مجھے احسان کا فون آیا کہ :
"دو دن کے لیے قطر چلتے ہیں اور پھر آگے ہفتے بھر کے لیے سعودی عرب عمرہ کرنے چلتے ہیں " ۔
ایسی بےتکلفی سے کہا کہ جیسے ہمارے دوست کہتے ہیں کہ
آؤ مدینے چلیں .... اسی مہینے چلیں
احسان نے بتایا کہ سفر میں ان کے والد سعید مغل صاحب اور ثناء اللہ خان صاحب بھی ہمراہ ہوں گے ۔ میں ابھی اکتوبر میں سعودیہ گیا تھا ،سو میرا جی تھا کہ رمضان المبارک میں جائیں گے کہ برادر عزیز عبدالسلام نے وہاں دو ماہ کے لیے جانا اور قیام کرنا طے کر رکھا تھا ۔ سو احسان کو کہا کہ :
" یار میرا تو دل ہے کہ مارچ میں جاؤں اور وہاں عبدالسلام صاحب کا ساتھ ہو اور یوں وقت گزرے ، کہ مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے .
یہاں خرابات سے مراد ایک یار رند کی ہم نشینی ہے ، عبدالسلام کے ساتھ میرا چار عشروں کا یارانہ ہے جو پچھلے اڑھائی برس سے رشتے داری میں بھی بدل چکا ہے لیکن ہم دونوں نے اس رشتے داری کو کبھی سر پر سوار نہیں کیا بلکہ جب جب بھی اس نے سوار ہونا چاہا تو سر جھٹک کر دوستانہ الفت کو برقرار رکھا ۔ احسان کا فون بند کرنے کے بعد مگر دل کی کیفیت بدل گئی کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی ۔ اور ہم کیسے پیاسے ہوئے کہ شبنم مل رہی ہے اور منہ موڑے جا رہے ہیں ۔ سو جوابی فون کیا کہ " یار چلتے ہیں " ۔
تیاری کو صرف چند روز کا ہی وقت تھا ، سب کچھ سمیٹا اور اکتیس دسمبر کو صبحِ دم نکل پڑے ۔ مسیب قدوسی کے ہمراہ نماز فجر ادا کی اور لاہور ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے ۔ گمان تھا کہ راہ میں دھند ہو گی اور شائد پہنچنے میں وقت زیادہ لگ جائے لیکن لاہور جیسے محبوب کی گلیوں کی مانند روشن تھا کہ جہاں محبت کی پہلی کرن پھوٹتی نہیں ہر ہر وقت تازہ اور روشن رہتی ہے ۔
ثناء اللہ خان صاحب کہ ہر شعبے میں اپنے " مرید " رکھتے ہیں یہاں بھی ایئرپورٹ داخل ہوتے ہی ایک آفیسر ساتھ ہو لیا اور اک نوجوان نے ہمارا تمام سامان ٹرالی پر لادا اور ہم پورے "پروٹوکول" کے ساتھ اندر داخل ہوئے ۔ اس پروٹوکول کا بھی اپنا ہی مزہ ہے ، نہیں مزہ نہیں بلکہ نشہ ہے ۔ لاہور ائیرپورٹ سے باہر نکلنے کے مراحل اچھے خاصے الجھن زدہ ہوتے ہیں جبکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں یہ کیفیت نہیں ہوتی ۔
احتیاط ضرور ہوتی ہے لیکن بےسبب قسم کی رکاوٹیں نہیں ہوتیں جبکہ یہاں احتیاط کے ساتھ ساتھ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں ۔ لیکن آج سب کچھ آسان سا لگ رہا تھا ۔ لمبی قطاروں کے پہلو بہ پہلو ، الگ کاؤنٹر سے وی آئی پی پروٹوکول سے گزرتے ہوئے مال روڈ کی وہ لمبی قطاریں یاد آ رہی تھیں کہ جب ہم عوام انتظار کرتے ہیں کہ کب وہ گزریں اور تب ہم گزریں ۔
قطر ائیرویز کا طیارہ رن وے پر موجود تھا ، اور ہم اذن کے منتظر کہ کب حکم سفر ہو اور ہم مسافر ہو جائیں ۔ ہم لاونج کے ایک کونے میں دبکے بیٹھے تھے کہ سرراہ گزر بیٹھنے میں نری مصیبت ہے ۔ انسان نہ بھی چاہے تو نگاہیں اُس حسن سے دوچار ہو ہی جاتی ہیں کہ جو آج کل اپنی رونمائی کے لیے کچھ زیادہ ہی بےتاب ہوا پڑتا ہے ۔ فیض نے تو اس حسن کی محض رونمائی کو ہی موسم گل قرار دیا تھا اور یہاں ائیرپورٹ کا ائیرپورٹ ہی گلستان ہوا پڑا تھا :
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
مجھ پر تو ایک دم تقوی سا طاری ہوا اور راہ داری سے کچھ دور نصب نشستوں کی طرف اشارہ کیا کہ ادھر بیٹھتے ہیں کیونکہ:
" عالم یہ شوق کا دیکھا نہ جائے "
لیکن وہاں بیٹھے اور منہ دیوار کی طرف کیا ہی تھا کہ
صاف چھپتے بھی سامنے آتے بھی نہیں ۔ اب بندہ کرے تو کیا کرے کہ جب منظر یہ ہوا پڑا تھا کہ
جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے
