ہوم << یہ بھی گمراہ ہو گیا - محمد سلیم

یہ بھی گمراہ ہو گیا - محمد سلیم

ہر وہ عالم و فاضل شخص جو اپنے اکابرین کی لکھی ہوئی کتابوں سے ذرا ہٹ کر بات کرے، اسے علماء یا نمائندہ علماء گمراہ قرار دیتے ہیں۔ گویا اصول بس اتنا سا ہے کہ جو کچھ اکابرین (اپنی ڈومین میں رہ کر یا کسی اور ڈومین میں اپنی عقل کے مطابق) لکھ گئے، آنے والے طلباء اسی کو بعینیہ پڑھیں گے اور اسے ہی پڑھ کر ڈگری پائیں گے اور آگے چل کر اسے ہی پڑھائیں گے۔

کوئی امت کو جوڑنے کا خواب دیکھنے والا، مسلک کی عینک اتار دے اور اسلامی تعلیمات پر چلنا شروع کرنا چاہے یا دوسرے لفظوں میں اپنے اکابرین کی سوچ سے ہٹ کر اور ان کی لکھی گئی کتابوں سے ذرا رو گرادانی کرتے ہوئے کچھ کرے، کہے یا بول دے تو اسے گمراہ کہا جائیگا بھلے وہ کتنا بڑا رتبہ ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔ یہ سب کچھ کرنا اتنا آسان تو نہیں ہے مگر قبر میں پاؤں لٹکائے کوئی بندہ آخری عمر میں حق کا اعتراف کرنا چاہے تو سب سے پہلے اسے سوچنا ہوگا کہ باقی ماندہ زندگی کے لیے اس کے پاس بینک بیلینس اور پس انداز کیا ہوا مال و متاب کافی ہے یا نہیں؟ کیونکہ سب سے پہلے تو وہ اپنے معتقدین، چندہ دینے والے کھوئے گا، اپنے چھوٹے یا بڑے منصب سے ہاتھ دھوئے گا، اپنی روزی روٹی سے جائیگا۔ اس سے زیادہ سوچیں تو اپنی گھر والی سے بھی جائیگا، تنہا ہوگا، گمنامی میں مرے گا۔

چند دن پہلے ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ مذہبی حلقوں میں بہت بڑا بھونچال پیدا کرے گا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ خبر بھی ایسی دبی ہے کہ کسی جگہ اس کا تذکرہ تک نہیں سنا اور دیکھا گیا۔ جی میں بات کر رہا ہوں جناب ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب کی: جنہوں نے بر سر منبر اور اپنے پورے ہوش و حواس میں برملا فرمایا کہ وہ اب اس تکفیری سوچ سے براؑت کا اعلان کرتے ہیں جس پر وہ ساری عمر چلتے رہے ہیں۔ گویا وہ سمجھ گئے کہ سوالا جوابا لکھی گئی دو مشہور زمانہ کتابیں بالکل ویسے ہی شکایتی خط تھے جو دو لڑاکا طالب علم اپنے آپ کو سچا اور دھنتر ثابت کرنے کے لیے بڑے استاد کو شکایتی درخواست میں لکھتے ہیں۔

یہ دو کتابیں بنیادی عقیدے کی کتابیں ہرگز نہیں تھیں بلکہ اس وقت، حرم کے گدی نشینوں کی نظر میں اپنے آپ کو رضی اللہ عنہ ثابت کرنے اور دوسرے کو ک ا ف ر ثابت کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ ان دو کتابوں کا پاکستان کے اسلام پر شاید اتنا بڑا ظاہری اثر نہ ہو لیکن ہندوستان میں دیکھ لیجیے کہ کتنا بگاڑ پیدا ہوا ہے؛ لوگوں کو انہی دو کتابوں کو بنیاد بنا کر جنازوں سے باہر نکال دیا جاتا ہے، نکاح و شادی کی تقریب سے نکال باہر کیا جاتا ہے، کسی دوسری طرف والے کا جنازہ پڑھ لینے پر سارے کے سارے گاؤں کا نکاح فاسد قرار دیا جاتا ہے اور دوبارہ نکاح کرنے کا کہا جاتا ہے، اپنے اپنے منابر سے دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ لگتا ہے اس حالیہ واقعے کے تناظر میں بھی موجودہ اکابرین نے یہی کچھ فرمایا ہوگا کہ چھوڑو، اس بندے کا ذکر ہی نہ کرو، یہ بھی گمراہ ہو گیا ہے۔

ثانویا:
01: درجہ بندی کے لحاظ سے علامہ طاہر القادری صاحب اس مسلک میں شاید اتنا بڑا درجہ نہ رکھتے ہوں جتنا بڑا حضرت مفتی منیب الرحمان صاحب کا ہے۔ (دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر) ایک نماز پڑھنے پر انہیں ان کے ہم رتبہ علماء نے نہیں بلکہ کئی چھوٹے چھوٹے خطیبوں نے بھی آڑے ہاتھوں لیا، ان پر بد دین ہو جانے کا فتوی لگایا اور تجدید نکاح کا کہا۔

02: ابھی چند روز پہلے ایک ہی مسلک کے دو دھڑوں میں مناظرہ ہوا ہے۔ بعد از مناظرہ گفتگو کی ویڈیوز سن لیجیے، فریقین اپنے آپ کو فاتح اور دوسرے کو شکست خوردہ کہہ رہے ہیں، ایک دوسرے کو حیضی بچے، پنڈی کے کوے اور دیگر بازاری گالیاں اور خطابات دے رہے ہیں۔

03: اس پار والوں کا بھی سنا ہے کہ ان کے ایک بڑے شیخ کو بھی اپنے نچلے خطیبوں کی طرف سے جواب طلبی کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ انہوں نے ایسی جگہ امامت ہی کیوں کرائی جس میں ان کے پیچھے بد مذہب کھڑے تھے۔

04: ایک بار سنا ہے کہ ایئر پورٹ پر ایک اس طرف والوں کے بڑے عالم کو دیکھ کر صرف سلام کرنے اور ہاتھ ملانے پر ایک مشہور نعت خواہ کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ کئی وضاحتیں دینا پڑیں بلکہ ایک دلیل یہ بھی مارکیٹ میں لانچ کی گئی تھی کہ سلام تو کر رہے تھے مگر دل میں اسے بد مذہب اور گستاخ ہی سمجھ رہے تھے۔

05: ساری عمر ایک مسلک کا سپوک پرسن رہے، پاکستان بھر میں پہلے نمبر کے مناظر رہے، ہمیشہ ناقابل شکست رہے۔ لیکن آخری عمر میں ان کے بارے میں بھی یہی تاثر دیا کہ گمراہ ہو گئے تھے، مسلک سے ہٹ کر دین پر عمل کرنا شروع ہو گئے تھے۔