" یازار " بچپن سے ہی دوسرے گھوڑوں سے بہت مختلف تھا۔ وہ اپنی مختلف چال کی وجہ سے منفرد اور پروقار لگتا تھا۔ دوڑتے ہوئے وہ لمبی چھلانگیں لگاتا اور دیکھنے میں بہت ہی دلکش لگتا تھا۔ اس میں پورے جوبن پر آنے سے پہلے ہی ایسی خصلتیں تھیں جو دیکھنے والوں کا دل موہ لیتی تھیں۔ اسے دیکھے بنا، اسکے قدموں کی چاپ سن کر میں اسے پہچان لیتا تھا۔
اس کی گہرے بھورے رنگ کی مخملی جلد اور فخریہ چال اسے شاہانہ عظمت دیتی تھیں۔ اسکے بچپن میں ہم نے اسے دازار کا نام دیا اور جب وہ جوان ہوا تب اس کا نام دبی میلینیئم کے نام سے تبدیل کر دیا گیا۔ وہ گھڑ دوڑ کا ماہر تھا جس نے میرے دل پر قبضہ کر لیا۔ جب اس کی عمر دو سال تھی میں نے اسے برطانیہ کی نئی گھڑ دوڑ منڈی میں گھاس پر دوڑ کی آزمائش کے لیے بھیجا۔ اس نے بہار وہاں گزاری اور اکتوبر کے شروع میں دوڑ کی ابتداء کی۔ ابتداء حیران کن تھی۔ وہ آزمائشی دوڑوں میں "ڈون کاسٹر " اور "گڈو وڈ" دوڑوں میں شامل ہوا اور تمام میں کامیابی حاصل کی۔ یہ دوڑیں گھوڑوں کو ایپسم ڈربی کے لیے تیار کرتی ہیں۔ پھر اس نے ایسکوٹ میں ملکہ برطانیہ الزبتھ 11 سٹیکس میں حصہ لیا اور وہ بھی جیت لیا۔ اس کے علاوہ اس نے فرانس میں دوڑیں جیتیں جن میں چوٹی کے گھڑ دوڑ گھوڑے شامل تھے۔
دبی ملینیئم وہ گھوڑا تھا جو جیت کو پسند کرتا تھا مگر اس کے لیے اس کی اپنی شرائط تھیں۔ وہ تب ہی دوڑ لگا تا جب وہ باور کرتا کہ بالکل ٹھیک ہے اور اپنے سوار کی سنے بغیر۔ وہ بالکل مختلف تھا اور دوڑ کے شروع میں ہی اپنی رفتار تیز کر دیتا تھا۔ وہ جیت کو پسند کرتا تھا مگر تھوڑی حیرانی کے ساتھ۔ وہ دکھاوے کو پسند کرتا تھا۔ وہ ابتداء ہی میں اپنے مقابل کے عزم کو توڑ دیتا تھا۔ دراصل وہ اپنے مقابل کو روند دیتا تھا اور وہ آئندہ اس طرح کی دوڑ کے قابل نہیں رہتا تھا۔ وہ کبھی برابر دوڑ نہیں لگاتا تھا وہ باہر ہٹ کر کھڑا ہونا پسند کرتا تھا تا کہ دوسرے گھوڑے اس کی پیروی کریں اور یہ ان کے دلوں کو توڑ دیتا تھا۔ ایسا عظیم گھوڑا ایسے عظیم مقابلے کے لیے موزوں تھا۔ یورپ کے دورے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اسے دنیا کی بڑی گھٹڑ دوڑ میں شامل کروں بالخصوص دبی بین الاقوامی مقابلہ ۲۰۰۰ء کیونکہ وہ اس بات کا مستحق تھا کہ وہ تمام دوڑیں دوڑنے کا حقدار ٹھہرے بشمول گھاس و مٹی کی۔
وہ ایک خاص گھوڑا تھا جو کہ پوری دنیا میں اول ہونے کا حقدار تھا۔ دبئی بین الاقوامی مقابلہ ایک ایسا بین الاقوامی مقابلہ ہے جو کہ پوری دنیا سے گھوڑوں کے چاہنے والوں کے لیے انتہائی نادر موقع ہے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ دبئی ملینیئم میرے لیے جیتے گا اور میں نے ذاتی طور پر اس کو دبئی منتقل کرنے کی نگرانی کی۔ مزید یہ کہ اس عظیم مقابلہ گھڑ دوڑ کی تمام نقل و حمل کی نگرانی بھی کی۔ جیسے جیسے دوڑ قریب آتی گئی اس کے دباؤ میں شدت آتی گئی حتی کہ وہ دن بھی آگیا جس کا شدت سے اسے انتظار تھا۔
