ہوم << سفرنامہ انڈونیشیا - عبدالوہاب

سفرنامہ انڈونیشیا - عبدالوہاب

"کیا کہتی ہے؟" میرے دوست موجی بھائی نے بے صبری سے پوچھا۔
"کہہ رہی ہے کہ آپ کوئی اور ڈھونڈ لیں۔"
"تو یہ بتانے میں اسے 15 منٹ لگ گئے؟" موجی بھائی نے مجھے مشکوک سی نظروں سے دیکھا۔
"نہیں، مجھے یہ "سمجھنے" میں 15 منٹ لگ گئے۔"
"تم تو کہہ رہے تھے کہ تمہیں بہاسہ انڈونیشیا بہت اچھی آتی ہے۔"
"مجھے تو آتی ہے، لیکن اُسے نہیں آتی!!"

یہ انڈونیشیا میں ہمارا تیسرا دن تھا اور ہر گذرتے دن کے ساتھ مزید کوئی نہ کوئی انکشاف ہی ہو رہا تھا۔ سب سے بڑا انکشاف تو یہ تھا کہ جس زبان کو سیکھ کر میں سمجھ بیٹھا تھا کہ اب تو فر فر بہاسہ بولوں گا، جکارتہ میں عوام کی اکثریت نہ اُسے سمجھتی تھی اور نہ ہی بولتی تھی۔ یوں بھی جس قسم کی زبان ہمیں سکھا کر بھیجا گیا تھا، وہ تقریباً ایسے ہی تھا جیسے کسی کو عربی کی پہلی جماعت کی کتاب پڑھا کر آپ کسی ایسے عرب ملک میں کام پر بھیج دیں جہاں کوئی بھی عوامی مقامات پر مقامی لہجے کے علاوہ کچھ نہ بولتا ہو تو بس جو حال اُس کی عربی دانی کا ہو گا وہی ہماری بہاسہ انڈونیشیا کا تھا۔۔۔۔یعنی اُدھر کسی نے پہلا "گلُ لک" کہا، اِدھر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے!! موجی بھائی کا حال مجھ سے بھی برا تھا کیونکہ وہ تو صرف نورانی قاعدہ ہی پڑھا کر بھیج دیئے گئے تھے۔ اُوپر سے ملک بھی ایسا جہاں 25 کروڑ لوگ 3000 سے زائد مقامی زبانیں بولتے ہیں۔ اُن میں سے صرف 20 فی صد بہاسہ انڈونیشیا کو روز مره کے کاموں میں استعمال کرتے ہیں، وہ بھی اپنے اپنے علاقے کے مخصوص لہجے میں!! یوں جکارتہ میں عام لوگوں، بلیو کالر جابز کرنے والے اور گھریلو ملازمین میں سے کوئی بھی کتابی قسم کی بہاسہ بولنے والا بہت مشکل سے ملتا ہے۔ انگریزی میں کچھ پوچھ لیں تو لوگ یوں گھورتے ہیں جیسے آپ ابھی اڑن طشتری سے نکلے ہیں۔ اُس پر موجی بھائی کی ضد کہ جلدی سے کوئی اچھی سے میڈ ڈھونڈ دو!!
" آپ بھی اُلٹے ہی کام کرتے ہیں، ابھی گھر تو ملا نہیں، میڈ کی تلاش پہلے شروع کر دی۔ پہلے آپ کے لیے کوئی گھر تو دیکھ لیں۔"
"بھئی گھر ور بھی دیکھ لیں گے، لیکن سنا ہے انڈونیشیا میں اچھی میڈ مشکل سے ملتی ہے۔ سو پہلے مشکل کام کر لیتے ہیں۔"
"سر اچھی تو دور، جس طرح ہم ڈھونڈ رھے ھیں، بری بھی نہیں ملنی۔ میری مانیں تو آپ بھی پہلے کوئی گھر پکڑ لیں۔"
"بھئی جس سیزیرین طریقے سے تم نے اپنے لیے گھر "پکڑا" ہے، ویسے تو مجھ سے کبھی نہ پکڑا جائے گا۔ میں کسی آسان طریقے سے پکڑوں گا۔" موجی بھائی نے "پکڑا" پر زور دیتے ہوئے کہا۔

