ہوم << سچیر بالاجی کی پرسرار موت اور ٹریلین ڈالرز کا کھیل - اسماعیل صدیقی

سچیر بالاجی کی پرسرار موت اور ٹریلین ڈالرز کا کھیل - اسماعیل صدیقی

چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کے ریسرچر اور اس کے خلاف گواہی دینے والے whistle blower ہندستانی نژاد سچیر بالاجی اپنی چھبیسویں سالگرہ کے اگلے دن چھبیس نومبر ۲۰۲۴ کو سان فرانسسکو میں اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ پائے گئے تھے ۔ ان کے ماتھے پر گولی کے زخم کا نشان تھا ۔ سان فرانسسکو پولیس نے ان کی موت کو فوری طور خود کشی قرار دے کر کیس بند کردیا تھا۔ اس کے بعد سچیر کے والدین نے پرائیوٹ انویسٹی گیٹر کی خدمات لیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ جائے وقوعہ پر واضح طور پر سچیر کی مزاحمت کے آثار ملے ہیں ۔ سچیر کے والدین قطعی طور پر اس کو خودکشی ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ایک رات پہلے ہی ان کی سچیر سے بات ہوئی تھی اور وہ مطمئن اور خوش تھا۔ سان فرانسسکو پولیس کا یہ عمل اس لیے بھی حیرت انگیز تھا کہ سچیر بالا جی نیویارک ٹائمز کے ایک ہائی پروفائل مقدمے میں ایک اہم ترین ممکنہ گواہ بن سکتے تھے جو نیویارک ٹائمز نے اوپن اے آئی کے خلاف اس کے کاپی رائیٹڈ مواد کے استعمال کے خلاف دائر کیا ہوا تھا ۔

سچیر نے اگست ۲۰۲۴ میں اوپن اے آئی سے اختلاف کرتے ہوئے اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دیتے ہوئے اس کے خلاف whislte blower بننے کا فیصلہ کیا تھا ۔جیسا کہ اوپن اے آئی کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کے وجود کا بنیادی مقصد ایک شفاف اور اوپن سورس مصنوعی ذہانت دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا ، مگر اپنے اس مقصد سے رو گردانی کرتے ہوئے اوپن اے آئی نے اپنے آپ کو ایک منافع بخش کمپنی میں بدل لیا ۔

سچیر بالاجی نے اکتوبر میں نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اوپن اے آئی اپنے ماڈلز کی ٹریننگ کے لیے کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیٹا کا حصول کرتا ہے ۔ دس اکتوبر ۲۰۲۴ کو سچیر نے اپنی ذاتی ویب سائیٹ پر ایک تفصیلی آرٹیکل پوسٹ کیا تھا کہ اوپن اے آئی کے ڈیٹا کا حصول ڈیجیٹل کانٹینٹ کے fair use کے امریکی قانون کے مطابق نہیں ہے ۔اوپن اے آئی کی سابقہ سی ٹی او میرا مورتی سے جب وال اسٹریٹ جنرل نے یہ سوال کیا کہ اوپن اے آئی ٹریننگ کے لیے ڈیٹا کا حصول کہاں سے کرتا ہے تو وہ اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکیں ۔

یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اوپن اے آئی کا ڈیٹا کہاں سے آتا ہے ۔ بگ ٹیک کو ہمیشہ سے قانون سے کھیلنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور اس حوالے سے امریکی حکومت کے ارکان آنکھیں ہی بند نہیں کیں بلکہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ قطعی نابلد معلوم ہوتے ہیں اور ان کی جہالت کا اظہار امریکی کانگریس میں بگ ٹیک کے نمائندوں کی پیشی اور ان سے سوالات سے ہوتا رہتا ہے ۔ سچیر بالاجی بہرحال گھر کے بھیدی تھے اور چیٹ جی بی ٹی کی فائن ٹیوننگ میں ان کا اہم کردار تھا ۔اوپن اے آئی کی پریکٹسز کے خلاف ان کی گواہی اوپن اے آئی کو روک تو شاید نہ پاتی مگر ٹریلن ڈالرز کے اس دھندے میں بدمزگی اور رکاوٹ ضرور پیدا کرتی ۔

اوپن اے آئی کے ابتدائی سرمایہ کاروں میں ایلون مسک بھی شامل تھے جنہوں نے بعد میں اوپن اے آئی کے موجودہ سی ای او سیم آلٹمین سے اختلاف کے بعد اپنا سرمایہ نکال لیا تھا ۔ ایلون نے بھی اوپن اے آئی کے منافع بخش کمپنی میں بدلنے کے خلاف مقدمہ کر رکھا ہے مگر سیم آلٹمین کا کہنا یہ ہے کہ ایلون کا مسئلہ اوپن اے آئی کے منافع بخش ہونے سے نہیں ہے، بلکہ ایلون پوری کمپنی کو ہڑپ کرنا چاہتے تھے ۔ سیم آلٹمین کی یہ بات قرین قیاس لگتی ہے ۔

سچیر بالاجی کی موت کے بعد ایلون مسک نے ایف بی آئی سے سچیر کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے جو یقینا سیم آلٹمین سے اپنا پرانا حساب چکانا چاہتے ہیں اور اے آئی کے ٹریلین ڈالزر کے اس کھیل میں اپنا حصہ بڑھانا چاہتے ہیں۔

Comments

اسماعیل صدیقی

اسماعیل صدیقی نیویارک میں مقیم ہیں، بچوں کے معروف مصنف ہیں اور “بن یامین” کے قلمی نام سے بچوں کےلیے کہانیاں لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں کئی ایوارڈز جیت چکی ہیں، جن میں یونیسف کے اعزازات بھی شامل ہیں۔ ان کی مقبول کہانی ”طلسم کوڈ ربا “ بچوں کے لیے اردو کی پہلی مصنوعی ذہانت پر مبنی ناول کی شکل میں مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ زمانہ طالب علمی میں بچوں کے ماہانہ رسالہ ”ساتھی“ کی مجلسِ ادارت کا حصہ رہ چکے ہیں۔

Click here to post a comment