ہوم << بھاگو اللہ کی طرف - محمد اکبر

بھاگو اللہ کی طرف - محمد اکبر

بات کڑوی ہے لیکن سچ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک دوڑ کے مقابلے میں ہے، کسی نشان کو منزل بنائے بغیر سب بھاگ رہے ہیں اور اس بھاگ دوڑ میں ٹانگیں جواب دے رہی ہیں، ذہن اکتا چکے ہیں، دل اداس ہیں اور روح کی بہاریں جا چکی ہیں۔ سانس چڑھا ہوا ہے، گلا خشک ہو رہا ہے، پاؤں میں درد ہے، دائیں بائیں دیکھ نہیں پا رہے کیونکہ اگر ذرا بھی رُکتے ہیں تو زمانہ بہت آگے چلا جائے گا، اگر اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں تو دنیا کی ریس ہار جائیں گے ، اس لیے کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ رُک جائے ، ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر ، کمر جھکا کر تھوڑا سا سانس لے ، پسینہ صاف کرے، ٹھنڈے پانی کا گھونٹ پیے ، کسی سایے والے جگہ کی طرف چلا جائے، سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر لیٹ جائے ، تھوڑا ریسٹ کرے اور ٹھنڈی ہوا کو پھیپھڑوں میں اتارے۔ یہ سب کرنے کےلیے وقت نہیں ہے کیونکہ اگر یہ کام کرنے لگ گئے تو دنیا بہت آگے چلی جائے گی اور ہم پیچھے رہ جائیں گے۔

انسان جب بھی اپنے مقصد سے غافل ہوتا ہے تو اس کا چہرہ مرجھا جاتا ہے، بدن تھکاوٹ سے چور ہو جاتا ہے،دل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں، صحیح راستوں کے بارے میں کنفویژن پیدا ہو جاتی ہے، آنکھوں میں ہر وقت کسی نہ کسی چیز کی طلب دکھائی دیتی ہے، زبان پر شکوے ہوتے ہیں، عقل حال و مستقبل کی فکروں میں جکڑ جاتی ہے، دل مقابلہ بازی اور بے مقصدیت کی سزا بھگت رہا ہوتا ہے اور روح انتہائی بوجھل ہو جاتی ہے۔

آج کا انسان زندگی کے اسی فیز سے گزر رہا ہے۔ کیونکہ اس کی اپنی کوئی ترجیح ہے نہ کوئی مقصد، کوئی فکر ہے نہ کوئی ہدف۔ بس قرآن کے الفاظ میں یُؤْفَكُوْنَ یعنی الٹے گھمائے جا رہے ہیں۔ آنکھوں سے حقائق کو چھپایا گیا ہے، منصوعی دنیا کو حقیقی بتا کر پیش کیا جا رہا ہے، دھوکے کو سچائی کا لباس پہنا دیا گیا ہے، خواہشات کو ضرورت اور گناہ کو آزادی کا نام دے دیا گیا، روشنی کو اندھیرا اور اندھیرے کو روشنی سمجھا جا رہا ہے، جو خسارے میں ہیں، انہیں لگتا ہے کہ وہ کامیاب ہیں، جو خواہشات کے غلام ہیں، انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم واشنگ مشین میں ہے جس کا بٹن کوئی اور دبا رہا ہے جب کہ ہم اسی چھوٹی سی دنیا میں گھوم گھوم کر اپنا دماغ خراب کر رہے ہیں کہ صبح بھی پیسہ شام بھی پیسہ، صبح بھی شہرت شام بھی شہرت، صبح بھی دوسروں سے آگے نکلنے کی دُھن اور شام بھی یہی دُھن۔

سچ پوچھیں تو اس وقت ہم دنیا کی دوڑ میں اندھے ہو چکے ہیں، اپنی صلاحیتوں کے خلاف کام کر رہے ہیں، ہماری آنکھیں پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہیں کہ مجھے اسکرین سے کچھ دیر فرصت دو لیکن ہم ان پر جبر کر کے انہیں غیر ضروری چیزیں دکھاتے ہیں، ہمارا "مقصد" پکار پکار کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ جو ویڈیو تم دیکھ رہے ہو، اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، جو انفارمیشن تم لے رہے ہو اس سے میرا کوئی علاقہ نہیں، جس بحث میں تم پڑے ہو اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ، جتنا وقت تم سوشل میڈیا پر خرچ کر رہے ہو، اس وقت سے مجھے کچھ فائدہ نہیں لیکن ہم اپنے مقصد کی گردن پر پاؤں رکھ کر اسے کہتے ہیں: چپ کر ، مجھے اس میں مزہ آ رہا ہے، میں زمانے سے واقف ہو رہا ہوں، میرا کاروبار، میری عزت اور میری کامیابی سوشل میڈیا سے جڑی ہے۔

