ہوم << گلگت بلتستان کا زبوں حال تعلیمی نظام - امیرجان حقانی

گلگت بلتستان کا زبوں حال تعلیمی نظام - امیرجان حقانی

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، مگر جب یہی بنیاد کمزور ہو، تو معاشرے کا پورا نظام لڑکھڑانے لگتا ہے۔ گلگت بلتستان کا تعلیمی نظام بھی انہی مسائل سے دوچار ہے۔ ہر سال تعلیمی نتائج کا جائزہ لیا جاتا ہے، مگر جب خراب نتائج سامنے آتے ہیں، تو بجائے اس کے کہ اصل وجوہات تلاش کرکے اصلاح کی جائے، چند پرنسپلز اور اساتذہ کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔ اور اس میں بھی بہت سارے ساز باز کرکے بچ جاتے ہیں اور کچھ بیچارے جن کا کوئی مذہبی و سیاسی اور علاقائی تعصب کا بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا وہ قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں ۔ لیکن کیا سزا ہی اس مسئلے کا حل ہے؟ کیا صرف چند افراد کو سزا دینے سے ایک پورے تعلیمی نظام کی اصلاح ممکن ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ ایسا بالکل نہیں، ترقی یافتہ اور پذیر ممالک میں سزائیں حل نہیں ہوتیں ، بالکل بھی نہیں! بلکہ درست اصلاح ہی اصل حل ہے۔ اگر واقعی تعلیم نظام کو بہتر بنانا ہے، تو ہمیں بہت سارے بنیادی سوالات کے جوابات تلاش کرنے ہوں گے۔ ہمیں وہ حقائق جاننے ہوں گے جو تعلیمی زبوں حالی کی اصل وجہ ہیں۔

کیا گلگت بلتستان کے اسکولوں کو ان کی ضروریات کے مطابق بجٹ دیا جاتا ہے؟
کیا اساتذہ کی کمی کو پورا کیا جاتا ہے؟
کیا ہمارے اساتذہ کو جدید اور مشکل نصاب پڑھانے کی مناسب تربیت دی گئی ہے؟
کیا اساتذہ کی بھرتی میں مذہبی، سیاسی اور علاقائی تعصب کے نام پر میرٹ کو پامال ہونے سے روکا گیا ہے؟
کیا قابل اور باصلاحیت اساتذہ کو دفاتر سے نکال کر اسکولوں میں بھیجا گیا ہے؟
کیا پوسٹنگ ٹرانسفری میں اقرباء پروری کو روکا گیا ہے؟
اگر نہیں، تو خراب نتائج کے لیے صرف اساتذہ اور چند ایک ہیڈ ماسٹرز اور پرنسپلز کو ذمہ دار ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے؟

ان جیسے چند سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈنا ہم سب کا فرض ہے۔ میں اسی کالم میں انہی سوالات اور ان کے جوابات بشکل تجاویز، دینے کی کوشش کرونگا تاکہ ہم بہتر حل کی طرف سفر کا آغاز کرسکیں۔

سوال: کیا علم کی شمع مناسب بجٹ کے بغیر جل سکتی ہے؟
مناسب بجٹ کسی بھی تعلیمی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔ اگر اسکولوں کو ان کی ضروریات کے مطابق فنڈز نہ دیے جائیں، تو طلبہ اور اساتذہ کیسے ایک معیاری تعلیمی ماحول حاصل کر سکتے ہیں؟ ہر اسکول میں جدید سہولیات ہونی چاہئیں، بشمول لائبریری، لیبارٹری، پینے کا صاف پانی اور بنیادی تدریسی آلات۔ اور ہاں، ایک ایسا تعلیمی بجٹ جس میں انصاف اور شفافیت نہ ہو، وہ صرف سرکاری فائلوں میں ترقی تو کرتا رہتا ہے، حقیقت میں نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں کے لیے بجٹ کا شفاف نظام بنایا جائے تاکہ ہر ادارہ اپنے طلبہ کو بہترین تعلیمی ماحول فراہم کر سکے۔ اور ہاں تعلیمی اداروں میں دیا جانا والا بجٹ جس بے دردی اور کرپشن کی نظر ہوتا ہے وہ ایک مستقل الگ داستان غم ہے۔