میں اپنے جوکی " فرینکی ڈیٹوری" سے ملا اور گھوڑے کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے اسے چند ہدایات ہیں۔ جب فرینکی گیا میں نے تھوڑی چہل قدمی کی۔ سب لوگ سونے کے لیے جا چکے تھے، مجھے بہت حسد ہو رہا تھا کیونکہ مجھے وہ سکون نہیں مل پا رہا تھا جس سے میں بھی آنکھیں موند لیتا۔ میں تازہ ہوا لینے کے لیے باہر چلا گیا اور اپنی گاڑی لے کر نکل پڑا اپنی پسندیدہ جگہ اصطبل کے لیے جو کہ القوز میں تھا اور جہاں دبی ملینیئم رکھا گیا تھا۔ دوسرے گھوڑے سونے کی تیاری یا جو کچھ بچا تھا اسے کھا رہے تھے۔
جیسے ہی میں نے اپنی گاڑی روکی تو بالکل اصطبل کے سامنے ایک سر دروازے سے اوپرنظر آیا اور دبی کی اس خاموشی بھری رات میں ایک نرم سی ہنہناہٹ سنائی دی۔ اصطبل کی روشنیاں جلائے بغیری میں اندھیرے میں دروازے کی جانب بڑھا۔ دہی ملینیئم اپنی ہنہناہٹ سے مجھے گائیڈ کر رہا تھا۔ کہ اس رات وہ مجھ سے ملنے پر خوش تھا۔ رات کے محافظین فوراً سے اصطبل کی جانب بھاگے جب انہوں نے آواز یں سنیں۔ جب اس نے میرا سایہ دیکھا تو وہ چپ ہوگیا۔ میں اس کا معمول کا ملاقاتی تھا۔ میں نے دروازے کو کھولا اور اندر داخل ہوا۔ وہ آرام سے پیچھے ہٹا کہ میں اندر داخل ہوسکوں۔ میں نے آہستہ سے اس کی ناک کو چھوا اور چارے کے ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ اس نے آہستہ سے اپنے سر کو پیچھے کیا اور اُس کھانے کی تلاش شروع کر دی جو میں اپنی جیب میں ڈال کر اس کے لیے ہمیشہ لاتا تھا۔
میں نے اپنے دیو قامت گھوڑے پر نظر ڈالی جو برج دار تھا اور خود سے پوچھا کہ میلینئیم اتنا لطیف کیسے ہے؟ اچانک سے وہ رک گیا جب اس نے میری آواز سنی اور دوبارہ میری جیبوں کی تلاشی شروع کر دی۔ میری طرح وہ بھی جانتا تھا کہ وہ ایک بڑی دوڑ کی شام تھی۔ وہ کئی بار اس روٹین سے گزرچکا تھا۔ اس کی ٹانگوں کے گرد جو پیٹیاں ہم باندھتے اور بارہا اس کا بلڈ سیمپل لیتے تاکہ اس کا فٹنس لیول چیک کیا جا سکے اور اس کی دیکھ بھال کرتے تھے اس سب کا اس کو پور اعلم تھا۔ وہ بہت ذہین تھا اور سب کا اسکو پورا علم تھا کہ جس دوڑ کا انتظار کیا جا رہا ہے وہ بہت بڑی ہے۔ اس کے باوجود اسے اس کی بالکل پرواہ نہ تھی کہ وہ اس سے بہت بڑا تھا۔ میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسے گاجر نکال کر دی جس کے وہ انتظار میں تھا۔ اس کے کان آگے اور پیچھے حرکت کرنے لگے جیسے ہی اس نے میری آواز سنی۔ میرے پیارے دوست میں عرصے سے اس انتظار میں تھا، میں نے اسے بتایا۔ میں نے کچھ دیر بولنا روک دیا اور ساکن رہا پھر بولا : "کل وہ دن ہے جس کا ہم دونوں نے انتظار کیا۔ تمام سابقہ دوڑوں کی نسبت یہ ریس میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تم یورپ یا کسی اور جگہ کی دوڑ پسندکرتے ہو۔ مگر یہ میرا ملک ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم کل یہاں دوڑ لگاؤ میرے دوست میرے لیے ، دہی کے لیے اور امارات کے لیے ۔ "