میرے گھر "پکڑنے" کی داستان جس کا ذکر موجی بھائی کر رہے تھے، دراصل جکارتہ پہنچنے سے کچھ عرصہ قبل ہی شروع ہو گئی تھی۔ عموماً یہاں آنے والے حضرات شروع میں اکیلے آتے تھے، پھر گھر کا بندوبست کر چکنے کے بعد بیوی بچوں کو بلاتے تھے۔ لیکن مجھے تو کبھی اندرونِ ملک یہ سہولت دستیاب نہ ہوئی تھی تو جکارتہ میں کیسے ہوتی۔ سو روانگی سے دو ہفتے قبل انٹرنیٹ پر اپنے سکول سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک اچھی سی اپارٹمنٹ بلڈنگ دیکھ کر اُس کے مینجر صاحب کو کال کی۔ خوش قسمتی سے وہ میری بہا سہ سمجھ رہے تھے۔۔۔۔
"جی جناب میں آپ کی بلڈنگ میں کوئی سنگل بیڈ یا سٹوڈیو اپارٹمنٹ کرائے پر لینا چاہتا ہوں۔"
"جی مل جائے گا، لیکِن کرایہ ہم ایڈوانس لیتے ہیں۔"
"جی کوئی مسئلہ نہیں آپ ایڈوانس لے لیں۔"
"پھر ہماری طرف سے خوش آمدید، ہمارے ہاں آپ کو بہت سے غیر ملکی مہمان بھی ملیں گے۔ اچھی کمپنی رہے گی۔ ویسے آپ جکارتہ کیوں آ رہے ہیں؟"
"جی میں "مرکز برائے تعلیم و مشقِ بہاسہ" میں پڑھنے آ رہا ہوں۔" (یقین کیجئے مرکز کا نام بہاسہ میں اس سے بھی زیادہ واهیات حد تک گنجلک اور لمبا ہے!)
"تو پھر میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ ہمارے بجائے مرکز کے قریب کوئی اپارٹمنٹ ڈھونڈیں۔ ہماری بلڈنگ تو آپ کو بہت دور پڑے گی۔"
میں نے گوگل میپس پر دوبارہ فاصلہ دیکھ کر کہا،
"لیکن گوگل میپس پر تو مرکز کا آپ سے فاصلہ محض 10 کلو میٹر ہے۔"
"جی جی، وہ تو ہے، لیکن جکارتہ میں فاصلے کلو میٹروں میں نہیں، گھنٹوں میں ناپے جاتے ہیں۔"
"مطلب؟"
'مطلب یہ کہ ہمارے ہاں سے صبح آپ کو مرکز پہنچنے میں کم از کم 2 گھنٹے لگیں گے اور چُھٹی کے بعد واپس آنے میں بھی......2 ہی لگیں گے۔۔۔ویسے زیادہ بھی لگ سکتے ہیں!! آگے آپ کی مرضی۔"

اپارٹمنٹ منیجر کی بات سن کر میرے منہ سے بمشکل "جی اچھا" کی آواز ہی نکلی۔ افسوس تو مجھے ہوا، لیکن ساتھ ہی خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ انڈونیشیا میں بڑے ایمان دار لوگ رہتے ہیں۔ اگر یہ صاحب ایڈوانس کرایہ لے کر میری بکنگ کر لیتے تو بعد میں میرے ساتھ جو بھی ہوتا میں اُن کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ ساتھ ہی اپنی نمل والی اُستانی کی یاد بھی آئی جو بات بات پر ہمیں جکارتہ کے ٹریفک جام کی کہانیاں سناتی رہتی تھیں۔ ہم سمجھتے تھے شاید یوں ہی عادتاً مبالغہ آرائی کرتی ہیں، لیکن اب لگ رہا تھا کہ مسئلہ واقعی کچھ سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
اگلے روز صبح صبح ایک دوست کو کال کی جو ہم سے قبل کبھی جکارتہ گئے تھے۔ میری اپارٹمنٹ والی رام کہانی سن کر بولے

"اُس نے تمہیں بالکل ٹھیک بتایا ہے ، بلکہ اس میں یہ اضافہ بھی کر لو کہ اگر تم مرکز سے اتنا سا بھی دور ہو کہ گاڑی نکالنی پڑے، تو پھر کلاس میں پہنچنے کی اُمید نہ ہی رکھنا۔ پُوری کوشش کرو کہ بالکل قریب میں کچھ مل جائے جہاں سے تم پیدل چل کر آ جا سکو۔"
دوست نے ایک خاتون اِبو انندہ کا نمبر بھی دیا جن کے سات گھر مرکز کے بالکل قریب واقع تھے اور عموماً کرائے کے لیے ایک آدھ ہر وقت دستیاب رہتا تھا۔ میں نے فوراً کال ملائی۔ میری کال کے جواب میں اِبو اننده نے کہا،
"اس وقت میرے پاس صرف ایک گھر میں "گنجائش" ہے، بس آپ کو اُس کی اُوپر والی منزل پر رہنا پڑے گا، کیونکہ نیچے یونیورسٹی کی دو طالبات رہتی ہیں۔"
مجھے تو اُن کی اس پیشکش میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہ آئی سو کرایہ وغیرہ پوچھ کر خوشی خوشی بیگم کو بتایا،
"نہ صرف گھر کا بلکہ تمہارے لیے دو سہیلیوں کا بھی اعلیٰ انتظام ہو گیا ہے۔"
"میرے لیے یا "تمہارے" لیے۔۔۔اس قسم کی جگہ کا تو سوچنا بھی نہیں۔ ابھی کال کر کے انہیں منع کرو۔ یوں بھی تمہاری اُستانی بو فرح نے پچھلے ہفتے ہی مجھے بتایا تھا کہ انڈونیثیائی لڑکیاں داڑھی والے لڑکوں سے بہت جلد ایمپریس ہو جاتی ہیں۔"
مرتا کیا نہ کرتا، کال کر کے ابو انندہ سے معذرت کی۔ پھر کچھ مزید غور و فکر کے بعد میں نے انڈونیشیا میں موجود ایک دوست کو مدد کے لیےکال کی۔ انہوں نے بتایا کہ کورس انچارج ارکو ہوتورو صاحب اگر چاہیں تو مجھے دو چار دن کے لیے میس میں ایک کمرہ دے سکتے ہیں۔
"اُن دو چار دنوں میں تم آس پاس میں کوئی گھر ڈھونڈ لینا۔"

