ہوم << امام ابوحنیفہؒ کی محدثانہ منزلت پر اعتراض کا جائزہ - مولانا وسیم حسن

امام ابوحنیفہؒ کی محدثانہ منزلت پر اعتراض کا جائزہ - مولانا وسیم حسن

کتب حدیث میں ایک روایت مذکور ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:لو أن العلمَ في الثُريا لتناولَه رجلٌ أو رجالٌ من أبناءِ فارسٍ یعنی "اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہو تو فارس کے کچھ اسے وہاں سے بھی لے لیں گے۔"
پس منظر یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور کئی صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے کہ سورہ جمعہ کی آیات نازل ہوئیں، جن میں یہ آیت کریمہ بھی تھی: {وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! وہ کون ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے مذکورہ کلمات حدیث ارشاد فرمائے۔

حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس کا مرجع امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو بتلا کر ان کی کمال فقہی منزلت کو بیان کیا ہے، جس پر دیگر شراح نے بھی اعتماد کیا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کی فقہی قدر و منزلت کا شہرہ تو چہار دانگ عالم میں پھیلا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ فقہ شافعی کے امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے: الناس عيال على أبي حنيفة في الفقه یعنی "لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے محتاج ہیں۔" اسی طرح مشہور مورخ و محدث امام حافظ شمس الدین ذہبی، جو کہ شافعی المسلک تھے، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فقہی مقام کو اپنی کتاب میں یوں بیان کرتے ہیں: الإمامة في الفقه ودقائقه مسلمة إلى هذا الإمام، وهذا أمر لا شك فيه یعنی "اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہ اور اس کی باریکیوں سے واقفیت کے معاملہ میں وہ مسلمہ امام ہیں۔"

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ جس طرح ایک جلیل القدر فقیہ و مجتہد ہیں، اسی طرح عالی مقام محدث بھی ہیں، جس کی تائید نقلا محدثین عظام کے ان اقوال سے ہوتی ہے، جس میں انہوں نے امام اعظم رحمہ اللہ کو "حافظ الحدیث" کے لقب سے نوازا ہے۔ منجملہ محمد بن یوسف صالحی شافعی رحمہ اللہ کا قول، جس میں انہوں نے فرمایا: اعلم -رحمك الله تعالى- أن الإمام أبا حنيفة من كبار حفاظ الحديث، ولولا كثرة اعتنائه بالحديث ما تهيأ له استنباط الفقه، فإنه أولُ مَن استنباطه من الأدلة یعنی "جان لو کہ ابو حنیفہ بڑے حفاظ حدیث میں سے ہیں، اگر ان کا حدیث میں اہتمام نہ ہوتا، تو وہ فقہی اجتہاد نہ کر پاتے، حالانکہ وہ دلائل شرعیہ سے استنباط میں سب پر مقدم ہیں۔"

محدثین کی اصطلاح میں "حافظ" کا درجہ محدّث سے بلند ہوتا ہے اور اسے محدثین کے ہر طبقہ کی بابت معلومات غیر معلومات سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اور "حافظ" کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ یہ اس محدث کو کہتے ہیں، جِس کو کم از کم ایک لاکھ احادیث کا پورا علم ہو۔ (علوم الحدیث، ص:۲۲ بحوالہ شرح القاری علی النزھۃ ص۳) اور عقلا بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مقام حدیث کے میدان میں بھی اونچا تھا۔ علامہ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں صحاح ستہ کے ائمہ حدیث کے شیوخ کی تعداد ذکر کی ہے، چنانچہ امام بخاری کے 1080، امام مسلم کے 220، امام ترمذی کے 221، امام نسائی کے 450، اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ جمیعا کے 280 شیوخ ذکر کیے ہیں جن سے انہوں نے احادیث سیکھی ہیں، جبکہ امام ابو عبد اللہ احمد بن ابی حفص الکبیر نے امام اعظم کے شیوخ کی تعداد 4000 بتائی ہے۔ اسی کو محمد بن یوسف صالحی شافعی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب عقود الجمان میں نقل کیا ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ امام اعظم رحمہ اللہ "کثیر الحدیث" بھی تھے، کیونکہ اس زمانے میں شیخ اسی کو کہا جاتا تھا، جس سے احادیث لی جاتی تھیں، ورنہ امام اعظم سے پہلے فقہ کی تعلیم کا باقاعدہ رواج نہ تھا، جیسا کہ اوپر محمد بن یوسف صالحی شافعی رحمہ اللہ کے قول سے ظاہر ہو رہا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ امام صاحب دلائل شرعیہ قرآن و حدیث سے مسائل فقہیہ کا اجتہاد کیا کرتے تھے، اگر کثیر الحدیث نہ ہوتے، تو یہ ممکن نہ ہوتا۔

