سورج کی کرنیں ابھی مکمل بیدار نہیں ہوئیں، مگر ایک ہجوم پہلے ہی زندگی کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ کوئی ہاتھ میں ہتھوڑا لیے کھڑا ہے، تو کوئی مزدوری کے انتظار میں کسی چوک پر بیٹھا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دن کا آغاز امیدوں سے ہوتا ہے اور شام اکثر مایوسی کی چادر میں لپٹی ہوئی آتی ہے۔ وہ روز جیتے ہیں، روز مرتے ہیں، مگر ہمارے لیے یہ کہانی عام سی ہو چکی ہے، جیسے ایک پرانی فلم جس کا انجام ہمیں پہلے سے معلوم ہو۔
یہ دیہاڑی دار مزدور، یہ محنت کش طبقہ… کیا کبھی ہم نے ان کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا؟ شاید نہیں، کیونکہ ہماری بےحسی نے ہمیں اپنے ہی دائرے میں قید کر رکھا ہے۔ ہمیں فرق نہیں پڑتا کہ چوک پر بیٹھا وہ شخص جو صبح بڑے اعتماد کے ساتھ مزدوری کی تلاش میں نکلا تھا، شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے۔ ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ جو بچہ اسکول میں کتابیں پکڑے ہونا چاہیے تھا، وہ کسی ورکشاپ میں چکنائی میں لت پت ہاتھ لیے استاد کی جھڑکیاں سہہ رہا ہے۔
ہم فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بیٹھ کر معیشت پر لمبی بحثیں کرتے ہیں، ترقی کے گراف دیکھتے ہیں، اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں، مگر کسی دن اپنے علاقے کے چوک پر کھڑے ہو کر ان مزدوروں کی زندگی کا عملی جائزہ نہیں لیتے۔ نہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ دن بھر کی مشقت کے بعد وہ کیا کماتے ہیں اور نہ یہ کہ مہنگائی کی بےرحم آندھی میں ان کے گھروں کے چولہے کیسے جلتے ہیں۔
کبھی غور کیجیے، جب آپ کسی عمارت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہاں مزدوروں کو کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ دھوپ میں پسینہ بہاتے، اینٹیں اٹھاتے، سیمنٹ گوندھتے، ناپ تول کرتے… مگر جب وہی عمارت مکمل ہو جاتی ہے، تو اس کے دروازے ان مزدوروں کے لیے ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔ وہی ہاتھ جو اس عمارت کی بنیاد رکھتے ہیں، وہی ہاتھ جب اس کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں گیٹ کیپر کی گھورتی نظریں روک لیتی ہیں۔
یہ طبقہ ہماری ترقی کی اینٹیں جوڑتا ہے، مگر ہم انہیں وہ عزت اور سہولت دینے سے قاصر ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ ان کے لیے کوئی سوشل سیکیورٹی نہیں، کوئی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں، کوئی ایسا نظام نہیں جو ان کے بچوں کو تعلیم کی ضمانت دے سکے۔ بیمار ہو جائیں تو دوا کے لیے پیسے نہیں، بارش ہو جائے تو کام بند، کسی حادثے کا شکار ہو جائیں تو مدد کی امید تک نہیں۔
ہماری بےحسی کی انتہا یہ ہے کہ جب ہم کسی دیہاڑی دار کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں بس ایک مزدور دکھائی دیتا ہے، ایک ایسا شخص جو محض اپنی جسمانی قوت بیچنے کے لیے کھڑا ہے۔ مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس کی آنکھوں میں بھی خواب ہوتے ہیں، اس کے دل میں بھی امنگیں ہوتی ہیں، اس کے گھر میں بھی کسی بیمار ماں کا انتظار ہوتا ہے، کسی بچے کی معصوم خواہشیں ہوتی ہیں، کسی بیوی کی دعائیں ہوتی ہیں۔
کیا ہم اپنی اس بےحسی کو بدل سکتے ہیں؟ یقیناً! ہم کم از کم اپنی سوچ تو بدل سکتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ عزت سے پیش آ سکتے ہیں، ان کی اجرت وقت پر اور مناسب دے سکتے ہیں، انہیں حقیر اور کمتر سمجھنے کے بجائے ان کی محنت کا احترام کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے اردگرد کے دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے چھوٹے چھوٹے فلاحی اقدامات کر سکتے ہیں، کبھی کبھار ان سے ان کے مسائل پوچھ سکتے ہیں، ان کے لیے کسی فلاحی اسکیم میں شمولیت کی راہ نکال سکتے ہیں۔
یاد رکھیے! ایک دن ایسا آئے گا جب یہ مزدور طبقہ اپنی محنت کی قیمت کا مطالبہ کرے گا، جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگا۔ اگر ہم نے اپنی بےحسی کی روش نہ بدلی تو وہ دن دور نہیں جب معاشرتی نظام کی یہ بنیادیں ہلنے لگیں گی اور ہم تماشائی بن کر صرف افسوس ہی کرتے رہ جائیں گے۔
تبصرہ لکھیے