"جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہمارے مفاد میں تو ہرگز نہیں۔ کون ایٹمی طاقت سے لیس ملک کا غلیل سے مقابلہ کرنا چاہے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ وار رپورٹر ہیں۔ کیا آپ کو جنگ پسند ہے؟"
یہ سوال 2018 میں اطالوی صحافی فرانسسکا بوری کو انٹرویو میں طوفان الاقصیٰ کے منصوبہ ساز حماس کے شہید سربراہ یحییٰ سنوار نے کیا۔ ان کا یہ انٹرویو شہ سرخیوں کی زینت بنا، اس بیان کو سیاسی حل کی طرف پیش قدمی کی کوشش قراردیا گیا۔ یحییٰ سنواراسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ بحری ، فضائی اور زمینی ناکہ بندی کا خاتمہ چاہتے تھے جس نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا تھا۔ کیا کرہ ارض پر ایسا کوئی دوسرا مقام ہے جس کی 23 لاکھ کی آبادی مسلسل 18 سال سے محاصرے کی حالت میں ہے؟ زراعت، تجارت اور ماہی گیری سب تباہ ہوگئے۔ صرف چار گھنٹے کے لیے بجلی فراہم کی جاتی، 62 فیصد آبادی کو خوراک کے لیے امداد کی ضرورت جب کہ بیروزگاری کی شرح 46 فیصد پر پہنچ چکی تھی۔ اس ناکہ بندی کو ختم کرنے کے لیے بااثرعرب ممالک نے کوئی خاص کردار ادا نہ کیا۔ ترکی کے ادارے نے 2010 میں فریڈم فلوٹیلا بھیجا جس پر اسرائیل نے حملہ کرکے 9 افراد کو قتل کردیا ۔ 2008 ، 2012 اور 2014 کی غزہ اسرائیل جنگیں اسی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے تھیں۔
سن 2017 میں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالنے والے یحیٰی سنوار ناکہ بندی کے خاتمے کے بدلے جنگ بندی پر آمادہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہمارے مفاد میں تو ہرگز نہیں۔ انہوں نے نئی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مارچ 2018 میں 'گریٹ مارچ آف ریٹرن' کے نام سے ہر جمعے کے بعد مظاہروں کا اعلان کیا۔ فلسطینی ہزاروں کی تعداد میں تعداد میں جمعے کی نماز کے بعد غزہ کی سرحد پر مظاہرہ کرتے، اسرائیل نے ان پرامن مظاہرین کو بھی نہ بخشا ۔ 30 مارچ 2018 سے 27 دسمبر 2019 تک پونے دو سال تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں اسرائیل نے 223 فلسطینی شہریوں کو شہید کیا ۔ یاد رہے کہ ایک سال مکمل ہونے پر بتایا گیا تھا کہ شہداء میں 41 بچے بھی شامل تھے جبکہ زخمیوں کی تعداد 29 ہزار تھی ۔ ماہرین نے ان پرامن مظاہروں اور یحیٰی سنوار کے بیان کو پالیسی شفٹ قرار دیا تھا ۔
مگر شاید عرب ممالک ، عالم اسلام اور بین الاقوامی برادری غزہ اور اہل غزہ کو فراموش کرچکے تھے۔ عرب حکمران ناکہ بندی تو کیا ختم کراتے اب ان کی دلچسپی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے معاہدہ ابراہیمی میں تھی۔ فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے 2020 میں معاہدہ ابراہیمی پر دستخط نے دو ریاستی حل کی امید کو بھی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یو اے ای ، بحرین ، مراکش اور سوڈان نے معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کرکے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ اس سے پہلے2018 میں امریکہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارتخانے وہاں منتقل کرچکا تھا۔ دو ریاستی حل ٹھیک ہے یا غلط؟ اب اس بحث کی گنجائش بھی نہ بچی تھی۔ سعودی عرب کے معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کے ساتھ ہی دو ریاستی حل ماضی کا قصہ بن جانا تھا، اس کے شواہد ہم آگے پیش کردیں گے۔
یہ طویل تمہید ہمیں حماس ، فلسطین اور دو ریاستی حل سے متعلق نہایت قابل احترام احمد جاوید صاحب کی رائے کی وجہ سے باندھنا پڑی جو مختلف سوشل میڈیا پیجز پر زیر بحث ہے۔ کسی مسئلے پر افراد کی آراء میں اختلاف نئی بات نہیں۔ احمد جاوید صاحب نے حماس کے 7اکتوبر کے اقدام پر قرآن، سنت اور تاریخ کے تعلق سے جو بات کی اس کا بہتر جواب علماء، اسکالرز اور مؤرخین دے سکتے ہیں۔ ہم یہاں ان کی گفتگو کے صرف ان حصوں کی نشاندہی کریں گے جو حقائق کے خلاف ہیں۔
