صحرا کے سینے پر، شفاف نیلے آسمان تلے ،دنیا سے الگ تھلگ بستی اس بستی میں، اس دن پہلی اور آخری دفعہ یہ منظر طلوع ہوا اور رہتی دنیا تک کے لئے امر ہوگیا۔ یہ محض ایک منظر نہ تھا، اک معجزہ تھا، عقلیں جس سے دنگ تھیں اور دل جس سے ہیبت زدہ ہو رہے تھے، جو سامنے تھا، ناقابل یقیں تھا، محض دیکھنے والوں کے لئے ہی نہیں، بلکہ ہر زمانے کے لیے جسے حیرت کا ساماں ہو جانا تھا۔
یہ جمعہ کا دن تھا، مدینہ کی سادہ ترین اور مبارک مسجدتھی اور یہ منظر تھا، جسے صحابہ اپنی حیرت زدہ آنکھوں اور عظمت میں ڈوبے دلوں سے دیکھ رہے تھے، تاکہ آئندہ عہدوں کے لئے بیان کر جائیں، تاکہ ہر عہد کے لئے ایمان کا سامان کر جائیں۔ یہ صحابہ کون تھے؟ یہ کائنات کے وہ خوش قسمت ترین لوگ تھے کہ جن کی نگاہوں کو کائنات کے سب سے پرجمال ، سب سے حسین اور سب سے حیران کن چہرے کو دیکھنا نصیب ہوتا تھا، وہ چہرہ کہ جس کے تذکرے ہمیشہ سے الہامی کتابوں میں مطالعہ ہوتے آئے تھے اور ہر آئندہ عہد میں جس رخ زیبا کے ہجر میں لاکھوں دلوں نے دھڑکنا تھا اس کی اک دید کو ترسنا تھا، جس کی صفتیں اہل دل کا سرمایہ جاں ہو جانا تھیں اور جس کی نعتیں اہل ایمان کی متاع جان ہونا تھیں۔
یہ جمعہ کا دن تھا، یہ مدینہ تھا اور نبی کی مسجد کا یہ اک انوکھا منظر تھا۔
آج پہلی بار اس مسجد میں وہ منبر رکھا جانا تھا، بعد کے سارے زمانوں میں جسے منبر رسول ہونے کا تقدس حاصل ہونا تھا، یہ منبر ایک انصاری عورت نے اپنے غلام سے بنوایا تھا، یہ جھاؤ کے درخت سے بنا تھا اور اس عورت کے اک بڑھئی غلام نے بنایا تھا،منبر تیار ہوچکا تھا, اسے رسول رحمت کے خطبہ جمعہ کیلئے رکھا جا چکا تھا۔ عین اس جگہ، جہاں پہلے کھجور کا ایک خشک تنا ہوتا تھا، یہ تنا بھی کیا خوش قسمت چوب خشک تھی، کہ رسول اطہر کی پیٹھ کی ٹیک ہوجانا جس کا مقدر ہوا تھا، آج مگر اس چوب خشک کا نصیب گہنا گیا تھا کہ اسے اٹھا کے اس کی جگہ منبر رکھ دیا جانا تھا۔ جونہی اسے اٹھا کے اس کی جگہ سے ، پیغمبر کی پیٹھ ہو جانے سے دورکیا گیا، اور اس کی جگہ منبر رکھ دیا گیا، تب یہ معجزہ تخلیق ہوا،
اس وقت شاید رسول رحمت خطبہ شروع کر چکےتھے یا ابھی آغاز خطبہ کے لئے آمادہ ہورہے تھے کہ یہاں وہ منظر طلوع ہوگیا، وہ منظر، جسے دیکھنے والے تب اور جسے پڑھنے والے اب ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ قیامت تک یہ حیرتیں سفر کرتی رہیں گی، ہوا یہ کہ یہ چوب خشک، یہ خشک تنا، عین اس لمحے سسکنے اور بلکنے لگا، اس بچے کی طرح، جس سے اس کی ماں کی گود چھین لی گئی ہو یا دس ماہ کی گابھن اونٹنی کی طرح، بہرحال یہ تنا روتا اور سسکتا تھا، یہ چوب خشک بن ماں کا اک بچہ ہوگئی تھی، روتی تھی اور کرلاتی تھی، اور صحابہ حیرت سے اسے دیکھتے تھے اور ساری مسجد متعجب ہوتی تھی، یا شائد سارا مدینہ ہی سراپا حیرت ہوتا جاتا تھا ، یہ ایسا ہی اک منظر تھا،زمانہ جسے ذرا سا رک کے اور آسمان جسے ذرا سا جھک کے دیکھتا تھا۔
تب رسول آگے بڑھے، روتے ہوئے اس تنے اور اس چوب خشک کی طرف رسول رحمت کے مبارک قدم بڑھے، اللہ ! یہ رسول بھی کیسے تعلق نبھانے والے تھے، کیسے شفیق اور کتنے رحیم تھے، رحمتہ اللعالمین جو ٹھہرے، پتھروں اور لکڑیوں تک پر رحیم و شفیق، مہرباں اور رحمہ للعالمین ، آپ آگے بڑھے اور آکے اس چوب خشک پر یوں ہاتھ پھیرا جیسے کسی محروم محبت یتیم بچے کے سر پر کوئی مہرباں دست شفقت رکھ دے، جیسے کوئی مسیحا کسی زخمی دل پر محبت کا پھاہا رکھ دے، تب یہاں اک اور کرشمہ طلوع ہوا، جیسے پہلے چوب خشک کا بچے کی طرح بلکنا اور سسکنا یکایک سب کو دنگ کر گیا تھا ، بالکل ویسے ہی دست رحمت للعالمین چھوتے ہی اس کا خاموش ہوجانا بھی سب کو حیران کر گیا۔ تب رسول رحمت نے اس سارے حیران کن معجزہ منظر کے بارے وضاحتی ارشاد فرمایا، فرمایا، اس کا سسکنا اور بلکنا اور اس کا رونا جدائی کی وجہ سے تھا، وہ جدائی جو اسے اللہ کا ذکر سننے سے نصیب ہو رہی تھی۔ یہ ذکر اللہ کا قرآن تھا، نبی کے کنج لب سے پھوٹا ،رب کا قرآن ، کہ قرآن ذکر بھی ہے،
انا نحن نزلنا الزکر وانا لہ لحافظون
یہ ذکر ہم نے اتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
یہ جو آیت ہے، یہ آیت بھی اک معجزہ ہے، اس پر مگر بات پھر کبھی کریں گے۔ آج بس اتنا کہ یہ قرآن ہے، اسے قرآن کہتے ہیں، وہ قرآن کہ جس کی تاثیر چوب خشک میں سسکیاں بھر دیتی ہے۔ جس کی طاقت خشک لکڑی کو صاحب احساس کر دیتی ہے۔ یہ قرآن ہے، جس کے رعب سے پتھر پانی ہو جاتے ہیں اور پتھروں کے سینے سے چشمے بہہ نکلتے ہیں۔
آہ! مگر پتھروں سے سخت یہ انسانی دل کہ جن کی سختی اور سیاہ بختی قرآن کی عظمت سے تہی رہ جاتی ہے۔ سارے دل نہیں کہ بہت سے دل قرآن کے حضور پانی کی مانند بہہ پڑتے ہیں۔ مگر کچھ دل ،سخت اور سنگلاخ دل۔ بے آباد اور برباد دل۔
ایسے دل سے الاماں،
ایسے بدبخت دماغ سے الحفیظ
تبصرہ لکھیے