ستی وہ بہیمانہ سماجی و مذہبی رسم ہے، جس میں عورت کو اس کے مرے ہوئے خاوند کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا ۔ ستی کی رسم صدیوں سے ہندو سماج میں موجود رہی ہے. تقریباً تمام ہندو مذہبی کتب میں ستی کے واقعات کا ذکر ہے ،اور عورت چاہے اونچی ذات سے ہو یا چھوٹی کی ذات کی ہو، اسے بہرحال بیوہ بننے کی صورت میں ستی کیا جاتا تھا ۔
ستی کی رسم میں عورت کو دلہن کی طرح سجا کر شوہر کی لاش کے ساتھ لٹا دیا جاتا اور زندہ جلا دیا جاتا ،یہ رسم اس قدر بہیمانہ تھی کہ اس میں اگر کوئی عورت رضا کارانہ طور پر تیار نہ ہوتی تو اسے رسیوں سے باندھ کر ستی کیا جاتا تھا ۔ عام طور پر مذہبی پروہت ،ستی کی رسم کو رضاکارانہ طور پر بیان کرتے تھ،ے حالانکہ حقیقت میں یہ ہمیشہ زور زبردستی ہوتی تھی ۔ ستی کی رسم کا سب سے پہلا ذکر ان یونانی تاریخ دانوں کی کتب میں آیا ہے.
جب سکندر اعظم ہندوستان تک پورس کی لڑائی میں آیا تھا تو اس کے ساتھ یونانی تاریخ دان نے ایسے مقامی ہندو راجہ کا ذکر کیا ہے، جس کے مرنے کی صورت میں اس کی دو بیویوں میں سے چھوٹی والی کو ستی کیا گیا کیونکہ بڑی والی حمل سے تھی ۔ مہا بھارت اور رگ وید میں ستی کی رسم کو گلوریفکیشن کی گئی ہے کہ جو عورت ستی ہونا قبول کرتی ہے تو وہ ہمیشہ سوورگ یعنی جنت میں رہتی ہے ۔ستی کی رسم اجتماعی بھی ہوتی تھی، ایسے بھی واقعات ہیں جس میں ایک مرد کے مرنے پر اس کی چار بیویوں کو ستی کر دیا گیا ہو ۔
یہاں تک کہ بارہ سال کی لڑکی کا جب بڑی عمر کا خاوند کسی بھی وجہ سے مر جاتا تو اسے بھی شوہر کے ساتھ ستی کر دیا جاتا۔ ستی کرتے ہوئے عورت شوہر کے چپلوں کو گلے میں ڈال کر زندہ جلا دیا جاتا ۔ اگر کوئی بیوہ حیض سے ہوتی تو حیض کے بعد اسے ستی کیا جاتا اور اگر کوئی حاملہ عورت بیوہ ہو جاتی تو وضع حمل کے بعد اسے ستی کیا جاتا ۔ ستی کی رسم سے اگر کوئی بیوہ بھاگنے کی کوشش کرتی تو پورا سماج اس کا بائیکاٹ کرتا. اس کے بال کاٹ دئے جاتے اور اسے نہایت غلیظ کھانے کے ساتھ دور دراز جگہوں پر رہنا پڑتا جیسا کہ ہم نے شبانہ اعظمی کی فلم واٹر میں دیکھا تھا ۔
گویا بیوہ عورت کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو ستی ہو جائے یا پھر سماجی سطح پر بائیکاٹ کے لیے تیار رہے ۔مسخ شدہ مذہبی متون میں ستی کی گلوریفکیشن کی وجہ سے بھگت مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس انسانیت سوز رسم کو گلوریفائی کریں،جیسا کہ ہمیں پدماوت فلم میں اجتماعی رضآ کارانہ ستی کو جوہر کا نام دے کر گلوریفائی کیا گیا ۔ مغل دور میں اکبر کو چھوڑ کر باقی تمام مغل حکمرانوں نے اس رسم کو محدود کرنے کی کوشش کیں. اگرچیکہ پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ ترکوں کی آمد کے بعد سے ہندوستان میں ستی کی رسم میں اضافہ ہوا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس رہی اور مسلم سیاسی طاقت نے اس رسم کو محدود کیا ۔
کالونیل ایرا میں بھی انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس بہیمانہ رسم پر پابندی عائد کر دی تھی. لیکن کہیں نہ کہیں ہندوستان میں یہ رسم 37 سال پہلے تک جاری رہی ،اب بھی خدشہ ہے کہ اگر سیکولر انڈیا ہندووتوا بھارت میں ڈھلتا ہے اور ہندو راشٹریہ بنتا ہے تو قوی امکان ہے کہ یہ انسانیت سوز رسم دوبارہ زندہ ہونے لگے گی ۔
تبصرہ لکھیے