ہم یہاں ان کی گفتگو کے کم از کم پانچ ایسے مقامات کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتے ہیں جہاں وہ ہمارے علم کی حد تک غلطی پر ہیں ۔ ہماری کوشش ہوگی کہ یہاں وہی الفاظ نقل کریں جو احمد جاوید صاحب نے ادا کیے ۔
1۔ کیا سعودی عرب سے پوچھ کر(حماس نے سات اکتوبر کا) حملہ کیا تھا؟ تین دن بعد فیصلہ ہونے والا تھا۔ دو ریاستیں بن جاتیں اب تک ، اناؤنس ہوجاتیں ، امریکہ ضامن تھا اس کا۔
2۔یرغمالیوں سے متعلق میزبان کے سوال پر احمد جاوید صاحب نے فرمایا کہ جہاں یرغمالی رکھے گئے ہیں وہاں بمباری غلطی سے بھی نہیں ہوئی ہے، صرف تین کی اموات اس وجہ سے ہوئیں کہ عین اس وقت یہ لوگ ان کو زبردستی اسپتال کی بیسمنٹ میں لے گئے تھے۔ ان کو سب معلوم تھا کہ کیا کہاں ہے؟
3۔۔ حماس کے سات اکتوبر کے اقدام کے پیچھے ایران تھا
4۔حماس نے عرب سرپرستی کو چھوڑ کر جو ایرانی سرپرستی کو قبول کیا یہ سخت ناعاقبت اندیشی کا فیصلہ تھا، انہیں اپنے بانی شیخ احمد یٰسین کے نقش عدم پر رہنا چاہیے تھا، شیخ احمد یٰسین تمام پیشکشوں کے باوجود کبھی ایران کی طرف نہیں بڑھے!
5۔اوسلو معاہدہ اور ایڈورڈ سعید کی رائے
اولاً، یہ جاننا ضروری ہے کہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے والے معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کے بعد دو ریاستی حل کے نعرے کی زبانی کلامی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ طوفان الاقصیٰ سے دو ہفتے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے 22 ستمبر 2023 کو اقوام متحدہ کی جنرل میں مشرقی وسطیٰ کا جو نقشہ ساری دنیا کو دکھایا اس میں فلسطینی ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا۔ نقشے میں بیت المقدس کے مشرقی علاقے، غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیلی ریاست کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اسی خطاب میں نتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل سعودی عرب تاریخی امن معاہدہ طے پانے کے قریب ہے۔
نتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تاریخی امن معاہدے کی صورت مں بہت بڑی کامیابی حاصل ہونے کو ہے۔ نتن یاہو نے دہائیوں پہلے مصر، اردن اور 2020 میں دیگر ممالک کے ساتھ اپنے امن معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے حاضرین سے کہا کہ "غور کیجیے سعودی عرب کے ساتھ امن کا کیا نتیجہ نکلے گا"۔ انہوں نے اس نقشے کی دوسری جانب ایک تصویر پر اسرائیل کے ارد گرد وسیع سبز علاقے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "امن کے نتیجے میں پورا مشرق وسطیٰ تبدیل ہو جائے گا"۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل پر مشتمل ایک علاقائی راہداری بنے گی جو ایشیا کو یورپ سے ملائے گی۔(حوالہ: یو این خبرنامہ)
احمد جاوید صاحب اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان جس معاہدے کی بات کررہے تھے اس میں دو ریاستیں کدھر تھیں؟ وہ سوائے معاہدہ ابراہیمی کے اور کیا تھا جس پر یو اے ای ، بحرین ، مراکش اور سوڈان پہلے ہی دستخط کرچکے تھے؟ اگر سعودی عرب بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے جارہا تھا جس کے لیے اس پر آج بھی سخت دباؤ ہے تو پھر کونسی اور کہاں کی دو ریاستیں؟ فلسطین کا قضیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بغیر کسی شور شرابے کے ختم ہوجانا تھا اور جس طرح 1948 کے بعد سے آج تک فلسطینیوں کی جبری بے دخلی جاری ہے غزہ اور مغربی کنارے سے یہ عمل بھی جلد یا بدیر مکمل کرلیا جاتا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نتن یاہو کے برابر میں بیٹھ کر اسی منصوبے کا تو اعلان کیا ہے یعنی فلسطینیوں سے پاک غزہ!