اس نے چاہا کہ وہ سمجھ سکے کہ میں اس سے کیا کہنا چاہتا ہوں کیونکہ اس نے ایک قدم آگے لیا اور اپنا ناک میرے چہرے کے قریب رکھ دیا۔ یہ چند لحوں کے لیے تھا مگر لگا کہ کافی وقت لگ گیا ہے۔ تب اس نے گہرا سانس لیا اور چھینکا۔ میں نے اس کی تھوتھنی پر ہاتھ رکھا تا کہ اٹھ سکوں ۔ میری اس سے ملاقات ختم ہوئی۔ میں دروازے کی طرف لپکا اور اسے کھولا۔ باہر نکلنے سے تھوڑا پہلے میں مڑا اور اس پر مسکرایا۔ وہ کھڑ کی کی طرف مڑا اور آرام کرنے لگا ۔ ۲۵ مارچ ۲۰۰۰ء کی صبح ہوئی یہ دبی ورلڈ کپ کا دن تھا وہ موقع جس کے لیے ہر کوئی خوشی سے منتظر تھا۔ صبح کی سرسری ملاقاتوں کے بعد میں نے دو پہر کو دوڑ کے لیے حفاظتی چوکیوں کا معائنہ کیا۔
میں نے ہیلی کے اترنے کی جگہ اور ہماری گاڑیوں کی جانچ پڑتال کی اور ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے طریقہ کار کو دیکھنے کے لیے پولیس افسر کے دفتر گیا۔ میری یہ ذمہ داری تھی کہ میں شیخ مکتوم حکمران دبی اور دس ہزار شرکائے دوڑ کی حفاظت کو یقینی بناؤں۔ وقت بہت دھیرے دھیرے گزر رہا تھا اور ایک ایک لمحے کے ساتھ تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ اس وقت تقریبا شام کے ۵ بجے تھے۔ دبی ملینیئم القوز میں اصطبل سے رخصت ہو کر " ناد الشیبا" رئیس ٹریک کی طرف جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ میں ڈرائیو کرتے ہوئے وہاں گیا اور اسے احتیاط سے ٹرک میں داخل ہوتے دیکھا۔ قبل اس کے کہ دروازے بند ہوں ، وہ پرسکون اور پر اعتماد تھا۔ میں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ٹرک کا تعاقب کیا کہ وہ اپنی دوڑ کی جگہ پر محفوظ پہنچے۔ پھر میں نے گہری سانس لی۔ اب سب کچھ اس پر منحصر تھا۔ آخر وہ لمحہ آن پہنچا تھا جس کا انتظار تھا۔
ریس ٹریک چمکیلے موتیوں کی مانند تھا جو کہ ہزاروں شائقین اور مداحوں سے بھرا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ پہلی بار دبی ملینئیم کی ریس کو دبئی ورلڈ کپ میں دیکھنے آئے تھے۔ فرینکی اپنی آخرت ہدایات لینے کے لیے آیا میں نے اسے کہا " اگر " ملینئیم " آگے بڑھنا چاہتا ہو تو اس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنا۔ اسے پیچھے نہ تھامنا۔ اس کی قوت کے ساتھ جانے کی کوشش کرنا "۔ ہر ایک لمحہ پر کیف تھا اور جہاں میں بیٹھا تھا وہاں سے دبئی ملینیئم شیر کی طرح میدان میں چلتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا کوٹ چمک رہا تھا اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اس وقت میں نے محسوس کیا کہ وہ تیار تھا جیسے ایک جنگجو تیار اور خوشی سے جنگ کے انتظار میں ہو۔ جب میں نے دیکھا کہ گھوڑے سٹارٹ لائن پر کھڑے ہونے کی تیار کر رہے تھے تو میری سانس رک گئی۔ مبصر نے ہر ایک گھوڑے کی تیاری کا اعلان کیا۔ جیسے ہی دروازے کھلے شائقین نے چلانا شروع کر دیا۔ دبی ملینیئم نے گیٹ سے اچھی ابتداء کی لیکن دوسرے گھوڑوں نے اپنے اپنے جوکی کی ہدایت پر اپنی رفتار میں کمی کر دی تھی۔ ملینیئم کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ فرینکی گھوڑے کی مجموعی رفتار کو گھٹانے کی کوشش کر رہا تھا مگرملینیئم کو اس کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ سوار کی یہ کوشش کہ اپنی رفتار کم کرے بے سود گئی۔ فرینکی نے کوشش کی کہ جتنا ممکن ہو پیچھے ہوکر بیٹھے اور اپنا تمام وزن اس کے منہ پر ڈالے اسے روکنے کی کوشش میں گھوڑے نے اسے نظر انداز ہی کیا۔ اس نے اپنی برق رفتاری سے سب پر سبقت حاصل کر لی تھی اور اس نے مکمل طور پر ہر کوشش جو کہ رفتار کو کم کرنے کے لیے تھی اسے نظر انداز کیا۔
میں نے ارد گرد موجود لوگوں کے تبصرے سنے جو میلینیئم کی ابتدائی نا قابل یقین رفتار متعلق تھے۔ وہ ایسے بھاگا جیسے اس کے جسم کو آگ لگی ہو۔ انہوں نے فرینکی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور اسے دوڑ ہارنے کا قصور وار ٹھرانا شروع کر دیا۔ ان کی آوازوں میں تیزی آگئی اور وہ چلانے لگے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ میں نے دیکھا میلینیئم دوڑ کے راستے کو کھیل کا میدان سمجھ رہا تھا اور حیران کر رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا یہ کیا کر رہا ہے۔ فرینکی اتنی رفتار میں گھوڑے کو کیوں رکھے ہوئے ہے۔ یقینی طور پرملینیئم اتنی رفتار جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ دوسرے گھوڑے پابند تھے کہ اس تک پہنچیں جب وہ تھک جائے۔ میرے بھائی شیخ مکتوم کے مشیر اپنی آوازوں کی انتہا تک چلائے بے وقوف سوار ہمیں دوڑ میں ہرائے گا۔ کوئی بھی گھوڑا دوڑ کے آخر تک یہ رفتار قائم نہیں رکھ سکتا۔ شیخ مکتوم نے یہ تبصرے سنے اور مجھ پر سے نظر ہٹائی اور حیرت انگیز مظاہرے کو دیکھنا شروع کر دیا۔ میری طرح وہ بھی میرے گھوڑے کی صلاحیتوں پر پختہ یقین رکھتے تھے۔
اگرچہ میلینیئم کی کارکردگی منطق کے مطابق تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ کامیاب ہو گا۔ وہ ماحول جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیونکہ وہ تمام گھوڑوں سے زیادہ ذہین تھا۔ پچھلی رات جتنا میں اس کے اصطبل میں اس کے ساتھ تھا میں نے اسے بتایا کہ اس مقابلہ کی میرے لیے کیا اہمیت ہے۔ اس نے اپنے سر کے اشارے سے اس کی حامی بھری میں قسم اٹھاتا ہوں کہ جو میں نے اسے کہا وہ سمجھ رہا تھا۔ جب وہ میری کسی بات سے اتفاق نہ کرتا تو وہ اپنے سر کو اٹھاتا اور اپنی گردن کے بالوں کو ہوا میں ہلاتا۔ وہ میر ا گھوڑا اور میرا پیارا دوست تھا۔ میں اس کے بارے میں بخوبی جانتا تھا۔ اس کی رفتار بڑھتی گئی جیسے وہ ہوا سے دوڑ لگا رہا ہو۔ جب میں نے اس کے کھروں کی آوازیں سنیں جو کہ گرج کی مانند تھیں تو میرا دل دھڑکنا شروع ہو گیا۔ جب ملینیئم اپنے راستے کی سیدھ کے حصہ میں پہنچا تو اس نے یہ فاصلہ تھوڑے وقت میں طے کر لیا۔ شائقین حیران تھے آگے کیا ہو گا۔ وہ دم بخود تھے۔ ملینیئم نے اپنی رفتار کو قائم رکھا۔ ہر ایک کا خیال تھا کہ وہ شائد رفتار کم کرے گا یا گر جائے گا اور پھر دوسرے گھوڑے اس سے آگے نکل جائیں گے ۔
یہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا اگر ملینیئم تھک کر رفتار کم کر دیتا۔ مگر اس نے طریقہ تبدیل کیا اور سرپٹ دوڑا وہ ایسے دوڑا جیسے بھاگ رہا ہو۔
پورا ہجوم اس گھوڑے کے حملے کا گواہ تھا جو اس نے اختتامی لائن کی جانب سمندری طوفان کی مانند کیا۔ فرینکی رقاب میں کھڑا ہوا اور ہوا میں مکہ مارا میلینئیم پوری رفتار سے بھاگا۔
" بہرن " امریکی اصیل گھوڑا اس سے صرف چھ لمبائیاں پیچھے تھا۔ میلینئیم نے ٹریک ریکارڈ توڑا، تماشائیوں کا جوش و ولولہ دیدنی تھا۔ گھڑ دوڑ کی دنیا میں پیش آنے والا یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے نادر اور استثنائی تھا۔ میں نے ریس کارڈ کو ہوا میں پھینکا اور خوشی سے اچھلنے لگا۔
میں نے اپنے بھائی کو گلے لگایا اور میری خوشی نا قابل دید تھی۔ ہمارے پاس عظیم ترین گھوڑا تھا جس نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ یہ دبئی کی جیت تھی بلکہ امارات اور تمام عربوں کی جیت تھی۔ اب ہمارے پاس دنیا کا بہترین گھوڑا تھا۔ میرا خواب سچ ہو رہا تھا۔
میں نے فخریہ انداز میں ا اپنے گھوڑے کو تھپتھپایا اور وعدہ کیا کہ اسے اسکی شاندار جیت پر انعام بعد میں دونگا۔ میں ابھی بھی ڈیوٹی پر تھا اور میری اولین ذمہ داری تھی کہ ایک طرف تو میں شیخ مکتوم کو سیکیورٹی فراہم کروں اور دوسری طرف اپنی جمہور کی سیکیورٹی کو یقینی بناؤں جو اس وقت جیت کی خوشیاں منا رہے تھے۔ اپنے اندر کی بے انتہا خوشی کے باوجود، میں الرٹ تھا کیونکہ ایسے موقعے پر کوئی بھی آسانی کے ساتھ میلینئیم کو پچھلی طرف سے آکر نقصان پہنچا سکتا تھا یا پھر ٹریک کی طرف امڈتے ہوئے جمہور میں سے خدا نخواستہ کسی کو کوئی نقصان ہونے اندیشہ تھا۔ میرا موبائل فون مسلسل بج رہا تھا اور میں تمام ان کمنگ کالز اٹینڈ نہیں کر پا رہا تھا۔
اپنی فیملی، بھائی، بیٹیوں اور بیوی کے ساتھ جیت کا جشن منانے کے بعد میں ایک چھوٹے مکان میں گیا جہاں میرے دوستوں کا ایک گروہ جمع تھا۔ میں نے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ ایک شخص نے میری گردن کے گرد اپنے بازو ڈال دیے۔ یہ میرا جو کی "فرینکی " تھا جو خوشی سے نڈھال بار بار ایک ہی جملہ دہرائے جا رہا تھا " سر ، ہم جیت گئے ، ہم جیت جیت گئے۔ آپ کہاں تھے ، ہم جیت گئے ۔ "
