ہوم << کیا آپ کا شمار بھی حاسدوں میں ہوتا ہے؟ افشاں نوید

کیا آپ کا شمار بھی حاسدوں میں ہوتا ہے؟ افشاں نوید

ایک لڑکی نے اپنی ویڈیو شیئر کی، رشتہ دار خواتین شادی سے قبل تقریب میں اس کو پھول پیش کر رہی ہیں، کمرہ بھرا ہے مہمانوں سے، مل کر خوشی کے گیت گا رہی ہیں۔ اس پر سینکڑوں لوگوں نے کمنٹس کیے. پچانوے فیصد نے اس حسرت کے اظہار کیا کہ ایسے رشتہ دار کہاں پائے جاتے ہیں؟ بیشتر نے کہا کہ ہم تو اپنی خوشیوں کو رشتہ داروں سے چھپاتے ہیں کہیں ان کا حسد نہ کھا جائے۔ کئی نے کہا:" ہمارے قریبی رشتہ دار بڑے ایونٹس کے موقع پر ضروری کوئی نہ کوئی اپ سیٹ کرتے ہیں اور پرانی دشمنیاں نکال کر تقریب کا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں"۔

یہ سچ ہے کہ بہت سے رشتہ داروں کی حقیقت بڑی تقاریب کے موقع پہ کھلتی ہے۔ شرکت سے انکار کر دیتے ہیں۔ دوسروں سے شکایت کراتے ہیں کہ فلاں موقع پر ہم نے بھی سرد مہری دکھائی تھی۔ تقریب میں آ کر نامناسب رویے سے لوگوں کے دل کاٹ دیتے ہیں۔ اس لیے خاندان کا کوئی فرد کبھی کبھی ان کی نگرانی کے لیے لگایا جاتا ہے کہ وہ کس سے مل رہے ہیں اور کیا بات کر رہے ہیں۔ہمارے خاندان کے ایک داماد کہتے تھے کہ میری غیر موجودگی میں بارات رخصت نہیں ہوگی۔ یاد رہے پہلے باراتی دولہا کے گھر جمع ہوتے تھے اور وہاں سے بارات کی شکل میں روانہ ہوتے۔ وہ داماد آنے میں اتنی دیر لگاتے تھے کہ سارے رشتہ دار زچ ہو جاتے تھے۔ ایسے پھوپھا,چچی,خالو,ممانی یا داماد ہر خاندان میں پائے جاتے ہیں۔

ایک بات تو یہ کہ جب ہم ایونٹ پلان کر رہے ہوں تو اپنی پلاننگ میں ان کی ہینڈلنگ کو بھی شامل کرنا چاہیے ، مثلا قبل از وقت ان کو راضی کرنے کے لیے کوئی تحفہ بھیج دیں۔ ان سے مل کر کہنے میں کیا حرج ہے کہ خوشی کی یہ خبر سب سے پہلے آپ ہی کو سنا رہے ہیں۔ ہمیں پتا ہے آپ ہمارے لیے کتنی دعا کرتے ہیں۔ جواب میں آپ کو کبھی یہ سننے کو نہیں ملے گا کہ" ہم نے تو کبھی آپ کے لیے دعا نہیں کی"۔ ان کو چائے پر بلا لیں۔ اور پھر یہ کہ ان کو نظر انداز کرنے کے لیے حوصلے اور صبر کی اللہ سے دعا کی جائے کہ ان کے شر سے آپ کی تقریب متاثر نہ ہو۔ اللہ ان کے دل کو بھی وسعت عطا فرما دے۔

دوسری بات یہ کہ وہ رشتہ دار جو دوسروں کو خوشیاں دے کر ان کا مان بڑھاتے ہیں وہ تو ہم خود ہیں۔ ہم کتنا آگے بڑھ کر کسی کو خوشی دیتے ہیں۔ دوسرے کی کسی بڑی کامیابی کا پتہ چلتا ہے تو دل بے چین سا ہو جاتا ہے۔ ہمارا انداز تجسس کا ہوتا ہے یا دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ ہم مبارکباد دینے میں پہل کرتے ہیں۔ ہم الفاظ کے معاملے میں بخیل نہ ہوں ۔ دوسروں کا دل جیتنے کے لیے اچھے الفاظ کا ذخیرہ، اس کے لیے کب ڈالر یا درہم خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اکثر نوجوانوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کے ہم عمر کزن ان کی کامیابیوں سے حسد کرتے ہیں۔ ہم حسد کر کے اپنے آپ کو چھوٹا کر لیتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اقرار نہیں کرے گا کہ میں حاسد ہوں لیکن دوسرے کی خوشی یا کامیابی کی خبر پر دل تنگ ہو جانا یہ حسد کی علامت ہے۔

اللہ اکبر۔۔۔۔۔ اللہ نے انہیں خوشی دی ہے۔۔ ہمارے دلی کیفیت بھی وہ رب جانتا ہے۔۔۔ ہم خوش ہوں گے تو اللہ خوشی ہمیں بھی دے گا۔۔۔ ہر ایک کو نعمتیں الگ انداز میں دی گئی ہیں۔۔ یہ اس کی تقسیم ہے۔۔۔ اگر کسی کی بیٹی کی شادی بہت پوش گھرانے میں ہوئی ہے تو ممکن ہے آپ کی بچی اس سے زیادہ ذہین, تہذیب یافتہ یا فرمانبردار ہو۔۔۔ اگر کسی کو اللہ نے اتنا دیا ہے کہ وہ فراغت کے موقع پر بیرون ملک تفریح مناتے ہیں تو آپ کے گھر میں ازواج کی ہم آہنگی اس روئے زمین کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔۔۔ اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں یہ خریدی نہیں جا سکتی۔۔۔ نند یا جیٹھ کے بیٹے کو وائٹ کالر جاب ملی ہے، ممکن ہے آپ کے مال میں برکت زیادہ ہو۔۔۔ آپ کا بیٹا زیادہ دین دار ہے۔۔۔ ہمارے اطراف کتنی خوشحال مائیں اپنے بچوں کی دین داری کے حوالے سے بے حد فکر مند دکھائی دیتی ہیں۔۔۔ مادیت کے مقابلے میں تہذیب و اخلاق بہت اہمیت رکھتا ہے ۔۔

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ جو دینے والے لوگ ہوتے ہیں وہ لینے کی فکروں میں نہیں گھلتے۔۔ ان کے پاس دینے سے وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ لینے کی آس میں زندگی کی قیمتی گھڑیاں گنوائیں۔۔ ہم دوسروں کو خوشی دیتے ہیں تو ہمیں اس سے زیادہ جھولیاں بھر کے ملتی ہیں۔۔ اور جب ہم توقعات کے بیج بوتے ہیں اکثر زمین سیم زدہ نکلتی ہے۔