احمد جاوید صاحب بے شک سات اکتوبر کے اقدام پر اپنی رائے پر قائم رہیں اور ہم بھی یہاں اس بنیاد پر 7 اکتوبر کے حملے کا دفاع نہیں کررہے، مگر گزارش صرف یہ ہے کہ وہ بات نہ کہیں جس کے شواہد موجود نہیں ہیں ۔ اگر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان کوئی معاہدے ہونا تھا تو وہ معاہدہ ابراہیمی تھا جس کا ذکر نتن یاہو نے یواین میں کیا تھا اور اس کا دو ریاستی حل سے کوئی تعلق نہیں۔
اگر حماس کے 7 اکتوبر کے اقدام کا دفاع نہ بھی کیا جائے تو بھی دکھائی دے رہا ہے کہ طوفان الاقصیٰ اور جنگ بندی کے معاہدے کے بعد صورتحال میں تبدیلی آئی ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سخت بیان بازی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر چین کے سخت ردعمل نے "دو ریاستی حل" کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے جس کے خاتمے کا باضابطہ اعلان 22 ستمبر کو بین یامین نیتن ہا ہو نے اقوام متحدہ میں کیا تھا۔ سعودی عرب پرزور انداز میں اس کا مطالبہ کررہا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر رہنی چاہیے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو ریاست کے نام پر ایک انچ بھی نہیں دینا چاہتا ۔۔ ان کا ایجنڈا فلسطینیوں سے پاک غزہ ہے اور ٹرمپ نے نتن یاہو کے ساتھ بیٹھ کر یہی اعلان بھی کیا ہے۔
دوم یہ کہ احمد جاوید صاحب کی یہ بات بھی درست نہیں کہ صرف تین یرغمالی اسرائیل کی قید میں مارے گئے اور اسرائیل نے غلطی سے بھی ان مقامات پر بمباری نہیں کی جہاں یرغمالیوں کو رکھا گیا تھا۔ حقیقتاً، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مارے گئے یرغمالیوں کی تعداد کم از کم 33 ہے جبکہ کئی یرغمالی لاپتا ہیں ۔ 20 فروری 2025کو حماس نے بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے چار یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرتے ہوئے اسرائیلی فیملیز کے نام پیغام میں کہا کہ ہم آپ کے بچوں کو زندہ واپس بھیجنا چاہتے تھے مگر آپ کی فوج اور حکومتی رہنماؤں نے انہوں نے قتل کرنا پسند کیا۔ چار مزید مغویوں کی لاشیں اسرائیل کو آئندہ ہفتے واپس کی جائیں گی۔
گفتگو کے دوان محترم احمد جاوید صاحب نے کہا کہ 7 اکتوبر کے حملے کے پیچھے ایران تھا ۔ یہ بھی حقیقت کے خلاف ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے16 نومبر2023 کو یہ خبر دی کہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ نے تہران میں حماس رہنما اسماعیل سے ملاقات میں واضح پیغام دیا کہ آپ نے ہمیں 7 اکتوبر کے حملوں سے باخبر نہیں کیا تھا اور ہم آپ کی طرف سے جنگ میں داخل نہیں ہوں گے
You gave us no warning of your Oct. 7 attack on Israel and we will not enter the war on your behalf.
