدینہ طیبہ ہے اور تعلیمات سیدھی رب العالمین کی طرف سے اتر رہی ہیں. ادھر مسئلہ آن کھڑا ہوا ادھر حکم ربانی نازل ہو گیا ، اور پھر رعایا ایسی کہ کوئی حکم نازل ہو جاتا تو سارے اس کی تعمیل میں جُت جاتے اور کوئی گھڑی تعمیلِ حکم میں فروگزاشت نہ ہونے دیتے۔لمحہ بھی نہ گزرتا کہ عمل کرنے والے عمل کر جاتے۔
یہ حکم و رعیت کا سلسلہ جاری تھا کہ مدینہ کے اطراف میں کچھ علاقوں سے روابط ابھی باقی تھے ، یا پھر معاہدے ہونا رہ گئے تھے. طریقہ نبوی یہی تھا کہ ممکن ہو تو صلح کر کے معاملات طے کر لیے جائیں کیونکہ آپ تو تھے ہی سراسر رحمۃ للعالمین، لیکن اگر کوئی روگردانی دکھائے تو اس کو بزورِ شمشیر سیدھا کر دیں کہ جنت کو شمشیروں کے سائے تلے جو رکھ دیا گیا ہے!
یہ کوئی پانچ ہجری کا زمانہ تھا اور قریبِ نجد کو لوگوں نے لڑنےکے لیے جانا تھا ، ادھر مدینہ میں جنگ کے طبل بجے تو ادھر ازواج کے دل میں ہم سفر کے ساتھ ایک نئے سفر کی تمنا اٹھنے لگی۔ آپ نے قرعہ ڈالا اور سب سے محبوب بیوی کے نام کا قرعہ نکل آیا ، خوشیاں تھیں سیدہ کے چہرے پر رقصاں اور ازواج تھیں کہ آپ کی قسمت پر نازاں اور عائشہ تھیں کہ اس نعمت پر خوش وخرم۔ ذرا تصور تو کیجیے کہ سفر ہو ، ساتھ میں ہم سفر ہو ، کیوں نہ منزلیں آسان ہو جائیں ، کیسے نہ دل مچل اٹھے ، اور پھر جب ہم سفر بھی دنیا والوں کا سردار ہو تو کیوں نا وارے نیارے ہو جائیں۔
ادھر سب جنگ کی تیاری کرنے لگے اور ادھر رسولِ اکرم ﷺ اپنی پیاری زوجہ کےلیے سواری تیار کروانے لگے ، کیا منظر ہوگا کہ فلاں فلاں کو اس ڈیوٹی پر مقرر کر دیا کہ تم نے سیدہ کا ہودج (آپ کی ڈولی کو) اٹھانا ہے اور تم نے ان کا اونٹ چلانا ہے ، پھر کس نزاکت کے ساتھ ہودج تیار کروایا ہوگا کہ سیدِ ولدِ آدم کی محبوب زوجہ نے سوار ہونا ہے، کہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے ، مؤمنوں کی ماں ہیں ، ہر ہر ایمان والے کےلیے اس ماں کے آرام کا خیال کتنا ضروری ہوگا. خوب تیاریوں کے ساتھ قافلہ سوئے منزل کو روانہ ہوا ، آگے آگے سید البشر ہیں، ان کے پیچھے افضل الخلائق کا قافلہ ہے، جان نثار قطار در قطار کھنچے چلے جا رہے ہیں ، دنیا کے امن و امان کی خاطر اوباش لوگوں کو انجام تک پہنچانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
وہی انداز کہ یا تو ایمان لے آؤ ، یا جزیہ دے دو یا پھر مقابلہ کر لو۔۔۔اس کے علاوہ سمجھوتے کی کوئی شرائط نہیں، ہلکی پھلکی جھڑپیں ہوئیں، اور دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ اٹھے۔ جنگ اختتام کو پہنچی اور قافلہ واپس مدینہ کی طرف رواں دواں ہوا۔
