ہوم << کیا ترکیہ کا کرد ایشو ختم ہو گیا؟ افتخار گیلانی

کیا ترکیہ کا کرد ایشو ختم ہو گیا؟ افتخار گیلانی

دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد دنیا میں مختلف ممالک کے درمیان کم و بیش پچاس جنگیں لڑی گئی ہیں۔ مگر غزہ کی حال کی جنگ جس میں فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس اور اسرائیل برسرپیکار تھے، شاید ایسی پہلی جنگ ہوگی، جس نے اتنے کم وقت میں پورے خطے پر نقوش ثبت کیے۔

سویت یونین کی افغانستان جنگ نے بھی دنیا کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ کمیونزم کے زوال کے ساتھ یہ جنگ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کی آزادی کا باعث بنی، مگر یہ ایک دہائی تک جاری رہی۔ لگتا ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ صرف ایک اور فوجی کارروائی نہیں بلکہ یہ ایک جغرافیائی سیاسی زلزلہ تھا۔ اسرائیل کی ناقابل تسخیریت کو توڑ کر اسے دوبارہ امریکہ پر انحصار کرنے پر مجبور کرنے کے علاوہ اس نے شام میں اسد حکومت کا خاتمہ کردیا، لبنان میں سیاسی طاقت کے ڈھانچے کو از سر نو تشکیل دیا، خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو کم کردیا، ابراہیمی معاہدہ کے ذریعے عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کے عمل کو سبو تاژ کردیا۔ مگر سب سے زیادہ یہ غیر متوقع طور پر ترکیہ کے لیے ایک وردان ثابت ہوگئی۔ شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے بعد شام کی سرحد کی سیکورٹی کا معاملہ اور شامی پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل، ترکیہ کے لیے کسی نعمت سے تو کم نہیں تھا کہ ابھی مشرقی ترکیہ میں برسرپیکار کرد جنگجو گروپ کردستان ورکرز پارٹی یعنی پی کے کے نے ہتھیار ڈالنے اور عسکری ونگ کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی کے ساتھ یکم مارچ سے اس نے سیز فائر کا اعلان کرکے چالیس سالہ پرانی عسکری تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرکے پوری دنیا کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیا۔

پچھلی دو دہائیوں سے ترک جیل میں قید پی کے کے کے بانی، چیف کمانڈر اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی کرد تحریک کے نظریاتی رہنما عبداللہ اوجلان کی طرف سے جب یہ بیان آیا تو کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ یہ معلوم تھا کہ پچھلے کئی ماہ سے ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اپنی حلیف ترک قوم پرست پارٹی ایم ایچ پی کے سربراہ دولیت باہاچلی کو کرد لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے لیے ثالث مقرر کر دیا ہے۔ اکا دکا خبروں سے پتہ چل رہا تھا کہ باہا چلی نے چند ہفتہ قبل کئی بار جیل میں اوجلان سے ملاقات کی ہے۔ چونکہ ترک قوم پرست ہی کردوں کے ساتھ کسی بھی مفاہمت کے شدید مخالف تھے، ایردوان نے سیاسی چال کھیلتے ہوئے باہاچلی کو ہی مذاکرات کار مقر ر کردیا تھا۔ اس معاہدے کا اعلان پہلے باہاچلی نے ہی کیا اور اس کے بعد جیل سے اوجلان کا ایک بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا، جس کی کردوں کی سیاسی پارٹی پیلپز ایکولٹی اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی یعنی ڈیم پارٹی کے توثیق کی۔اوجلان نے کہا؛ میں ہتھیار ڈالنے کی اپیل کر رہا ہوں اور اس تاریخی ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر لے رہا ہوں،تمام گروہوں کو اپنے ہتھیار ڈال دینے چاہییں، اور پی کے کے کو ایک کانگریس بلا کر خود اب کو تحلیل کر لینا چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ 75 سالہ باغی رہنما نے شمال مشرقی شام میں کردوں کی زیر قیادت انتظامیہ کا کوئی ذکر نہیں کیا، جو فی الحال دمشق کی نئی حکومت اور ترکیہ کی افواج کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ شامی کردوں میں بھی اوجلان کو نظریاتی رہنما سمجھا جاتا ہے۔ کردوں کے پاس شام کا 30 فیصد علاقہ ہے، جہاں ان کی خود مختار حکومت ہے۔ ترکیہ اس انتظامیہ کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ کردوں کی زیر قیادت شامی جمہوری افواج (ایس ڈی ایف) کے سربراہ مظلوم کوبانی، جو داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی ہیں، نے واضح کیا کہ اوجلان کا پیغام ان کی تنظیم کے لیے نہیں تھا۔ ”یہ صرف ترکیہ میں برسرپیکار پی کے کے، کے لیے ہے، شام کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔“ مگر یہ اظہر من الشمس ہے کہ حالیہ عرصے میں شا م میں کردوں کی حمایت سے امریکہ اور یورپ کی سرد مہری برتناہی پی کے کے، کے لیے امن مساعی میں شامل ہونے کا باعث بنا۔