دوست کے بتائے ہوئے نمبر پر کال کی۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ارکو ہوتورو صاحب لائن پر آئے۔ میں نے بغیر کسی تمہید کے پوچھا،
"کیا آپ مجھے ایک ہفتے تک میس میں بیگم سمیت رہنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟"
"جی دے تو سکتا ہوں، لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ ایک ہفتہ "سات دن" کا ہی ہو گا؟" ہوتورو صاحب نے بھی کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر جواب دیا۔
"جی میرا خیال تو یہ ہے کہ ہفتہ تین دن سے زیادہ کا بھی نہیں ہو گا۔ لیکن فرض کیجئے کہ ایسا نہیں ہوتا تو آپ ہمیں نکال باہر کیجئے گا۔"
"جی مجھے اُمید ہے کہ آپ ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے لیکن ایک دفعہ ایک پاکستانی دوست کا ہفتہ پورے 25 دن کا نکل آیا تھا۔۔۔۔"

اركو ہوتورو صاحب اُس پاکستانی دوست کی کہانی سناتے رہے اور میں شرمندگی سے سنتا رہا۔۔۔بہر حال میری یقین دھانی کے بعد ہوتورو صاحب نے ہمارے لیے میس میں ایک ہفتے کے لیے کمرہ مختص کر دیا۔
میس پہنچ کر تھوڑا ہوش میں آتے ہی میں نے ایک قریبی ہاؤسنگ سوسائٹی کی راہ لی۔ لمبی لمبی سڑکوں اور بڑے بڑے گھروں کو دور سے دیکھتے ہوئے ابھی میں گیٹ سے اندر داخل ہی ہوا تھا کہ ایک ریڑھی والی خاتون نظر آئی۔ میں نے اُمید بھری آواز میں پوچھا،
"میڈم یہاں آس پاس میں کرائے کا کوئی چھوٹا موٹا گھر کتنے تک کا مل جاتا ہو گا؟"
میڈم نے مجھے گھور کر دیکھا اور بولیں،
"پہلی بات تو یہ ہے کہ میں میڈم نہیں، یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ ہوں، میرا نام سیتا ستیاواتی ہے اور میں ہر ویک اینڈ پر یہاں سیومے بیچتی ہوں، دوسرے اس علاقے میں کوئی چھوٹا موٹا گھر نہیں ہوتا اور تیسرے اگر سستہ اور چھوٹا گھر چاہیے تو آپ کو ساتھ والی آبادی میں دکھا دیتی ہوں۔"
بھئی واہ، کیا بات ہے، یہ انڈونیثیائی تو واقعی بہت زبردست لوگ ہیں!!
"لیکن اتنی دیر تک آپ اپنے "کاروبار" کا کیا کریں گی؟" میں نے دانستہ اُن کی ریڑھی کو ذرا با عزت بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"اُس کی آپ فکر نہ کریں۔" یہ کہتے ہوئے اُس نے منٹا منٹی اپنی ریڑھی لپیٹ کر تالا لگایا اور میرے ساتھ چل پڑی۔