لوگ سوچتے تھے کہ چلو شکر ہے امتحان جلد اختتام کو پہنچا لیکن ابھی تو امتحان کی گھڑیوں نے آنا تھا ، ابھی تو خوب آزمایا جانا تھا ، ابھی تو تذکرہِ ام المؤمنین کو قرآن بنایا جانا تھا۔
اور پھر ایسا ہوا کہ واپسی کے سفر میں کہیں پڑاؤ ڈالا گیا ، نبی کریم ﷺ کے ارد گرد جان نثار جمع ہو گئے ، اللہ اللہ کیا منظر ہوگا ، کیا مجلس ہوگی ، کیا محبتوں کے احوال ہوں گےکہ فخرِ انسانیت کی مجلس ہے اور درسِ انسانیت دیا جا رہا ہے۔ لیکن اسی مجلس سے ذرا پرے کو ایک گروہ بیٹھا ہے ، خود کو مسلمان ظاہر کر کے اسلام و مسلمانوں کی تکلیف کا سامان کرنا ان کی عادت ہے، کبھی تو میدانِ جنگ میں ہی نہ آتے تھے ، اور کبھی ساتھ چلے آئے تو افواہیں اڑاتے تھے ، نفرتیں پھیلاتے تھے ، گستاخیاں کرتے تھے۔لیکن اب کی بار معرکے سے واپسی کا سفر تھا اور کوئی موضوع نہ مل پایا تھا۔
قافلے کو پڑاؤ ڈالے کچھ وقت گزرا ، تھوڑا آرام کیا ، کچھ مشورے ہوئے تو پھر حکم ہوا چل دو ، چلنے والے پیادہ ہی چلنے لگے ، سواریوں والوں نے رکابیں تھام لیں ، اور قسمت والے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ڈولی کی طرف لپکے۔منادی اعلان کر چکا تھا ، ہر شخص سن چکا تھا ، قافلہ حرکت کر رہا تھا ، سوچا کہ سیدہ نے بھی تیاری کر ہی لی ہوگی۔گو کہ حجاب کے احکام نازل نہ ہوئے تھے لیکن فطرتِ سلیمہ کا تقاضہ یہی ہے کہ اجنبی عورت کی طرف آنکھ نہ اٹھے ، خواہ مخواہ کی باتیں نہ ہوں ، اور بھلا پیغمبر ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ پاک طینت اور سلیم الفطرت ہو بھی کون سکتا تھا ، سو تیزی سے آئے ، نہ ہودج میں جھانکا ، نہ آواز لگا کر پوچھا ، آگے بڑھے اور سیدہ رضی اللہ عنہا کی ڈولی اٹھا کر کاندھوں پر رکھ لی ، قریب ہی اونٹ تیار تھا ، جا کر ہودج اس اونٹ پر ٹکا دیا ، ادھر اونٹ چلانے والے نے آرام سے اونٹ کو اٹھایا، اور پھر خراماں خراماں چلنا شروع کر دیا کہ حکم تھا دوڑانا نہیں، ان پر سوار جو ہیں وہ شیشے سے بھی زیادہ نازک ہیں۔
یہ خدمت گزار تھے کہ اپنے خیال میں سیدہ کو لیے قافلے کے ساتھ چلے جا رہے تھے ، اور ادھر سیدہ تھیں کہ اپنا ہار تلاش کرنے پڑاؤ والی جگہ سے بھی دور گھوم رہی تھیں۔اب جو واپس لوٹیں تو دیکھا قافلے والے تو چلے گئے! سفر کا سارا مزہ ماند پڑ گیا ، اپنے سردار کا ساتھ چھوٹ گیا ، کیا کرتیں ، پریشان تھیں۔