اس رات جب سب پر سکون ہو گئے تو میں القوز میں واقع اپنی اصطبل میں گیا۔ میں نے اپنے گھوڑے سے کہا : "شکریہ میرے دوست، پیارے ملینیئم تم نہیں جانتے کہ یہ جیت میرے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔ " اس نے اثباتیہ انداز میں اپنا سر ہلایا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے خوش آمدید کہہ رہا ہو۔ میں نے جیب سے اس کے لیے ایک گاجر نکالی جسے کھانے کے بعد وہ اپنے مخصوص انداز میں میرے قریب آگیا جیسا کہ وہ ہمیشہ کیا کرتا تھا میری باتیں سننے کے لیے۔
" دبئی ملینیئم " ایک بہت منفر د گھوڑا تھا۔ جوکی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا تھا کہ وہ اسے اسکی مرضی پر چھوڑ دیتے اور اسکے انداز میں مخل نہ ہوتے تھے۔ جوکی کو گھوڑے پر یقین رکھنا تھا۔ بغیر کوئی اضافی قوت لگائے ، وہ دوسرے گھوڑوں کی نسبت بہت تیز تھا، وہ اس کا مقابلہ نہیں کر پاتے تھے۔ فرینکی ہمیشہ کہتا تھا کہ وہ ملینیئم پر سواری کرنے سے ڈرتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ ایک خطر ناک گھوڑا تھا بلکہ اس لیے کہ وہ ایک بہت طاقتور گھوڑا تھا۔ اس کو قابو کرنے کی کوشش ایسی ہی تھی جیسے گینڈے کو لگام دینا۔ اگر اسکی خواہش دوڑنے کی ہوتی تھی تو کوئی بھی اسے روک نہیں سکتا تھا۔ فرینکی ہمیشہ کہتا تھا کہ اس نے پوری زندگی میں ایسی طاقت والا گھوڑا نہیں دیکھا لیکن اس طاقت کے ساتھ ساتھ، ملینیئم ذی عقل بھی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے کس پوائنٹ سے کس پوائنٹ تک پہنچنا ہے اور وہ بھی پوری قوت کے ساتھ۔ اسکی مضبوطی استثنائی تھی اور کوئی بھی اسکے مقابلے کا نہیں تھا۔
ملینیئم " کی شہرت بڑھ رہی تھی ، ہم نے بہت سے عالمی مقابلوں میں شرکت کے پروگرام طے کیے۔ ملنینیم نے ایک علاوہ سبھی میں کامیابی حاصل کی۔ وہ نہ صرف گھاس کے ٹریکس پر فتح حاصل کرتا تھا بلکہ ریتیلے ٹریکس پر بھی۔ وہ ہر قسم کے ٹریک پر چیمپیئن بنتا تھا۔ فطرت کا اصول ہے کہ فاتح ہمیشہ فاتح نہیں رہتا، ہر عروج کو زوال آتا ہے۔ شائقین چیمپیئنز سے پیار کرتے ہیں اور چیمپیئنز عام طریقے سے رخصت نہیں ہونا چاہتے بلکہ وہ ایک ایسے طریقے سے جانا چاہتے ہیں جس سے وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جائیں۔
۲۲ اپریل ۲۰۰۱ کو ملینیئم بیمار پڑ گیا۔ اس دن معدے کے درد کی وجہ سے اسکی سرجری کروانا پڑی لیکن اس کے بعد مزید پیچیدگیاں بڑھ گئیں۔ ۲۴ اپریل کو شدید گھاس کی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ یہ وہ آخری جملہ ہو گا جو شاید کوئی سننا چاہے کیونکہ یہ بیماری ایسی ہی ہے جیسے سزائے موت۔
تبصرہ لکھیے