ہوم << حمیدہ شاہین ، منفرد اسلوب کی شاعرہ - رقیہ اکبر چوہدری

حمیدہ شاہین ، منفرد اسلوب کی شاعرہ - رقیہ اکبر چوہدری

ہاتھ میں کاسہ ،کلائی میں کڑا سجتا ہے
در بڑا ہو تو سوالی بھی کھڑا سجتا ہے

۔۔

آپس میں جو طریقہ نا گفت و گفت رکھ
لوگوں کے سامنے تو رویہ درست رکھ

یہ شہرہ آفاق اشعار جس ہستی کے ہیں دنیا انہیں حمیدہ شاہین کے نام سے جانتی ہے۔ ایسی نابغہ کی شخصیت و تخلیقات پہ بات کرنا مجھ جیسی عام سمجھ بوجھ والی ادب کی ایک ادنیٰ طالبہ کےلیے جہاں بہت بڑے اعزاز کی بات ہے، وہیں یہ کار دشوار بھی ہے۔ حمیدہ شاہین صاحبہ کی شاعری جو شان و شوکت رکھتی ہے، میں اعتراف کرتی ہوں کہ اس کے شایان شان کچھ کہنے کےلیے میرا فہم و علم بہت کم ہے، اس لیے اپنے بےربط خیالات پر مبنی یہ چند سطور اس امید پہ آپ کے سامنے رکھتی ہوں .

گر قبول افتد زہے عز و شرف

شاعری ہو یا نثر یا فنون لطیفہ کی کوئی بھی صنف کائنات کے پراسرار بھید اور حیات کارزار کے سربستہ رموز کھولتے ہیں۔اس لئے کسی بھی سماج کی تعمیر و تشکیل میں فنون لطیفہ کی اہمیت دو چند ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیق کار معاشرے کا سب سے قیمتی اور حساس حصہ گردانے جاتے ہیں۔ ایک اعلیٰ تخلیق کار ہونا بہت بڑی بات ہے اور اگر اسی اعلیٰ تخلیق کار میں بہت بڑا انسان بھی چھپا ہو تو سونے پہ سہاگا ہو جائے۔ حمیدہ شاہین صاحبہ کا شمار ایسے ہی تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ نہایت وضع دار ،دھیمے لب و لہجے میں بات کرنے والی ،شفیق اور مہربان ہستی جن کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ جو لکھتی ہیں وہ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ پورا اخلاقی پیکج ہوتا ہے۔

اے بڑے بولوں کی دنیا ، یوں مِری حاسد نہ بن
میری عرضی مختصر تھی اس لیے مانی گئی
ہر طرف زہرہ جبینوں ، گل رُخوں کا راج تھا
جب میں اپنے زرد رُو پیکر سے پہچانی گئی

تخلیقیت کے اوج کمال کو چھوتی حمیدہ شاہین کو رب تعالیٰ نے تخلیقیت کے ساتھ ساتھ ایسی اخلاقی خوبیوں سے بھی نوازا ہے جس کی ہر خاتون خواہشمند ہوتی ہے۔ تخلیق میں جیسا کمال انہیں ودیعت ہوا ہے، ان کے ہم عصروں میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔

کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو
سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں

موجودہ ادبی منظر نامے میں جو چند ایک شاعرات اپنے منفرد، دلکش اور کاٹ دار اسلوب سے پہچانی جاتی ہیں حمیدہ شاہین وہاں صف اول میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ نظم و نثر میں یکساں دسترس کی حامل، حمیدہ شاہین فی الحقیقت اپنے جداگانہ لب و لہجے سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہم جب کسی بھی شاعر کےلیے منفرد اسلوب کی بات کرتے ہیں تو عموماً یہ بھی محض لفاظی ہوتی ہے جسے ہم روا روی میں بول دیتے ہیں لیکن جب بات حمیدہ شاہین صاحبہ کہ آئے تو یہ محض رسماً بولے جانے والے کلمات نہیں ہوتے وہ حقیقت میں اپنا ایک مکمل جداگانہ اسلوب رکھتی ہیں جو ہمیں کہیں اور نہیں ملتا۔
آج ہماری ہار سمجھ میں آنے والی بات نہیں
اس کے پورے لشکر میں تھے آدھے آج ہمارے لوگ
کس کے ساتھ ہماری یک جانی کا منظر بن پاتا
آدھے جان کے دشمن تھے اور آدھے جان سے پیارے لوگ

حمیدہ شاہین صاحبہ کے بارے میں محمد حمید شاہد صاحب کے یہ الفاظ میرے خیالات کو بہ احسن بیان کر رہے ہیں: "دیکھا گیا ہے کہ بالعموم غزل گو شاعر مصرع مصرع آگے بڑھتے ہیں اور مصرع تازہ کے تعاقب میں اپنے ہی فکری دھارے کو کاٹتے پیٹتے چلے جاتے ہیں۔انتشار فکری اچھے بھلے شاعروں کو اپنے ہی قدموں پر یوں گرا دیتی ہے جیسے وہ ہڈیوں کے استخوان کے بغیر زمین پر پڑے ماس کا ڈھیر ہوں۔ تاہم حمیدہ شاہین کی فکر مربوط ہے اور اُس کا ایک رُخ متعین ہے جو ان کے تخلیقی وجود کو قامت اور پہچان عطا کرتا ہے." وہ اپنی نظم و نثر کے ذریعے ان دکھوں کو بیان کرنا چاہتی ہیں اور کرتی ہیں جنہوں نے بالعموم تمام مرد و زن اور بالخصوص خواتین کی زندگی کو بہت مشکل بنا رکھا ہے۔ مگر اسے بیان کرتے ہوئے ان کے لہجے میں قطیعت تو نظر آتی ہے بغاوت نہیں۔ معاشرتی ناہمواری اور سماجی ناروا بندشوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ان کے لہجے میں ایسی کاٹ ملتی ہے کہ قاری انگشت بدندان رہ جائے. آپ ان کی یہ مشہور زمانہ نظم پڑھیے