لیکن حال وہی تھا جو سیدہ ہاجرہ کا ابراہیم علیہ السلام کے جانے کے بعد ہو گیا تھا ، کہ بے آب و گیا صحرا ہے، اور کوئی سہارا بھی نہیں ، ادھر بھی یہی حال تھا کہ سہارا ٹوٹ چکا تھا ، تاجدار چلے گئے تھے ، قافلہ گزر گیا تھا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا گو کہ عمر میں چھوٹی تھیں کہ کوئی چودہ پندرہ برس کی ہوں گی ، لیکن بڑے حوصلے اور ہمت والی تھیں ، پہاڑوں سے بھی بڑا توکل رب کی ذات پر تھا ، سمندروں سے بھی گہرا تعلق نبی پاک ﷺ سے تھا۔کچھ دیر پریشان ہوئیں لیکن کیا کرتیں، جانتی تھیں کہ قافلہ رکے گا تو انھیں نہ پا کر محبوبِ کبریاء ﷺ واپس لوٹ آئیں گے ، بس اسی امید کے ساتھ سکون سے لیٹ گئیں۔
قبل اس کے کہ ادھر قافلے والوں کو کچھ خبر ہوتی، ادھر پیچھے ایک صحابی چلتے ہوئے آ نکلے، دور سے کسی کو لیٹا ہوا دیکھا تو حیران ہو گئے، قریب پہنچ کر مؤمنوں کی ماں کو پہچانا تو پریشان ہو گئے۔ زبان پر یکدم "انا للہ" جاری ہو گیا ، اس کے علاؤہ کوئی لفظ بھی نہ بولا، بلکہ خاموشی سے سیدہ کو سواری پر سوار کیا، اور رکاب تھامے چلتے گئے ، قافلے والوں نے پیچھے آہٹ سنی، کسی کی آمد کو محسوس کیا تو متوجہ ہو گئے ، دیکھا تو سیدہ سوار ہوئے چلی آ رہی تھیں، آپ کا ایک بیٹا رکاب تھامے ہوا تھا۔
بس یہی امتحان کا موڑ تھا ، سارے قافلے والے شکر ادا کر رہے تھے کہ سیدہ زیادہ پیچھے نہ رہیں، لیکن تخریبی ذہن والے ایک نئی سازش بُننے لگ گئے. اب کی بار بد طینتوں نے پیغمبرِ اسلام کی ذات کو تکلیف پہنچانے کا سوچا ، آپ کے گھر میں بے چینی کا ارادہ کیا ، اور سیدہ پر بہتان لگا دیا۔۔۔
ہائے سخت دل لوگ!
ہائے بد قسمت افراد!
ستانے کو کوئی نہ ملا تو مؤمنوں کی ماں کو ہی نشانہ بنا ڈالا ، پریشان کرنے کو کوئی موضوع نہ سوجھا تو رسول اللہ ﷺ کے گھر پر اپنی گندی ذہنیت کو لا تھوپا ،لیکن جس کی مت ماری جائے اس کا کیا کہیے!
لوگ مدینہ پہنچ چکے تھے. ایک طویل تھکا دینے والے سفر نے سیدہ کو بیمار کر دیا تھا ، اور آپ گھر میں ایک طرف کو لیٹ گئی تھیں. دنیا جہاں سے دور اپنے محبوب کے حجرے میں آرام فرما تھیں کہ رسول اللہ طبیعت پوچھنے آئے۔ آئے ، سلام فرمایا ، حال احوال پوچھا اور چلے گئے۔ ایک بار ایسا ہوا، پھر دوسری بار ، پھر ہر بار ایسا ہی ہونے لگا تو سیدہ پریشان ہو گئیں. آپ نے تو صرف ناز ونعم دیکھا تھا، کبھی صدیق اکبر کی لاڈلی تھیں تو اب سرور کونین کی محبوب بیوی تھیں۔ یہ عدم التفات بڑی تکلیف کا باعث بن گیا۔ بڑا جی چاہتا تھا کہ ایک بار پھر اسی محبت سے تاجدار قریب بیٹھیں، کچھ کہیں کچھ سنیں، راز ونیاز ہوں، وہ پکاریں "عائش" اور میری زندگی کو ایک نئی زندگی نصیب ہو، لیکن آپ کا رویہ مستقل بدلا ہوا تھا ، وہی سلام دعا پر اکتفا تھا۔ سیدہ کے ذہن میں پوری کیسٹ چلی، گزرے دنوں کے بارے میں خوب سوچا لیکن کوئی ایسی بات نہ ملی جس سے رسول اللہ ﷺ ناراض ہو جائیں۔یوں آپ کی پریشانی بڑھتی رہی ، آپ کا مرض گہرا ہوتا گیا۔