اگر میں یہاں اس تھڑے (یعنی فیس بک) پر نہیں بیٹھوں گا تو مجھے پہچانے گا کون؟ اگر کوئی پہچانے گا نہیں تو میری واہ واہ کیسے ہوگی؟ اگر کوئی میری تصویر نہیں دیکھے گا، کسی بڑی شخصیت سے میرے تعلق کو نہیں جانے گا، میرے کاموں سے واقف نہیں ہوگا، میری پرسنلیٹی سے شناسا نہیں ہوگا تو مجھے عزت کیسے دے گا۔

ہم اپنے مقصد اور ضمیر کی آواز کو یہ تاویلیں سنا سنا کر چپ کرا دیتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ نہ ہم کوئی پروڈکٹو کام کر پا رہے ہیں، نہ آگے بڑھ رہے ہیں، نہ کسی کی حقیقی زندگی میں بدلاؤ لا رہے ہیں، نہ ہمارا تزکیہ ہو رہا ہے اور نہ ہی ہم اپنے ملک و معاشرے کےلیے کچھ کنٹری بیوٹ کر پا رہے ہیں۔

ان سب خرافات کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری روح تھک ہار کر آخری سانسیں لے رہی ہے اور رو رو کر منتیں کر رہی ہے کہ مجھے اللہ کی طرف دوڑاؤ۔ مجھے ان مادی چیزوں کے ساتھ نہ جوڑو۔ میری غذا ربِ محبت کے ساتھ جڑی ہے کیونکہ مجھے رب محبت نے تمہارے اندر پھونکا ہے، میں رب ہی کی روح ہوں ، اگر مجھے رب سے جدا کر دو گے تو میں ٹوٹ کر بکھر جاؤں گی، کرچیاں بن کر برباد ہو جاؤں گی، سوکھ کر ریزہ ریزہ ہو جاؤں گی۔ مجھے بس ایک ہی طرف بھاگنا ہے اور وہ ہے اللہ۔

یہ مت سوچو کہ میں تھک کر گر رہی ہوں، میرا انگ انگ زخمی ہے، میری ہر رگ سے خون بہہ رہا ہے، میری آواز بیٹھ چکی ہے، گلا رندھ گیا ہے تو میں کیسے بھاگوں گی؟ تم بس دنیا کی دوڑ کے بالکل مخالف اللہ کی طرف بھاگو، میں فورا کھڑی ہو جاؤں گی، تیرے لگائے گئے زخموں کے ساتھ ہی دوڑ پڑوں گی کیونکہ جب میں اپنے رب کا نام سنتی ہوں تو مجھے زندگی مل جاتی ہے، مجھے ہمت اور حوصلہ مل جاتا ہے، میں طاقت میں آ جاتی ہیں، میرے وجود کا ہر ذرہ جاگ اٹھتا ہے اور میں کشاں کشاں اپنے رب کی طرف کھنچی چلی جاتی ہوں۔

جب ہم اللہ کی طرف بھاگتے ہیں تو چہرے پر رونق اور طبیعت میں بشاشت آ جاتی ہے۔ آنکھوں میں نور اور دل میں سرور آ جاتا ہے، خیالات میں پاکیزگی اور زندگی میں برکت آ جاتی ہے، ہر سانس میں امید اور ہر لمحے میں یقین کی کیفیت حاصل ہو جاتی ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ہم اللہ کی طرف بھاگ رہے ہوتے ہیں تو یہ بھاگنا ہی ہماری منزل ہوتا ہے ۔ بس جو بھاگ پڑا، اس نے منزل پا لی۔

قدم ہیں راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا

فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ پس اللہ کی طرف بھاگو۔ (سورت ذاریات: 50)

Comments

Avatar photo

محمد اکبر

محمد اکبر دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ قرآن فہمی ان کی پہچان ہے۔ قرآنی اسباق کو نئے اسلوب کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی تصانیف آؤ! رب سے باتیں کریں اور اللہ ہے نا، امید کا راستہ دکھاتی ہیں، شخصیت کی بہترین تعمیر کرتی ہیں۔ جامعہ امدادیہ فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعۃ الشیخ یحیی المدنی کراچی میں تخصص کے طالب علم ہیں

Click here to post a comment