جب اوجلان کا پیغام ٹی وی پر نشر ہو رہا تھا، ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ کے سٹی سینٹر کزلائے میں ایک جشن جیسا ماحول تھا۔ دو سال قبل اس علاقے سے بس چند میٹر کے فاصلے پر کرد عسکری گروپ نے خود کش حملہ کیا تھا، جس میں بتایا جاتا ہے کہ ایک خاتون بھی شامل تھی۔ پچھلے سال دارالحکومت سے متصل ترکیہ ایر فورس سے تعلق رکھنے والے ایک کمپلکس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ 2015 اور 2016 میں یہ علاقہ اکثر کرد عسکری گروپوں کے حملوں کا نشانہ بنتا رہا۔ ایک بار تو کار بم بلاسٹ میں اس چوک میں تیس سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1980 کی دہائی سے لے کر اب تک کرد عسکری گروپوں کے متشدد حملوں میں 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک بڑی اسکرین پر اوجلان کی ایک تصویر دکھائی جارہی تھی، جس میں وہ کرد ڈیم پارٹی کے ان قانون سازوں کے ساتھ نظر آرہے تھے جو اسی دن ان سے جیل میں ملاقات کر کے آئے تھے۔ وہ گہرے نیلے رنگ کے کوٹ اور سرخی مائل قمیص میں ضعیف اور کمزور دکھائی دے رہے تھے۔

اپنے 1999 کے مقدمے کی یاد دلاتے ہوئے، جس میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، اوجلان نے یاد دلایا کہ پی کے کے کے وجود کے لیے جو حالات درکار تھے، وہ 1990 کی دہائی میں کمیونسٹ تحریک کے زوال کے بعد باقی نہیں رہے، اور اس تنظیم کی بنیاد کا جواز کمزور پڑ چکا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی جنگ ترکیہ میں کرد شناخت کو منوانے کی تھی، جو اب تسلیم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ کرد قوم پرست خیالات کا اظہار کرنے یا کرد علامات پہننے پر اب بھی بڑی تعداد میں افراد کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں، مگر آزادی اظہار میں اب خاصی بہتری آئی ہے۔ اوجلان نے واضح طور پر کہا کہ علیحدہ قومی ریاست، وفاق، انتظامی خودمختاری یا ثقافتی حل کوئی مستقل حل نہیں ہیں۔ ”سیاسی نظام کی تلاش اور تشکیل میں جمہوریت کے سوا کوئی متبادل نہیں، اور جمہوری مفاہمت ہی واحد راستہ ہے۔“ اوجلان نے ترکوں اور کردوں کے برادرانہ رشتے پر بھی زور دیا، جو استعماری طاقتوں کو زیر کرنے کے لیےناگزیر ہے۔ انہوں نے صدر رجب طیب اردگان اور ان کے قوم پرست اتحادی دولیت باہاچیلی کو موجودہ مذاکرات کے لیے حالات سازگار بنانے کا کریڈٹ بھی دیا۔ اکتوبر 2024 میں، باہا چیلی نے پی کے کے اور حکومت کے درمیان خفیہ مذاکرات کے اشارے دیے تھے۔ پارلیامنٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اوجلان سے براہ راست اپیل کی تھی کہ ان کو پی کے کے کے عسکریوں کو ہتھیار ڈالنے کی اپیل کرنی چاہیے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق شاید جلد ہی ایردوان کردوں کے تعلق سے کوئی بڑا اعلان کرنے والے ہیں۔ وہ اپنی عہدہ صدارت کے ختم ہونے سے قبل دو اہم کارنامے انجام دینا چاہتے ہیں، جن سے ان کا نام ترک تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امرہو جائےگا۔ ان میں سے ایک کرد ایشو کو ایڈریس کرکے ترکیہ کے لیے اس قضیہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا اور پھر آرمینیا کے راستے نخچیوان کوریڈور پر کوئی سمجھوتہ کرکے ترکیہ کو باقی ترک دنیا سے منسلک کرنا شامل ہے۔