ابھی پریشانی کی ابتداء ہی ہوئی تھی کہ ایک رات ام مسطح کے ساتھ رات گئے گھر سے باہر گئیں، قضائے حاجت کو کافی دور تک جانا ہوتا تو راستے میں باتیں بھی ہو جایا کرتیں. باتوں باتوں میں ام مسطح کو سنا کہ اپنے بیٹے کو بد دعا دے رہی تھیں، رحمۃ للعالمین کی زوجہ کا دل بھی نرم تھا، کہا یوں برا بھلا نہ کہیے ، یوں بد دعا نہ دیجیے. یہ سنا تو ام مسطح حیران ہو گئیں کہ جس کی خاطر میں نے اپنی اولاد کو برا کہا، وہی مجھے روکتی ہے. پوچھا سیدہ معلوم بھی ہے اس کا گناہ کیا ہے؟ فرمایا: میں تو مریضہ ہوں، کئی دن سے باہر کے احوال سے بے خبر ہوں، ادھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی مجلس نہیں ہو پا رہی، بھلا مجھے کیا معلوم؟
یہ سن کر ام مسطح نے وہ روداد سنائی کہ سیدہ کہ قدموں تلے زمین نکل گئی، گویا کہ زمین بھر غموں کے طوق یکدم آپ کی گردن میں ڈال دیے گئے ہوں، گویا کہ آسمان ٹوٹ کر اس نازک سی جان پر آ گرا ہو۔ سب باتیں، سارے رویے سمجھ میں آنے لگے۔ جنابِ رسول اللہ ﷺ کا عدمِ التفات بھی سمجھ آ گیا، سمجھ گئیں کہ کڑا امتحان ہے، ورنہ وحی آنے میں کون سا دیر لگتی ہے؟
بس اب زمین تنگ ہو گئی، زندگی پھیکی پڑ گئی، کہنے لگیں کہ: ماں کی مامتا میں سکون کی دو گھڑیاں چاہتی ہوں ، باپ کے ناز ونعم میں میں چند ساعتوں کا سوال ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی کہ جانتے تھے تسلی کےلیے ماں سے زیادہ مناسب آرام گاہ کوئی نہیں. سیدہ جلد ہی میکے چلی آئیں ، اور اب تو گویا ہر ہر خبر پر نظر رہنے لگی. ہر آنے جانے والے کی بات سننے لگیں. جب وہ سب سنا جو سوچا بھی نہ تھا تو آنکھیں اشکبار ہو گئیں. دل دہل کر رہ گیا۔ اب بس ایک ہی کام تھا کہ جاگتی تو رو جاتیں اور روتے روتے سو جاتیں۔
یہ محبوبِ خدا کی محبوب زوجہ تھیں، یہ مؤمنوں کی ماں تھیں، یہ پاک دامنی کا نشان تھیں کہ جن پر بہتان لگایا گیا۔ اور حالت یہ ہو گئی کہ یوسف کے بچھڑ جانے کے بعد جو یعقوب کا حال تھا۔ تسلی دینے والے خاموش رہنے کا کہتے، لیکن ضبط تھا کہ بندھنے کو نہ آتا تھا۔
ادھر آپ کی پاکدامنی کی گواہیاں مل رہی تھیں ، کبھی خاص خادمہ کا بیان لیا جاتا تو کبھی سوتن سے ان کی بابت پوچھا جاتا۔ خود رسولِ اکرم ﷺ کو بھی یقین تھا کہ پاک دامن ہیں، لیکن وحی کا انتظار تھا۔ ایک روز خود ہی سسرال چلے آئے، کہنے کو تو صدیق کا گھر تھا، ایک دوست کا گھر لیکن آج وہ سسرال ہی لگتا تھا کہ جہاں اپنی محبوب زوجہ سے ملاقات کےلیے امام الانبیاء تشریف لا رہے تھے، کچھ تسلی دینے کا ارادہ تھا ، کچھ تشفی کی امید تھی۔