سوال: کیا استاد صرف کلاس روم کے لیے ہے یا دفاتر کے لیے بھی؟
کیا یہ عجیب منطق نہیں کہ ایک طرف اسکولوں میں اساتذہ کی شدید قلت ہے اور دوسری طرف سینکڑوں اساتذہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت مختلف دفاتر میں آرام دہ کرسیوں پر براجمان ہیں؟ جو اساتذہ تدریس و تربیت کے لیے بھرتی کیے گئے تھے، وہ دفاتر میں بیٹھے ہیں، اور جو اسکولوں میں موجود ہیں، وہ طلبہ کی تعداد کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔ یہ المیہ گلگت بلتستان کے تعلیمی نظام کے لئے، مایوس کن چیلنج ہے۔ ہمیں اس رویے کو بدلنا ہوگا، ہمیں تدریسی عملے کو دفاتر سے نکال کر اسکولوں میں واپس لانا ہوگا۔

سوال: کیا ہم نے اپنے اساتذہ کو جدید نصاب پڑھانے کے لیے تیار کیا ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ تعلیمی نصاب مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، مگر ہمارے اساتذہ کو اس نصاب کو مؤثر انداز میں پڑھانے کے لیے کیا تربیت دی جا رہی ہے؟ اگر ایک استاد کو جدید تدریسی مہارتوں سے آراستہ نہ کیا جائے، تو وہ کیسے طلبہ کی رہنمائی کر سکتا ہے؟ ہمیں اساتذہ کی باقاعدہ تربیت کے لیے جدید ورکشاپس، سیمینارز اور عملی تدریس کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے تاکہ وہ تعلیمی نظام میں ایک مثبت تبدیلی لا سکیں۔

کیا اساتذہ کی بھرتی میں مذہبی، سیاسی اور علاقائی تعصب کے نام پر میرٹ کو پامال ہونے سے روکا گیا ہے؟
یہ بھی شعبہ تعلیم میں المیہ سے کم نہیں، مذہبی اور سیاسی شخصیات کا اساتذہ کی بھرتی میں باقاعدہ کوٹا ہوتا ہے۔ اتنی سیٹیں فلاں کو دینا ہے تو اتنی فلاں کو۔جب اساتذہ کی سیلکشن ہی مذہب، اور قبیلہ کی بنیاد پر ہو تو پھر بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔ہمارے دیامر میں تو ایک طویل عرصہ قبیلہ کی بنیاد پر لوگوں کی ٹیچنگ میں تقرری ہوئی ہیں ۔ اس کلچر کو بھی روکنا ہوگا اور میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔

سوال : کیا اسکول کالج بن چکے ہیں؟
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنا مفوض کام کے بجائے غیر ضروری کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں مڈل کی کلاسز لگائی جارہی ہیں۔مڈل اسکولوں میں ہائی کلاسز اور ہائی اسکولوں میں ہائر سیکنڈری کلاسز چلانا کہاں کی دانشمندی اور انصاف ہے؟
ہائی سیکنڈری کی کلاسز اور تعلیم کی ذمہ داری تو جی بی کالجز کی ہے، مگر جب کالجز میں وسائل کی کمی ہو، تو اسکولوں پر اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ ہمیں اسکولوں اور کالجز کے دائرہ کار کو واضح کرنا ہوگا اور ہر ادارے کو اس کے اصل کام تک محدود کرنا ہوگا تاکہ تعلیمی معیار میں بہتری آسکے۔ ورنا اپنے کام کی بجائے دوسروں کا کام کرنے لگ جائیں تو مزید خوفناک المیے جنم لیں گے۔ خدارا! پہلے اپنے کام اچھے طریقے سے کر لیجیے تاکہ تمہیں خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

سوال: کیا سزا و جزا صرف کمزوروں کے لیے ہے؟
اگر خراب نتائج کی بنیاد پر اساتذہ اور کچھ پرنسپلز کو سزا دی جا رہی ہے، تو وہ ممبران، وزراء اور سرکاری افسران جو اقربا پروری اور سفارش کے ذریعے اپنے عزیزوں کو غیر تدریسی عہدوں پر تعینات کر رہے ہیں، ان کا احتساب کیوں نہیں ہوتا؟ اگر جزا و سزا کا اصول اپنانا ہے، تو اسے سب پر یکساں لاگو کرنا ہوگا۔ اگر نتائج اور کارگرگی کی بنیاد پر سزا دینا ناگزیر ہے تو پھر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ صرف چند پرنسپلز اور اساتذہ کو ہی موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے، بلکہ اس تعلیمی زبوں حالی کے ذمہ دار تمام متعلقہ افسران بشمول ڈپٹی ڈائریکٹرز، ڈائریکٹرز، ڈائریکٹر جنرلز اور حتیٰ کہ سیکریٹری اور منسٹر تک، کو بھی اسی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ کیونکہ طلبہ کے کمزور نتائج ان سب کی نااہلی اور سستی کی وجہ سے آئے ہیں اور تعلیم میں بہتری کے نام پر اصل انجوائے تو یہی افیسران کرتے ہیں۔ اور اگر سکولوں میں کہیں اچھے نتائج اور دیگر اچیومنٹس ہوں تو یہی اعلیٰ افیسران کریڈٹ لیے پھرتے ہیں۔ پھر سزا سے خود کو مبرا کیوں کررہے ہیں؟ یاد رہے کہ جب تک پورے نظام کا احتساب نہیں ہوگا، صرف چند افراد کو قربانی کا بکرا بنانے سے تعلیم کا معیار بلند نہیں ہوگا۔ انصاف وہی ہے جو ہر سطح پر یکساں ہو، ورنہ اصلاح کی امید محض ایک خواب رہے گی۔ اور جاہل قوموں کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے یہی خواب دکھائے جاتے رہیں گے ۔