عرب دنیا کی طرف اگر دیکھا جائے تو فلسطین کے بغیر باقی عرب ممالک آزاد ہیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ترک دنیا منسلک نہیں ہے۔ ترک ممالک میں ترکیہ، آذربائیجان اور چار وسط ایشیائی جمہوریوں ازبکستان، ترکمانستان، قزاقستان، کرغیزستان کے بغیر باقی سبھی مقبوضہ ہیں، جن میں روس کے تحت بشخورستان، تاتارستان، چیچنیا، داغستان، انگوشتیہ، تووا، چینی ترکستان یعنی سنکیانگ کے علاوہ، تین اور ترک اکثریتی علاقے چین کے قبضے میں ہیں۔ چینی ترکستان تو جموں و کشمیر کے سابق ریاست کی سرحد سے منسلک ہے۔ ان علاقوں کو ترک ثقافت کے ساتھ جوڑنا اور ان کی سرپرستی کرنا ایردوان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ یہ تمام عوامل واضح کرتے ہیں کہ ایردوان پی کے کے کے خاتمے کو صرف ایک سیکیورٹی فتح کے طور پر نہیں، بلکہ 2028 کے بعد بھی اپنے اقتدار کو یقینی بنانے کے لیے ایک ممکنہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
خیر اوجلان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے اعلان کے بعد ابھی تک یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ کرد لیڈر نے بغیر کچھ حاصل کیے اتنی بڑی قربانی کیوں دے دی؟

ترکیہ کے کرد اکثریتی شمال مشرقی شہر دیار بکر کے ایک مقامی صحافی سلیم کُرت نے بتایا کہ ان علاقوں میں بیشتر افراد یہی سوال کر رہے ہیں، جس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ واضح نہیں کہ حکومت نے اوجلان کے اس اعلان کے بدلے میں کیا پیشکش کی ہے، کیونکہ مذاکرات خفیہ رکھے گئے تھے۔ ڈیم پارٹی کے رکنِ پارلیمان سرّی سریّا اوندر نے کہا کہ اب آئندہ کے اقدامات انقرہ کو کرنے ہیں۔ کردوں کو جمہوری عمل اور نظام کا حصہ بنانے کی پوری ذمہ داری اب ایردوان پر عائد ہوتی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، اوجلان کو قید میں بہتر سہولتوں کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور کئی کرد سیاسی قیدیوں، خصوصاً ترکیہ کے مقبول ترین کرد سیاستدان، صلاح الدین دمیرتاش، کی رہائی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ تشدد میں ملوث نہ ہونے والے پی کے کے جنگجوؤں کے لیے عام معافی پر بھی غور ہو رہا ہے، جبکہ عراق میں کردستان کی علاقائی حکومت (کے آر جی) نے پی کے کے کے سینیئر رہنماؤں کو پناہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پی کے کے 2017 میں عراقی کردستان کے سلیمانی صوبے سے اغوا کیے گئے ترکی کی قومی انٹلی جنس ایجنسی (ایم آئی ٹی) کے دو سینئر اہلکاروں کو رہا کر سکتا ہے۔

