ہوم << فراڈ کمپنیوں میں مولاناحضرات کی بطور شو پیس خدمات- حامد حسن

فراڈ کمپنیوں میں مولاناحضرات کی بطور شو پیس خدمات- حامد حسن

آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹائنز وغیرہ جیسی فراڈ کمپنیوں کے پاس ہر آفس میں دو چار داڑھیوں والے مولانا ٹائپ حضرات کو بطور شوپیس یا بطور حجت رکھا ہوتا ہے۔ پراپرٹی، انشورنس کمپنیاں، ٹریولنگ ایجنسیاں، پونزی سکیم اور ایم ایل ایم کمپنیاں خصوصی طور دیندار لوگوں کو باریش نوجوانوں اور علماء حضرات کو جگہ اور اہمیت اپنے مفاد اور بزنس کو چمکانے کے لیے دیتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں جس کام اور جس بزنس میں، جس ٹرینڈ میں بھی مذہبی ٹچ شامل ہوجائے، جس کام اور جس بزنس میں مذہب بطور ایڈورٹائزمنٹ استعمال ہو وہ کام بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور وہ چیز بہت جلدی بکتی ہے۔ مثلاً شہد کا کاروبار ہے اس میں اگر مذہبی ٹچ کی آمیزش کریں برینڈ کا نام مکہ، مدینہ رکھیں ساتھ میں شہد پر دو چار احادیث لکھیں اور اگر شہدکے نام پر چینی اور گڑ کا شیرہ بھی بیچیں گے تو وہ ضرور بکے گا اور خوب بکے گا.

علماء حضرات کو بطور ایڈورٹائزمنٹ سیلبرٹی بنانے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اعتماد کریں اور بزنس میں ترقی ہو ساتھ میں بطور حجت دکھانا بھی پڑتا ہے کہ دیکھو ہمارے کام میں علماء بھی موجود ہیں اگر یہ کام ناجائز ہوتا یا اگر کوئی شکوک و شبہات ہوتے تو علمائے کرام اور دیندار لوگ کیوں شامل ہوتے. ایک بات یہ بھی ہے کہ بہ نسبت پروفیشنل سٹارز اور ایڈورٹائزرز کے علماء حضرات زیادہ محنت کرتے ہیں اپنے وعظ و نصیحت، اپنی قلم و زبان سے زیادہ اچھے طریقے سے قائل کر لیتے ہیں اور دوسروں کی بہ نسبت کم معاوضے پر سستے بھی پڑتے ہیں کام کروانے والوں کے بھی ذہن میں ہوتا ہے کہ معاوضہ بھی کم لے لیتے ہیں لیکن کام بڑا زبردست کرتے ہیں۔

آج کل چونکہ پاکستان میں سب سے زیادہ پراپرٹی کا چرچہ ہے اس کے علاوہ تکافل اور ایم ایل ایم پونزی سکیموں کا بھی خوب تڑکا ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال، معاشی بدحالی، بیروزگاری اور پریشانیوں میں جہاں دیگر لوگ متاثر ہیں وہیں خصوصی طور پر علمائے وغیرہ لوگ زیادہ متاثر ہیں، لہذا کام کی تلاش میں، کچھ کمانے کے چکروں میں ان لوگوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں خاص کر پراپرٹی، تکافل وغیرہ کے کام آسان لگتے ہیں کہ بس آفس میں کرسی پر بیٹھنا ہے آنے جانے والوں کو قائل کرنا ہے۔ پراپرٹی کے کام میں معلوم نہیں ہوتا کہ حقائق کیا ہیں، در پردہ کیا کیا فراڈ اور معاملات چل رہے ہیں، زمین کے کیا کچھ تنازعے چل رہے ہیں، فائلوں کی مد میں کس طرح کھچڑی پکائی جا رہی ہے، انعامی سکیموں اور سلیبرٹیز کو اپنے پروجیکٹس کی ایڈورٹائزمنٹ کی زینت بنا کر کس طرح گھیراؤ کیا جا رہا ہے۔ خاص کر کچھ وقت سے جب پاکستان میں پراپرٹی کے حالات اچھے نہیں ہیں معاشی طور پر جہاں دیگر کاروبار متاثر ہیں وہیں سب سے زیادہ پراپرٹی کا کام زبوں حالی کا شکار ہے ایسے وقت میں اپنے قلم سے زبان سے یا ذاتی اعتماد کے بھروسے پر گاہک لانا بڑی غنیمت ہے اور ایسے وقت میں پروجیکٹ چلانا اور دو پیسے کمانے کے چکر میں کسی کا بھی کندھا میسر ہو جائے تو وارے نیارے ہیں۔۔۔