سوال: کیا ہم ایک بہتر تعلیمی نظام بنا سکتے ہیں؟
یہ سوال بھی بہت اہم ہے اور اس کے لیے بھی ہمیں سرجوڑ کر بیٹھناہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے ہمیں چند ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ جن میں چند ایک یہ ہیں ۔

بجٹ میں شفافیت
تمام اسکولوں کو ان کی ضروریات کے مطابق فنڈز فراہم کیے جائیں۔ اور اس فنڈ کے استعمال کے لیے شفافیت پر مبنی میکنیزم بنایا جائے۔

اساتذہ کی تعداد میں اضافہ
تمام اسکولوں میں خالی اسامیوں کو جلد از جلد پُر کیا جائے۔ حیلے بہانوں، وزٹنگ، کنٹریکٹ اور پروجیکٹس کے نام پر خالی اسامیوں کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے ۔

اساتذہ کی تربیت
ہم سب جانتے ہیں کہ میٹرک تک کا سلیبس انتہائی جدید اور مشکل بنایا گیا ہے۔ اساتذہ کو جدید نصاب اور تدریسی مہارتوں کی باقاعدہ تربیت دی جائے۔

دفاتری تعیناتیوں کا خاتمہ
تمام تدریسی عملے کو اسکولوں میں تدریسی فرائض انجام دینے کا پابند بنایا جائے۔ اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت مختلف دفاتر میں موجود سینکڑوں اساتذہ کو سکولوں میں واپس بھیج دیا جائے۔

تعلیمی اداروں کا درست دائرہ کار
اسکولوں اور کالجز کے درمیان واضح تفریق کی جائے تاکہ ہر ادارہ اپنی اصل ذمہ داری نبھا سکے۔ اسکول اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں اور کالجوں کا کام کرنے سے مکمل اجتناب کریں۔

شفاف امتحانی نظام
امتحانات میں نقل اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے سخت نگرانی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ تاکہ کہیں پر سو فیصد اور کہیں پر بیس فیصد رزلٹ نہ آئے ۔

طلبہ کے لیے کیریئر گائیڈنس سینٹرز
تمام یونین اور تحصیل سطح پر طلبہ کے لئے کیریئر کونسلنگ اور گائیڈنس کے سینٹرز قائم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں۔

بہرحال ہمیں ناامید ہونے کی ضرورت نہیں، روشنی کی امید ابھی باقی ہے۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان کا تعلیمی نظام بحران کا شکار ضرور ہے، مگر بے حال نہیں! اگر ہم سنجیدگی سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، تو ہم اپنے بچوں کو ایک روشن اور معیاری تعلیمی مستقبل دے سکتے ہیں۔ یہ ایک مشکل راستہ ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں! ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم صرف زبوں حالی کا رونا روتے رہیں گے، یا عملی اقدامات کے ذریعے ایک تعلیمی انقلاب برپا کریں گے۔

یہ وقت ہے جاگنے کا، سوچنے کا، اور عمل کرنے کا! کیونکہ اگر آج ہم نے اپنی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کی ذمہ داری نہ لی، تو کل ہمیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی! ۔

Comments

امیر جان حقانی

امیر جان حقانیؔ گلگت بلتستان میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ممتاز محقق، استاد، اور مصنف ہیں۔ جامعہ فاروقیہ کراچی سے درس نظامی مکمل کرنے کے ساتھ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور جامعہ اردو سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا، بعد ازاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ 2010 سے ریڈیو پاکستان کے لیے مقالے اور تحریریں لکھ رہے ہیں

Click here to post a comment