تاہم، ماضی کے تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پائیدار امن کا راستہ ہمیشہ مشکلات اور رکاوٹوں سے پُر رہا ہے۔ایردوان کے ترک قوم پرست مخالفین نے اوجلان کے اعلان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی ظفر (فتح) پارٹی کے نائب صدر علی شہراولو نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وہ اس پراسرار عمل کو پلٹ کر رکھ دیں گے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ترکیہ کے حصے بخرے کرنے کی سودا بازی ہو گئی ہے۔ ایک اور قوم پرست پارٹی کے رہنما موسیٰوت درویش اولو نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا، ”ہم ترک جمہوریہ کو کسی صورت ٹوٹنے نہیں دیں گے! ہم اپنی سرزمین کو تقسیم ہونے نہیں دیں گے، جس کو مصطفیٰ کمال اتا ترک نے تشکیل دیا ہے۔مگر سب سے بڑی اپوزیشن جماعت، جمہوریت پسند عوامی پارٹی (سی ایچ پی)، جسے حالیہ انتخابات میں کردوں کی حمایت حاصل رہی، نے اوجلان کے اعلان کی تائید کی اور حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔

اوجلان کے زیرِ قیادت شروع کی گئی مسلح جدوجہد جب 1984 میں شروع کی گئی تھی، تو اس کا ابتدائی مقصد ترکی، ایران، عراق اور شام سے ایک آزاد کرد ریاست کا قیام تھا۔ کرد قوم، جو 50 ملین سے زائد افراد پر مشتمل ہے، ایک ایسا نسلی گروہ ہے جن کی اپنی کوئی ریاست نہیں ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق ترکوں کے برعکس کرد مشرق وسطیٰ کے مقامی لوگ ہیں۔ ترک وسطی ایشیا اور دیگر خطوں سے ہجرت کر کے اس علاقے میں آبسے ہیں۔ کرد ایک وسیع جغرافیائی علاقے میں آباد ہیں، جن میں ایران، آذربائیجان، آرمینیا، جارجیا، اردن، بلقان اور روس شامل ہیں۔مگر ان کی نمایاں موجودگی ترکیہ،ایران، عراق اور شام میں ہی ہے۔ 1990 کی دہائی تک کرد باغی حکومتوں کے ساتھ مقامی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ عراق میں امریکی مداخلت کے بعد ان کو اس ملک میں ایک خود مختار کرد علاقہ تفویض کیا گیا۔ شام میں بھی امریکہ نے ان کو اسی طرح کا ایک خود مختار علاقہ دے دیا، جس پر اب خطے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔کیونکہ ترکیہ کی حمایت یافتہ نئی شامی حکومت ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہے۔

سال 1948 میں جنوب مشرقی ترکیہ میں پیدا ہونے والے اوجلان نے 1970 کی دہائی میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور پی کے کے کو ایک انقلابی تحریک کے طور پر منظم کیا۔ ابتدا میں، وہ شام میں اسد حکومت کی حمایت سے سرگرم رہے اور سرحد پار سے پی کے کے کی گوریلا کارروائیوں کی قیادت کرتے رہے۔ تاہم، ترکیہ کے سفارتی دباؤ کے نتیجے میں شام نے 1998 میں انہیں ملک بدر کر دیا، جس کے بعد ایک سنسنی خیز بین الاقوامی تعاقب شروع ہوا۔اوجلان نے مختلف ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر آخرکار 1999 میں ترکی کی انٹلی جنس ایجنسی نے مبینہ طور پر سی آئی اے اور موساد کی مدد سے انہیں کینیا میں گرفتار کر لیا۔ تب سے وہ ترکیہ کے امرالی جزیرے کی جیل میں تنہائی کی قید کاٹ رہے ہیں۔

عبداللہ اوجلان کی 1999 میں گرفتاری کے بعد کئی بار امن مذاکرات کی کوششیں ہوئیں، مگر وہ سب ناکام رہیں، جن میں سب سے حالیہ کوشش 2015 میں ختم ہوئی۔ اب حالیہ جنگ بندی کے اعلان نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا اس بار حالات مختلف ہوں گے؟ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے ترک ریسرچ پروگرام کے ڈائریکٹر سونر چاغاپتائے کے مطابق، ترک حکومت کا اس بار پی کے کے سے مذاکرات کا طریقہ کار پچھلی کوششوں سے کافی مختلف رہا۔ ایردوان نے پی کے کے سے بات چیت کے بارے میں معلومات جاری کرنے میں کافی احتیاط برتی۔ مذاکرات کے ہر مرحلے پر خبروں پر پابندی عائد کی۔اوجلان کے متوقع اعلان کے پیچھے کی تفصیلات جان بوجھ کر صیغہ راز میں رکھی گئی ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ پچھلی دو ایسی کوششیں ناکامی کا شکار ہو گئی تھیں، جن کے نتیجے میں تشدد مزید بڑھا اور ایردوان کی مقبولیت کو نقصان پہنچا۔