رائٹرز نے حماس اور ایرانی آفیشلز کے حوالے سے بتایا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کو آگاہ کیا کہ ہم آپ کی سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے مگر براہ راست مداخلت نہیں کریں گے۔حماس نے رائٹرز کی اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیا تھا ، مگر ایرانی وزیرخارجہ نے اس دوران یہ بات کئی بار کہی کہ ہم نہیں چاہتے کہ اسرائیل حماس کی لڑائی پورے خطے میں پھیل جائے۔
مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں بتایا کہ ایران امریکہ کو آگاہ کرچکا ہے کہ وہ اس بات کے حق میں نہیں کہ حماس ایران تنازع پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے، مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ایران یہ بات کئی بار کہہ چکا ہے کہ اسے 7 اکتوبر کے حملے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور امریکہ بھی ایران کی اس بات سے اتفاق کرتا ہے۔
ایران اور حماس کے تعلقات پر امریکی جریدے فارن پالیسی میں شائع مضمون The 7 Reasons Iran Won’t Fight for Hamas میں بتایا گیا ہے کہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ حماس اور حزب اللہ ایران کی پراکسیز ہیں ، یہ ایران کے نان اسٹیٹ اتحادی ہیں ۔ ماسکو اور بیجنگ میں ایران کے اسٹریٹجک پارٹنرز نے حماس کی مکمل حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اسرائیلی اور امریکی انٹیلیجنس کے مطابق ایران کے اعلیٰ عہدیداران 7 اکتوبر کے حملے سے واقف نہیں تھے۔ فارن پالیسی کے مطابق There is no top-down relationship between Tehran and Hamas. Even as Hamas aligns its actions with Iran, its approaches could diverge, as they notably did during the Syrian civil war when Hamas supported the Sunni anti-Assad rebels. American and Israeli intelligence has suggested that Iran’s top officials were not aware of the Hamas operation.
واجب الاحترام احمد جاوید صاحب نے اسی موضوع پر اپنی اگلی پوڈ کاسٹ میں یہ بھی کہا کہ حماس نے عرب سرپرستی کو چھوڑ کر جو ایرانی سرپرستی کو قبول کیا یہ سخت ناعاقبت اندیشی کا فیصلہ تھا اور اپنے بانی شیخ احمد یٰسین کے نقش عدم پر رہنا چاہیے تھا۔ شیخ احمد یاسین تمام پیشکشوں کے باوجود کبھی ایران کی طرف نہیں بڑھے۔
ہماری ناقص رائے میں اگر احمد جاوید صاحب سرپرستی کے مقابلے میں تعاون کا لفظ استعمال کرتے تو یہ زیادہ مناسب تھا ۔ہم یہاں یہ بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ حماس سربراہ شیخ احمد یاسین نے 1998 میں ایران کا دورہ کیا تھا اور ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی تھی۔ ایران اور حماس کے درمیان تعلقات 1992 میں قائم ہوگئے تھے۔ ایران الفتح کو بھی سپورٹ کرتا رہا ہے۔ حماس نے 1999 میں جب کہ شیخ احمد یاسین حیات تھے اپنا سیاسی بیورو اردن سے ایران کے قریب ترین اتحادی ملک شام متقل کرلیا تھا ۔ یہ فیصلہ اردن کی جانب سے تنظیم کے خلاف پابندی ،خالد مشعل اور موسیٰ ابو مرزوق جیسے سینئر رہنماؤں کی گرفتاریوں اور دفاتر کی بندش کے بعد کیا گیا ۔ مگر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ حماس اپنے فیصلوں میں آزاد رہی ہے اسی لیے جب شام میں بشار الاسد نے مارچ 2011 میں اپنے ہی عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تو حماس نے ایران سے تعلقات کی خرابی کا رسک مول لیتے ہوئے فروری 2012 میں قطر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ غزہ میں حماس کی منتخب حکومت کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بشار کے خلاف شامی عوام کی حمایت کا اعلان کیا اور ایران کو ناراض کیا ۔ حماس کا سیاسی دفتر قطر میں ہے۔ کیا قطر عرب ملک نہیں ہے؟
احمد جاوید صاحب نے اپنی گفتگو میں 1993 میں ہونے والے معاہدے کا بھی ذکر کیا اور ایڈورڈ سعید کے کردار کی تعریف کی، مگر حقیقتاً ایڈورڈ سعید کا اوسلو معاہدے پر تبصرہ کچھ یہ تھا
The late prominent Palestinian literary critic and activist Edward Said was among its most vocal critics, calling it “an instrument of Palestinian surrender, a Palestinian Versailles”.
ہمیں اسرائیلی پالیسی اور فلسطینی اتھارٹی کی کارکردگی پر حماس کے فارن پالیسی چیف اسامہ حمدان کے یہ تجزیہ بالکل ٹھیک نظر آتا ہے
Abbas had given Israel everything it wanted and has received nothing in return
تبصرہ لکھیے