جناب شاہ محمود قریشی کا ارشاد تازہ میرے سامنے رکھا ہے، فرماتے ہیں: ’’عمران خان کے بارے میں امریکی تحفظات دور کرنے کے لیے امریکی ایوان نمائندگان اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے‘‘. شاہ محمود قریشی کسی ناتراشیدہ صاحب سیاست کا نام نہیں، تحریک انصاف کے وائس چیئرمین ہیں اور وزیرخارجہ رہ چکے ہیں ۔ان کے اس بیان کو چاہوں بھی تو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ شاہ صاحب کوئی عام آدمی نہیں بہت بلند مرتبہ شخصیت ہیں، جماعت غوثیہ کے سربراہ ہیں، حضرت بہائوالدین زکریا کے دربار کے بتیسویں گدی نشین ہیں اور حقوق انسانی کے اس دور میں بھی مرید رکھتے ہیں اور مرید بھی ایسے جو ننگے پاؤں میلوں چل کر آتے ہیں، قبلہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہیں اور اور اپنے بچوں کا رزق قبلہ کے قدموں میں چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسی عالی مرتبت شخصیت کا ارشاد مبارکہ کوئی کیسے نظر انداز کرے؟ چند سوالات سر اٹھاتے ہیں اور سوالات کسی گدی نشیں کے نیم خواندہ مرید نہیں ہوتے کہ حد ادب کی لاٹھی سے ان کا سر کچل دیا جائے۔ سوالات ٹائیگر بھی نہیں ہوتے کہ انہیں ڈانٹ دیا جائے، خاموش بیٹھ جاؤ۔
پہلا سوال یہ ہے کہ عمران خان کے بارے میں امریکیوں کے وہ کون سے تحفظات تھے جنہیں دور کرنے کی شاہ محمود قریشی صاحب نے کو شش کی؟ اچھی بات ہے کہ اس اہم مشن میں کی گئی ملاقاتوں میں حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی لیکن قریشی صاحب پہلے اس پہلو پر روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے کہ امریکہ کے عمران خان کے بارے میں کون کون سے تحفظات ہیں؟ عمران خان سے امریکہ کو یہ خطرہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ بر سر اقتدار آ کر امریکہ کی مالی امداد بند کر دیں گے یا اس پر حملہ کرکے واشنگٹن کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ ان تحفظات کی نوعیت زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتی ہے کہ عمران ایک وطن پرست اور آزاد منش انسان ہے جو برسراقتدار آ گیا تو پہلے کے حکمرانوں کی طرح غلامی نہیں کرے گا بلکہ آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرے گا۔ اسے ڈکٹیٹ نہیں کیا جاسکے گا بلکہ برابری کی سطح پر بات کرنا پڑے گی، وہ مرعوب ہونے والا نہیں ہے، اس لیے قومی مفاد پر ڈٹ جائے گا اور اسے دباؤ میں نہیں لایا جا سکے گا، وہ ڈرون حملوں کا مخالف ہے اور امریکی زبان کے بجائے مقامی بیانیہ اختیارکیے ہوئے ہے۔ وہ ایک دبنگ انسان ہے جس نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر امریکی سفیر کو ڈانٹ پلا دی تھی کہ تم کون ہوتے ہو ہمارے معاملات میں بات کرنے والے تو ایسا آدمی نہ سر جھکا کر سنےگا نہ ہی کسی سحر زدہ معمول کی طرح امریکی اطاعت کرے گا۔ اس جیسے آدمی کے برسراقتدار آنے سے امریکی مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں. اب سوال یہ ہے کہ قبلہ شاہ محمود قریشی نے کیا یہ تحفظات دور کردیے؟ کیا انہوں نے امریکیوں کو بتا دیا کہ سب تو محض عوام کو دھوکہ دینے کے لیے تھا ورنہ عمران خان صاحب بھی واشنگٹن کے اتنے ہی تابع فرمان ہوں گے جتنے ان سے پہلے کے حکمران وفادار تھے؟ امریکہ کے تحفظات یقیناًیہ نہیں ہوں گے کہ عمران خان تیسری شادی کر رہے ہیں یا وہ قرار دے رہے ہیں کہ تیسری شادی محبت کی نہیں بلکہ بہنوں کی مرضی کی ہوگی۔ امریکہ کے تحفظات کا تعلق عمران کے واضح اور دوٹوک بیانات سے ہوگا جن میں ایک وطن پرست خود دار انسان کی برہمی جھلکتی ہے، تو کیا شاہ محمود قریشی نے یہ دور کر دیے؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ لوگ شاہ محمود قریشیوں اور جہانگیر ترینوں کے بوجھ کے باوجود عمران کو آج بھی پسند کرتے ہیں تو اس کی ایک وجہ عمران کی خود دار اور وطن پرست شخصیت کا تاثر بھی ہے۔ کیا وہ اس تاثر کی بھی نفی کرنا چاہتے ہیں ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین کوکیا ضرورت پیش آئی کہ وہ عمران خان کے بارے میں امریکی تحفظات دور کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں؟ کیا یہ اس بات کا اعلان ہے کہ تحریک انصاف اب شعوری طور اس حقیقت کو تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان میں اقتدار اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک امریکہ سے اجازت نہ مل جائے؟ یا تحریک انصاف عوام سے مایوس ہو چکی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اب اقتدار تک اسے صرف امریکہ ہی پہنچا سکتا ہے اس لیے اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے؟ ووٹ آپ نے عوام سے لینے ہیں اور تحفظات آپ امریکہ کے دور کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں؟ اگر یہ درست ہے کہ اقتدار امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں مل سکتا تو کیا عمران کو اس تاثر کی نفی کے لیے ایک مثالی جدوجہد کرنی چاہیے یا لائن میں لگ جانا چاہیے کہ واشنگٹن سرکار ایک دفعہ ہمیں بھی آزما کے دیکھو، ہمارے نعروں پر نہ جاؤ ہم بھی دیگر حکمرانوں کی طرح کمال فرمانبردار ثابت ہوں گے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کی حیثیت کیا ہے کہ وہ یہ تحفظات دور کرنے تشریف لے گئے ہیں؟ کیا وہ امریکہ کے خاص مقرب ہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی اٹھتا ہے کہ بطور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اس وقت مستعفی ہوئے جب ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ چل رہا تھا۔ ملتان میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے قریشی صاحب نے فرمایا تھا کہ ان کے استعفی کی وجہ یہ ہے کہ ان پر ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے دباؤ تھا لیکن ان کے ضمیر نے ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی وجوہات پرمعافی دینا گوارا نہ کیا اور انہوں نے استعفی دے دیا۔ اتنے دوٹوک موقف کے بعد تو امریکہ کے شاہ محمود قریشی کے بارے میں بھی تحفظات ہونے چاہییں تھے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی تحفطات نہیں بلکہ صاحب دوسروں کی صفائیاں دے رہے ہیں ۔ یہ کیا معاملہ ہے؟
آخری سوال یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں قریشی صاحب نے تحریک انصاف کی داخلی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اہمیت جتانے کی کوشش میں محض ایک کارروائی ڈالی ہو اور میرے جیسے سادہ لوح نے اس پر پورا کالم لکھ ڈالا؟ آدمی جہاندیدہ ہو تو کیا وہ جماعت میں صرف اس لیے پیچھے رہ جائے کہ اس کے پاس ہیلی کاپٹر نہیں ہے؟ ہیلی کاپٹر نہ سہی ذہن رسا تو ہے۔ ایک دفعہ عمران اس نفسیاتی دباؤ میں آجائیں کہ امریکہ کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے یا کچھ کہنے سننے کے لیے کوئی آدمی ہے تو وہ شاہ محمود قریشی ہے تو پھر شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف کا گدی نشین بننے سے کون روک سکتا ہے؟ قبلہ قریشی صاحب خود ہی کوئی شرح بیان فرمائیں تو ہم دنیا داروں کی کچھ رہنمائی ہو.
تبصرہ لکھیے