میں ٹھنڈے توے کی روٹی ہوں
مجھے بے دھیانی میں ڈالا گیا
مجھے بے دردی سے پلٹا گیا
مرے کتنے ٹکڑے اکھڑ گئے
میں ٹھیک سے سینکی جا نہ سکی
میں کسی چنگیر میں آ نہ سکی
مرا پسنا جلنا اور گندھنا
بے کار گیا میں ہار گئی
اک بے دھیانی مجھے مار گئی

وہ اپنے فن کے ذریعے صرف انسان کی حس جمالیات کو ہی تسکین نہیں پہنچاتیں بلکہ پورے آہنگ سے ان اخلاقی اقدار کو بھی بیان کرتی ہیں جنہیں ہم اپنی نااہلی سے ایک ایک کر کے گنواتے جا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی تاثیر بہت گہری اور پائیدار اور ترسیل نہایت تیز رفتار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے بالکل بجا فرمایا کہ ''سامعین حمیدہ کا شعر جس طرح وصول کرتے ہیں اس کی مثال کم کم ملتی ہے مجھے یہ خوشی ہے کہ اس کے کمالات کو لوگوں نے گہرائی میں جا کر اپریشیئٹ کیا ہے۔ بہت دور تک اس کی گونج سنی گئی اور بجا طور پر سنی گئی." ان کی یہ غزل جو زبان زد عام ہے، آپ اس کے مختلف اشعار کو اپنے سماجی حالات ،ماحول اور سیاسی منظر نامے سے نتھی کر کے پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو ان کی آفاقیت و جامعیت ادب کی کس معراج کو چھو رہی ہے۔

اُگتے ہوئے نہ روند ، لگے مت خراب کر
تو زرد ہے تو سب کے ہَرے مت خراب کر
اپنی کڑی سے کاٹ خرابی کا سلسلہ
پہلے ہوئے نبیڑ ، نئے مت خراب کر
جو جس مقام پر ہے اُسے بے سبب نہ چھیڑ
بکھرے ہوئے سمیٹ ، پڑے مت خراب کر
بے لمس پھلتے پھولتے خود رَو کو مت اکھیڑ
جو بات خود بخود ہی بنے مت خراب کر

اور اب اسی غزل کے ان اشعار کی گہرائی و گیرائی کو سمجھیے

چھونے کے بھی اصول ہیں ، ہر شاخ کو نہ چھُو
چھدرے تو منتظر ہیں ، گھنے مت خراب کر
جو فطرتاً خراب ہیں ان کا تو حل نہیں
جو ٹھیک مل گئے ہیں تجھے مت خراب کر
تیرے خراب کردہ بہت ہیں دلِ خراب
اتنا بھلا تو کر کہ بھلے مت خراب کر
اب سلوٹوں سمیت پہن یا سمیٹ دے
تجھ سے کہا بھی تھا کہ مجھے مت خراب کر

اور اب یہ پڑھیں

اتنا نہ کر دراز خرابی کا سلسلہ
اک شے کو دوسری کے لیے مت خراب کر
وہ خود خراب کرنے پہ کرتا ہے مشتعل
جو روز بار بار کہے مت خراب کر

آپ انھیں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ روایتی غزل کے دائروں کو توڑ کر غزل لکھتی ہیں، اب چاہے موضوعات کتنے ہی روایتی کیوں نہ ہوں، ان کا بیان،اسلوب ایسا اچھوتا ،غیر روایتی اور جدت سے بھرپور ہوتا ہے کہ قاری چونک جاتا ہے.

مسئلہ کیا ہوا مولا کہ ہنرکار ترے
آج کل میرے لیے نیند بناتے ہی نہیں
کوئی سوتی ہوئی آنکھوں سے نہ لے جائے تجھے
ہم زمانے کو ترا خواب دکھاتے ہی نہیں

وہ شاعری کا ایسا روشن باب ہیں جن کے ذکر کے بغیر ادب کی تاریخ لکھنی ممکن ہی نہیں۔

میرا وعدہ ہے کہ بنجر نہیں ہونے دوں گی
اپنی مٹی میں میرا پاؤں گڑا رہنے دے
میں تیرے گھر میں لگایا گیا پتھر ٹھہری
اب مجھے طاق زیاں میں ہی جڑا رہنے دے

(حمیدہ شاہین کے اعزاز میں یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے زیرِ اہتمام منائی گئی ایک شام میں پڑھا گیا مضمون)

Comments

Avatar photo

رقیہ اکبر چوہدری

رقیہ اکبر چوہدری شاعرہ اور کالم نویس ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز بچوں کی کہانیوں سے کیا۔ پھول، پیغام اور بچوں کے دیگر کئی رسالوں اور اخبارات میں کہانیاں شائع ہوئیں۔ نوائے وقت، تکبیر، زندگی، ایشیا، ہم قدم اور پکار کے لیے مضامین لکھے۔"نکتہ داں کے قلم سے" کے عنوان سے کالم کئی برس تک پکار کی زینت بنا۔ معاشرتی اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے حقوق ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ادبی رسائل میں شاعری اور تنقیدی مضامین تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ دو کتابیں زیر طبع ہیں

Click here to post a comment