ویسے حالیہ برسوں میں پی کے کے کی عسکری طاقت کافی حد تک کمزور ہو چکی تھی۔ ترکیہ نے شمالی عراق اور شام میں ڈرون حملوں اور فوجی کارروائیوں کے ذریعے پی کے کے کی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس بڑھتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں پی کے کے کو جنگ بندی پر غور کرنا پڑا ہے، کیونکہ اس کے جنگجو شدید جانی نقصان اٹھا رہے ہیں۔اس جنگ بندی اور پی کے کے کی تحلیل کے خطے پر وسیع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، خاص طور پر شام اور عراق میں۔ مارلو گلوبل کے ریسرچ ڈائریکٹر انتھونی اسکینر کے مطابق، پی کے کے کے ساتھ امن معاہدہ شام کو زیادہ مستحکم بنا سکتا ہے، جو ترک حکومت کے لیے ایک بڑا ہدف ہے۔ترکیہ نے شمالی شام میں فوجی موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے اور باقاعدگی سے کرد جنگجو گروپ وائی پی جی کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے، جو پی کے کے سے منسلک ہے۔ اگر پی کے کے ختم ہو جاتا ہے، تو اس سے ترکیہ اور شامی کرد گروپوں کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، جس سے خطے میں اتحاد سازی اور کشیدگی میں کمی کا امکان ہے۔عراق میں بھی اس جنگ بندی کو مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بغداد حکومت نے اوجلان کے اعلان کو علاقے میں استحکام کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ پی کے کے کی موجودگی طویل عرصے سے ترکیہ اور عراق کے کردستان ریجنل گورنمنٹ (کے آر جی) کے درمیان کشیدگی کا باعث رہی ہے، اور ترکیہ نے اس علاقے میں پی کے کے کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے کے آر جی کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے ہیں۔

اگرچہ اوجلان کا جنگ بندی کا اعلان ایک بڑا قدم ہے، مگر اس راہ میں کئی رکاوٹیں باقی ہیں۔ قندیل پہاڑوں میں پی کے کے، کے کئی عسکری کمانڈر تحریک کے مکمل خاتمے پر آمادہ نہیں ہو سکتے ہیں، اور ممکن ہے کہ کچھ علیحدگی پسند دھڑے بدستور سرگرم رہیں گے۔ اس لیے یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ جنگ بندی واقعی ایک نئے دور کا آغاز کرے گی یا پھر ماضی کی ناکام کوششوں کی طرح کسی نئی شورش کو جنم دے گی۔ فی الحال غزہ کی جنگ کے اثرات نے کردوں کو ایک عملی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے، جس سے ترکیہ کی داخلی اور خارجی سیکورٹی حالات بڑی حد تک محفوظ ہو گئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ اس سیکورٹی کے حصول کو ترکیہ وسیع تر مفادات کو حاصل کرنے اور اس خطے کے باہر اپنے آپ کو ایک اہم طاقت منوانے پر کس طرح استعمال کرتا ہے؟

Comments

افتخار گیلانی

افتخار گیلانی برصغیر کے معروف صحافی ہیں۔ سیاست اور خارجہ پالیسی جیسے موضوعات کی رپورٹنگ کرنے کا تین دہائیوں کا تجربہ ہے۔ ہندوستان کے بہت سے صحافتی اداروں میں ادارتی ذمہ داریوں کے علاوہ ترکی کی نیوزایجنسی انادولو اور جرمن ادارے ڈوئچے ویلے کےلیے کام کر چکے ہیں۔ ان کے کالم پاکستان اور ہندوستان کے کئی اخبارات میں چھپتے ہیں اور بڑے پیمانے پر سراہے جاتے ہیں۔ کئی میڈیا ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ تہاڑ کے شب و روز نامی کتاب کے مصنف ہیں۔

Click here to post a comment