کہا: عائشہ اگر کوئی غلطی ہو گئی ہے تو معافی مانگ لو۔ اللہ تو غفور الرحیم ہے، علیم بذات الصدور ہے، وہ دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اور معافی مانگنے کی تڑپ کا بھی ادراک رکھتا ہے، اس کے ہاں معافی عام ہے، بس تم معافی مانگنے والی بن جاؤ۔
اور اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، اور یہ کہتے ہوئے تو آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ یقین تو ہمیں بھی ہے کہ کچھ نہیں ہوا، لیکن اس کچھ نہ ہونے پر جو کچھ ہو رہا تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ کےلیے کتنا تکلیف دہ تھا، اس کا اندازہ لگانے کو شاید ہمارے اندازے غلط ہو جائیں۔فرمایا: اگر کچھ نہیں ہوا تو پھر انتظار کرو، تمھاری برات کا اعلان ہوگا۔
اپنے حبیب کی زبان سے یہ سنا تو سیدہ کے آنسو بھی سوکھ گئے۔ اب بڑی بے تابی سے اعلانِ برات کا انتظار ہونے لگا۔ سوچتی تھیں کہ مانا نبی کی زوجہ ہوں، صدیق کی بیٹی ہوں، لیکن ہوں تو چھوٹی سی ہی نا، تو بس ہونا کیا ہے، جبریل آ کر خبر دیں گے اور رسول اللہ لوگوں کو بتا دیں گے۔خود کہتی ہیں کہ: "میں خود کو بہت چھوٹا سمجھتی تھی."
لیکن رب کے ہاں آپ کا مقام ہی کچھ اور تھا، بھلا اتنے سخت امتحان سے اپنے محبوب کو بھی گزارا، پھر آپ کی محبوب زوجہ کو بھی گزارا، پھر پورے مدینے والوں کو گزارا، اور اس کا انعام کوئی چھوٹا سا ہو ، ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
ابھی آپ اپنی پیاری زوجہ کے پاس ہی بیٹھے تھے، عیادت فرما رہے تھے، تسلی دے رہے تھے کہ آپ پر کیفیت طاری ہو گئی، سخت سردی میں پیشانی پر پسینہ آ گیا. سیدہ پہچان گئیں کہ جبریل آ گئے ہیں، قرآن اتر رہا ہے. نہیں معلوم تھا کہ کیا وحی کیا جائے گا، آپ پر سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی، تو چہرہ خوشی سے چمک اٹھا، پریشانیاں یکمشت ہی ختم ہو گئیں، فرمایا عائشہ!
قرآن اترا ہے، تمھاری برات آئی ہے ، تمھاری پاکدامنی کا تذکرہ قرآن کا حصہ بن گیا ہے، تمھارے کڑے امتحان کا بڑا انعام اتر گیا ہے۔
ادھر سید البشر کے گھر پر خوشی ہوئی ، ادھر سارا مدینہ ہی جھوم اٹھا۔جھوٹوں کا منہ کالا ہوا، مؤمنوں کی ماں کا تذکرہ قرآن بنا، اور سورۃ النور کی دس آیات آپ کی شان میں نازل ہوئیں جس میں نہ صرف آپ کی برات کا اظہار ہوا، بلکہ ساتھ ساتھ ایمان والوں کے رویوں کی اصلاح بھی کی گئی۔
رضی اللہ عنہا ، وصلی اللہ علی زوجھا الکریم۔
تبصرہ لکھیے