پاکستان کی معاشی صورتحال کے زوال کے پیچھے کئی عوامل کارفرما رہے ہیں، جن میں ناقص طرز حکمرانی، کرپشن، پالیسیوں میں عدم تسلسل، اور بیرونی دباؤ شامل ہیں۔ 1990 سے 2024 تک مختلف حکومتوں کے معاشی فیصلوں کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بار بار نااہل حکمرانوں کے برسرِاقتدار آنے اور غلط پالیسیوں نے معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔
1990 سے 2024 تک پاکستان کی معاشی زوال کی بڑی وجوہات
1. بار بار حکومتوں کی تبدیلی اور پالیسیوں میں عدم تسلسل
1990 کے بعد سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بہت زیادہ رہا۔ ہر آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو ترک کر کے نئی حکمت عملی اپنائی، جس کی وجہ سے طویل المدتی ترقی ممکن نہ ہو سکی۔
2. کرپشن اور غیر شفاف مالیاتی نظام
1990 کی دہائی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے۔ 2008 کے بعد بھی مختلف حکومتوں پر قومی خزانے کے ضیاع، منی لانڈرنگ، اور اقربا پروری کے الزامات عائد کیے گئے۔
3. بیرونی قرضوں کا غیر دانشمندانہ استعمال
1990 سے 2024 تک پاکستان نے مسلسل بیرونی قرضے لیے، لیکن ان کا زیادہ تر حصہ ترقیاتی منصوبوں کی بجائے غیر ضروری اخراجات، کرپشن، اور درآمدات میں چلا گیا. 2024 میں پاکستان کا مجموعی قرضہ 60,000 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے، جو کہ 1990 کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔
4. روپے کی قدر میں شدید گراوٹ
1990 میں 1 امریکی ڈالر تقریباً 21 روپے کا تھا، جبکہ 2024 میں یہ 278 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجوہات میں نااہل حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسی، قرضوں پر انحصار، اور برآمدات میں کمی شامل ہیں۔
5. بجٹ خسارہ اور مہنگائی میں اضافہ
1990 کے بعد سے ہر حکومت بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کرتی رہی۔ نتیجتاً، مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا، اور عوام کی قوتِ خرید کم ہوتی گئی۔
6. توانائی بحران اور معیشت پر اثرات
1990 کی دہائی سے توانائی بحران مسلسل جاری ہے، لیکن کسی حکومت نے اس کا مستقل حل تلاش نہیں کیا۔ لوڈشیڈنگ، گیس بحران، اور مہنگی بجلی کی وجہ سے صنعتی پیداوار کم ہوئی، جس نے برآمدات پر بھی منفی اثر ڈالا۔
7. زراعت اور صنعت کی تنزلی
1990 کے بعد سے پاکستان کی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، بلکہ کاشتکار مہنگی کھاد، پانی کی قلت، اور ناقص حکومتی پالیسیوں کا شکار رہے۔ صنعتوں کو بھی حکومت کی طرف سے مناسب سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر صنعتی بحران، فیکٹریوں کی بندش، اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔
8. عالمی مالیاتی اداروں پر حد سے زیادہ انحصار
ہر حکومت نے آئی ایم ایف (IMF) اور ورلڈ بینک سے قرض لینے کو ترجیح دی، مگر ان قرضوں کے ساتھ سخت شرائط بھی آئیں۔ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے معیشت آئی ایم ایف کی محتاج ہو گئی، جس نے پاکستان کی معاشی خودمختاری کو نقصان پہنچایا۔
کیا پاکستان کے معاشی زوال کے ذمہ دار نااہل حکمران تھے؟
جی ہاں! اگر ہم 1990 سے 2024 تک کے تمام حکمرانوں کا تجزیہ کریں، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر دور میں غلط معاشی پالیسیاں، کرپشن، اور ناقص حکمرانی معیشت کو نقصان پہنچاتی رہی۔
ثبوت کے طور پر چند اہم حقائق:
1990 کی دہائی → کرپشن، قرضوں پر انحصار، زراعت اور صنعت میں زوال۔
2000 کی دہائی → شوکت عزیز کے چند مثبت اقدامات، لیکن قرضوں میں اضافہ، نجکاری سے عوام پر بوجھ۔
2010 کی دہائی → توانائی بحران، مہنگائی، کرپشن، آئی ایم ایف پر انحصار۔
2020 کے بعد → ڈالر بے قابو، قرضوں کی معیشت، مہنگائی کا طوفان، ڈیفالٹ کا خطرہ۔
اگر ان 34 سالوں میں کوئی ایک بھی حکومت دیانت داری، دور اندیشی، اور مضبوط پالیسیوں کے ساتھ کام کرتی تو پاکستان کی معیشت اس قدر تباہ نہ ہوتی۔
نتیجہ:
پاکستان کے معاشی بحران کی سب سے بڑی وجہ نااہل حکمرانوں کی غلط پالیسیوں، کرپشن، اور مختصر المدتی فیصلے ہیں۔ اگر 1990 سے ہی ایک مستقل اور مضبوط معاشی پالیسی اپنائی جاتی، تو آج پاکستان ایک مستحکم معیشت کا حامل ملک ہوتا۔
تبصرہ لکھیے