اگرچہ اس پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کثیر الحدیث ہونے کے باوجود امام اعظم سے مروی روایات کی تعداد بہت زیادہ کیوں نہیں ہے؟ تو اس کا ایک جواب تو محمد بن یوسف صالحی شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب عقود الجمان میں اس طرح دیا ہے: "حضرت امام (ابو حنیفہ رحمہ اللہ) کو احادیث بہت زیادہ یاد ہونے کے باوجود روایتیں آپ کی سند سے بہت کم ہیں، جس کے دو بنیادی اسباب ہیں: اول یہ کہ آپ کا اہم ترین مشغلہ فقہ واجتہاد اور ادلہ شرعیہ سے احکام کا استنباط تھا نہ کہ نقلِ روایت، جس طرح سے جلیل القدر کبار صحابہ احادیث پر عمل اور ان سے احکام کے استنباط سے دلچسپی رکھتے تھے اور انتہائی احتیاط کے باعث حدیثوں کی روایت سے گریز کرتے تھے، چنانچہ ان کی مرویات بہ نسبت دوسرے صحابہ کے کم ہیں، حالانکہ انہیں حدیثوں کا علم کم نہیں ہوتا تھا، دوم یہ کہ خود حضرت امام ابوحنیفہ کے یہاں حدیث بیان کرنے کے لئے شرائط سخت تھے منجملہ شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ کسی شخص کو حدیث بیان کرنے کی اجازت اسی وقت ہوگی جب کہ اس نے سننے کے وقت سے لے کر بیان کرنے کے وقت جوں کا توں محفوظ رکھا ہو۔" (یوسف صالحی دمشقی،عقود الجمان ص:۲۹۴ تحقیق ودراسہ عبد القادر افغانی، رسالۃ ماجستر، جامعہ ام القری، ۱۳۹۹ھ)

کتب حدیث و روایات کے سمندر میں غوطہ لگا کر جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف خوارزمی کی ’’جامع المسانید‘‘ میں امام اعظم کی سند سے مرفوع احادیث کی تعداد نوسو سولہ (۹۱۶) ہے، اور اگر آثار صحابہ کو ملا لیا جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ ہوجاتی ہے، جب کہ امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں: امام مالک کے پاس صحیح احادیث کا جو کچھ سرمایہ ہے، وہ سب موطا میں موجود ہے اور موطا امام مالک کی کل حدیثیں تین سو (یا کچھ کم وبیش) ہیں۔ ( مقدمہ ابن خلدون ۱؍۵۵۶ الفصل السادس فی علوم الحدیث)

اس تحریر میں انتہائی اختصار کے ساتھ سلف کے اقوال کی روشنی میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے محدثانہ مقام کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کے بعد اگر کوئی امام اعظم پر "قلیل الحدیث" یا "یتیم فی الحدیث" کا بے بنیاد الزام لگائے، یا ان کی مرویات کو محدود بتلا کر اس شان چھپانے کی کوشش کرے تو ہم ان کے اعتراضات کا جواب بصیرت کے ساتھ دے سکیں۔