علمائے کرام! جو بھی کام کرنا ہے، معاش و روزگار کے لئے کچھ تو کرنا ہے لیکن اس سے پہلے اپنی عزت و وقار کو ملحوظِ خاطر ضرور رکھنا ہے۔ خاص کر تکافل، انشورنس کے کام میں بطور کمیشن ایجنٹ کام کرنے کے سے پہلے یہ ذہن میں رکھیں کہ اس طرح کے کاموں میں اکثر اپنی عزت و قار کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ اسی طرح پراپرٹی یا ایم ایل ایم کمپنیوں میں اپنے کمیشن کے لئے کلائنٹ گھیر کر لانے کے لئے اپنا شخصی اعتماد اور بھروسہ گروی رکھنا پڑتا ہے اور دنیا کی سب سے قیمتی متاع انسان کی شخصی ضمانت ہوتی ہے۔ کیونکہ ان معاملات میں سب سے پہلے اپنے ہم کلاس ساتھیوں اور قریبی دوست احباب سے کام شروع کیا جاتا ہے انھی کو مطمئن کیا جاتا ہے مثال کے طور پر تکافل کے کام میں سب سے پہلے اپنے قریبی دوستوں کو قائل کیا جاتا ہے، ان کو پلان بیچا جاتا ہے اور ہر طرح سے شخصی ضمانت و اعتماد دلایا جاتا ہے۔ نتیجتاً کیا ہوتا ہے کہ بعد میں جب معاملات کھلتے ہیں، اس کام کی مزید تفصیل سامنے آتی ہے تو پھر دوریاں بڑھتی ہیں، اختلافات جنم لیتے ہیں اور پھر دل میلے ہوکر بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں کہ اپنے کمیشن کے لیے مجھے بلی کا بکرا بنایا ، اپنے مفاد کے لیے میرا گلا کاٹا اور پھر یہاں سے عزت و وقار کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں، کیوںکہ اگلے نے معلوم نہیں کتنی مشکل سے اعتماد کر کے سبز باغ دیکھ کر حامی بھری ہوگی۔

ایسے بہت سے لوگ آپ کو ملیں گے جن کی کاروبار یا اس طرح کے معاملات کی وجہ سے بچپن کی دوستیاں ختم ہوگئی گہرے، مضبوط تعلقات ٹوٹ گئے اور باہمی نفرتیں اور دوریاں بڑھیں وجہ اگر دیکھیں تو بنیادی پر کسی ایک فریق کی طرف سے اپنے مفاد یا اپنی خواہش کی تکمیل پر سالوں کے تعلقات، قربتیں اور دوستی مفاد کی بھینٹ چڑھی ہوگی اور جو عزت و وقار ایک بار مفاد کی بھینٹ چڑھ جائے وہ مر کر بھی بحال نہیں ہوپاتا۔

اس لئے علمائے کرام سے خصوصی گزارش ہے کہ جو بھی کام کریں اس سے پہلے اپنے مرتبے، اپنی عزت و وقار اور اپنی پوزیشن کا ضرور خیال رکھیں. ایسے کسی کام یا روزگار کے لئے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اس فیلڈ کو بھرپور طریقے سے سمجھیں اس کے جائز ناجائز مثبت منفی پہلوؤں کو سمجھیں اس کام کی گہرائی سے تحقیق کریں اور پھر شروع کریں۔ خصوصی طور تکافل، پراپرٹی اور کسی کمپنی میں بطور کمیشن ایجنٹ کا کام کرنے سے قبل اچھی طرح چھان بین کر کے ہی شروع کریں کیوں کہ بصورتِ دیگر اکثر ایسے معاملات کی خرابی اور نقصان کی وجہ سے عمر بھر کی نیک نامی، نیک شہرت اور عزت و وقار سب کچھ ملیا میٹ ہوجاتا ہے۔