تھوڑی دیر بعد جب ہم ساتھ والی آبادی میں داخل ہوئے تو چھوٹے چھوٹے ڈربه نما گھر اور چنّے منے سے فلیٹ دیکھ کر میرا دل ہی ڈوب گیا۔ خیر دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ کرایہ بھی تو اُسی حساب سے کم ہو گا۔ ایک ٹوٹے پھوٹے سے فلیٹ کے سامنے رک کر سیتا دروازے پر دستک دینے ہی والی تھی کہ میں نے اسے روک دیا۔
"یہ تو بہت چھوٹا اور گندا سا لگ رہا ہے۔"
"لیکن سر آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ کرایہ کتنا کم ہے۔ اس پورے فلیٹ کے صرف 600 ڈالر۔"
اُس نے "پورے" پر یوں زور دیا جیسے ایک بیڈ والے اُس ڈبّے کے آدھے کے برابر بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
"میڈم مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے آپ کو زحمت دی، لیکن میں یہاں نہیں رہ سکتا۔"
"ارے زحمت کیسی بھئی میری فیس نکالو. اور میں تمہیں پہلے بتا چکی کہ میرا نام میڈم نہیں سیتا ہے۔" خاتون فوراً آپ سے تم پر آ گئیں۔
"فیس کس بات کی بھئی؟"
"اس بات کی کہ میں نے آپ کے لیے اپنی ریڑھی چھوڑی اور آپ نے میرا قیمتی وقت ضائع کیا۔"

بعد کے قیام میں آہستہ آہستہ ہمیں سمجھ آئی کہ انڈونیشیا میں ہمارے ملک کی طرح "مفت" میں مدد کرنے کا کوئی خاص رواج نہیں۔ اگر آپ کسی سے کوئی مدد مانگیں تو وہ بڑی خوش دلی سے کر دے گا، لیکن جواباً آپ سے بھی کچھ رقم کی توقع رکھے گا۔۔۔۔اور بعض اوقات سیدھا سیدھا مانگ بھی لے گا۔۔۔اس میں اچھی بری بات کچھ نہیں، بس اُن کے کلچر میں "فری لنچ" کا تصور بالکل نہیں پایا جاتا۔

سیتا کو منہ مانگی فیس دینے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کوئی موٹر سائیکل ٹیکسی (جو انڈونیشیا میں اوجیک کہلاتی ہے اور سب سے کار آمد سواری ہے) پکڑ کر ذرا بہتر والے والے علاقے کا ایک راؤنڈ لگا لوں، شاید کسی گھر پر "کرائے کے لیے خالی ہے" لکھا نظر آ جائے۔ لیکِن آدھے گھنٹے تک گھوم پھر کے ثابت ہوا کہ کہیں کوئی بورڈ نہیں ہے۔ ہر طرف سے مایوس ہو چکنے کے بعد میں نے سوچا کہ دو چار گھروں میں دستک دے کر پوچھ لینا چاہیے کیا پتہ آس پاس میں کوئی پورشن ہی کرائے پر دے رہا ہو۔ گلی کے پہلے گھر پر دستک دی تو اسپیکر پر ایک بڑے میاں کی آواز سنائی دی۔ میں نے اپنا سوال پوچھا تو کہنے لگے آپ اِبو ارتے سے پوچھ لیں شاید اُنہیں پتہ ہو۔ میں نے سوچا اب اس ارتے کا پتہ کون پوچھتا پھرے، اگلے گھر پر دستک دیتا ہوں۔ خیر جب تین چار گھروں سے یہی جواب ملا کہ اِبو ارتے سے پوچھ لیں، تو اگلے گھر سے میں نے یہی پوچھ لیا کہ اِبو ارتے کا گھر کدھر ہے۔ معلوم ہوا کہ موصوفہ اُسی گلی کے درمیان میں رہتی ہیں۔ اُن کے گھر پر دستک دی تو ایک بڑی بی باہر آئیں۔ میں نے پوچھا کیا آپ ہی کا نام "ارتے" ہے تو زور زور سے ہنسنا شروع ہو گئیں۔ جب اچھی طرح ہنس چکیں تو کہنے لگیں،
"میرا نام ہرتاتی ہے، "ارتے" دراصل ہماری لوکل گورنمنٹ کا سب سے چھوٹا عہدہ ہے جو محلے کے لیول پر ہوتا ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ میں اس محلے کی کونسلر ہوں۔ اندر آ جائیں، مجھے بہت خوشی ہو گی اگر میں آپ کی کوئی مدد کر سکوں۔"
"جی بہت شکریہ۔ میں کوئی چھوٹا گھر یا پورشن کرائے پر لینا چاہتا ہوں۔"
"اگر مالک مکان غیر مسلم ہو تو آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گا؟" ارتے صاحبہ نے میری داڑھی کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
"جی نہیں، بلکہ یہ تو گویا اضافی خوبی ہو گی۔"
"بس پھر یوں سمجھیں آپ کی تلاش ختم ہوئی، اسی گلی میں ذرا آگے کارنر پر مکان نمبر 23 کے دروازے پر دستک دیں اور اِبو توتو روتنسولو کو بتائیں کہ آپ کو میں نے بھیجا ہے۔ وہ اپنا ایک پورشن کرائے پر دینا چاہتی ہیں۔"
(جاری ہے)