اسی بیچ ایک بی بی دکھائی دی کہ پاکستانی شلوار قمیض میں ملبوس وقار سے چلی آ رہی ہیں تو میں اسی سوچ میں تھا کہ خرابیاں جنم لیتی ہیں اور پھر اتنا عام ہو جاتی ہیں کہ برائی برائی نہیں رہتی اور اچھائی اجنبی ہو جاتی ہے ۔ وہ خاتون اس لباس حیا میں نمایاں تھی کیونکہ آس پاس پھرتی سب خواتین عموماً تنگ جینز میں قید تھیں ۔ ویسے تو محض آنکھیں بھی پارسائی واسطے زہر قاتل سے کم نہیں ہوتیں :
دیکھ لے شیخ گر تیری آنکھیں
پارسائی خراب ہو جائے
ہم چاروں میں سے ہر ایک کے پاس ایک بڑا بیگ اور ساتھ ایک چھوٹا " ہینڈ کیری " تھا اور ہم معمول کے لباس میں ملبوس تھے لیکن جب کبھی سعودیہ کی فلائٹ ہوتی ہے تو ہر طرف سفید اجلے احرام میں ملبوس حاجی دکھائی دیتے ہیں ۔ اس روز لاہور ائیر پورٹ پر کوئی خاص رونق نہیں تھی ، بظاہر دکھائی دے رہا تھا کہ اس وقت اک یہی فلائٹ جانے کو ہے ۔
کچھ ہی دیر بیٹھے تھے کہ اعلان ہوا قطر جانے والے مسافر فلاں دروازے کی طرف آ جائیں ۔ سو ہم نے سامان سنبھالا اور ادھر چل پڑے ۔ کلیجی رنگ کی یونیفارم میں ملبوس ائیر ہوسٹس چہرے پر مسکراہٹ سجائے سب کا استقبال اور نشستوں کی طرف رہنمائی کر رہی تھیں ۔ یہ ایک بڑا جہاز تھا جس میں ایک قطار میں دس مسافروں کے لئے نشستیں نصب تھیں اور برصغیر کی تقسیم کی مانند تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے بیچ میں چلنے کے لیے دو راستے بنائے ہوئے تھے ، افسوس مگر یہ کہ ہمارے بیچ میں راستے بند ہیں ۔ میرا گمان تھا کہ پانچ سو افراد کی گنجائش کا طیارہ تھا ۔
کچھ ہی دیر میں مسافر پورے ہوئے اور دروازے بند کر دیئے گئے اور طیارے نے رن وے پر رینگنا شروع کیا ، ابھی تو سجدہ سہو کرتے ہوئے پیچھے کو چل رہا تھا ۔ کہتے ہیں کہ طیاروں میں پچھلی سمت حرکت کے لیے گئر نہیں ہوتا اور اس حرکت کے لیے اس کو طاقتور گاڑیوں کی مدد سے اس کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ بات صرف سنی ہوئی ہے اور بس ۔۔۔ .
طیارہ زمین پر رفتار پکڑ رہا تھا اور حرکت تیز تر ہوتی چلی جا رہی تھی کہ یکبارگی ہوا میں زقند بھر گیا اور اب ہم ہؤا میں تھے ۔
میرے ہم سفر ثناء اللہ خان صاحب تھے کہ جو عمر میں ہم سب سے بڑے لیکن حوصلے میں جوان ہیں ، سرخ و سپید چہرے پر طویل سفید داڑھی اور لامبا قد خوبصورتی سے کچھ بڑھ کر وقار میں اضافے کا سبب تھا ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے اس سفر کے امیر ہیں ، اور پھر تمام سفر ان کو امیر صاحب ہی کہتا رہا ۔ اور وہ اس عہدے سے انکاری ہی رہے اور مجھے امیر صاحب کہتے رہے ۔
ہاں مگر من تُرا حاجی بَگویَم تُو مُرا حاجی بَگو والا معاملہ نہ تھا ، محض ایک محبت اور دل لگی کا اظہار تھا ۔ ہمارے دوسرے ہم سفر سعید صاحب احسان کے والد اور میرے سمدھی ہیں ، جو بہت مہمان نواز اور ڈھیر ساری خوبیوں کے مالک ہیں اور سفر کے بڑے اچھے ساتھی بھی ثابت ہوئے ۔ ان دونوں احباب کا اصل تعارف احسان آئی فری ہاسپٹل ہے ۔ جو پچھلے تیس برس سے لاہور میں آنکھوں کے علاج کے حوالے سے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے ۔ احسان ہاسپٹل میں روزانہ تقریباً ایک ہزار مریضوں کا طبی معائنہ کیا جاتا ہے اور نوے سے پچانوے آپریشن بھی روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔
اور یہ سب کچھ مفت کیا جاتا ہے اگر کوئی چاہے تو اپنی مرضی سے پیسے دے سکتا ہے ورنہ اتنا کہنا کافی رہتا ہے کہ�
" مریض حقدار ہے ۔"
اور پچھلے تیس برس سے ثنا اللہ خان صاحب صبح کے وقت ہسپتال آتے ہیں اور شام ڈھلے گھر جاتے ہیں اسی طرح سعید مغل صاحب بھی دوپہر دو بجے تک ہاسپٹل میں رہتے ہیں اور ہسپتال کے مالی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں ۔یہ دونوں صاحبان اور ان کی ٹیم پچھلے تیس برس سے یہ خدمات بغیر ایک روپیہ تنخواہ لیے سرانجام دے رہی ہے ۔
تبصرہ لکھیے