بلوچستان کی آبادی کا تقریباً آدھا حصہ بچوں پر مشتمل ہے، جن کی کل تعداد 72 سے زائد لاکھ ہے۔ ان میں سے 30 لاکھ (41%) بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، جو صوبے کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ صوبے میں 15,096 اسکولز رجسٹرڈ ہیں، لیکن ان میں سے 22 فصید (یعنی 3,321) مکمل طور پر بند پڑے ہیں، جبکہ 50 فصید (یعنی 7,548) اسکولز صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ 81% (یعنی 12,228) اسکولز صرف پرائمری سطح تک محدود ہیں، جس سے میڈل تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
صوبے میں اساتذہ کی کل تعداد 48841 ہے، لیکن 12000 اساتذہ کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ، 7,000 اساتذہ (15%) بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئٹہ میں تعینات ہیں، جس سے دور دراز علاقوں میں تعلیمی شرع مزید کم ہو جاتی ہیں۔ خواتین اساتذہ کی تعداد کل کا صرف 25% جو کہ (12,210) بنتی ہے، اور ان میں سے تقریباً 80% کویٹہ میں ہی ملازمت کر رہی ہیں۔ یہ عدم توازن دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولز کی شدید قلت کی اہم وجہ ہے۔
3,000 اسکولز چھت کے بغیر ہیں، جہاں بارش یا موسم کی خرابی کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہیں۔ 7,500 (75%) اسکولز ایک کمرے پر مشتمل ہیں، جبکہ 35 میں سے 22 اضلاع میں نصف سے زائد اسکولز ایک یا دو کمروں تک محدود ہیں۔ یہ صورتحال معیارِ تعلیم کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
حکومتی ٹیسٹ کے مطابق، پرائمری سطح کے صرف 26% بچے بنیادی جملے پڑھ سکتے ہیں، جن میں سے 30% ہی ریاضی کے بنیادی اصول (جیسے جمع/تفریق) سمجھتے ہیں۔ 4 لاکھ بچوں میں سے صرف 1.33 لاکھ تعلیمی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ بدقسمتی سے، 70% بچے پرائمری کے بعد اسکول چھوڑ دیتے ہیں، اور ہائی اسکول تک صرف 35 فیصد بچے پہنچ پاتے ہیں۔ ہائی اسکولوں میں نقل کا رواج کی وجہ سے یونیورسٹی تک صرف 1% بچے پہنچ جاتے ہیں
بلوچستان کا تعلیمی بجٹ 87 ارب روپے ہے، لیکن ترقیاتی اخراجات صرف 12 ارب روپے ہیں۔ صوبے کی خواندگی کی شرح 27% ہے، لیکن 7,000 تعلیم یافتہ نوجوان ہر سال روزگار کی تلاش میں بلوچستان چھوڑ جاتے ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں میں 31,607 افراد نقل مکانی کر چکے ہیں، کیونکہ صوبائی حکومت سالانہ صرف 20,000 نوکریاں فراہم کرتی ہے، جن میں سے 5,000 بھی تعلیم یافتہ افراد کے لیے نہیں ہیں۔
بلوچستان میں تعلیمی نظام کی بحالی نہ صرف شدت پسندی کو ختم کر سکتا ہے، بلکہ روزگار کے مواقع، صحت کے مسائل، اور معاشی عدم استحکام کو بھی حل کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اسکولز کی بحالی، اساتذہ کی تعیناتی میں توازن، لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ، اور روزگار کے منصوبوں کو تعلیم سے جوڑنا انتہائی ضروری ہے۔
تبصرہ لکھیے