آفس کی جانب سے اس حوالے سے خبریں بنانے کی ذمہ داری ملی تو گزشتہ ایک مہینے سے ورکنگ کر رہا تھا تاکہ کچھ خود سمجھ آئے گا تو دوسروں کو بتایا جا سکے گا۔۔۔۔ کل ہونے والی بولی کے بعد جو بھانت بھانت کے تبصرے سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہے ہیں، وہ کسی لطیفے سے کم نہیں۔ اس لیے کوشش ہے کہ آسان الفاظ میں بات واضع کر سکوں۔
پی آئی اے کی نجکاری کی کل سے پہلے چار بار کوشش کی گئی، جو ناکام ہوئی۔ اس میں سیاسی وجوہات بھی تھیں، لیکن سب سے اہم ادارے پر قرضوں کا بوجھ ہے۔
گزشتہ سال نگران حکومت کے دور میں جو اعداد و شمار جاری کیے گئے تھے۔ اُس کے مطابق "پی آئی اے کے کل اثاثے ایک کھرب 71 ارب روپے جبکہ اس کے ذمہ واجبات آٹھ کھرب 30 ارب روپے کے تھے۔ ماہانہ تقریبا 12 ارب روپے خسارے کا سامنا تھا۔ اس لیے کوئی بھی اسے لینے کو تیار نہیں۔
موجودہ حکومت نے نجکاری کے لیے ایک نیا طریقہ کار وضع کیا۔ پی آئی اے کو دو کمپنیوں میں تقسیم کر دیا۔ جن میں سے ایک پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ہولڈنگ کمپنی اور دوسری کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کارپوریشن لمیٹڈ کا نام دیا گیا۔
آسانی کے لیے یوں سمجھ لیجیے کہ پی آئی اے کی تمام جائیدادیں، زمینیں، ذیلی کمنیاں اور غیر منقولہ اثاثہ جات پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ہولڈنگ کمپنی کو منتقل ہو گئے۔ جو حکومت نے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔
پی آئی اے کا آپریشن اور آپریشنل اثاثے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کارپوریشن لمیٹڈ کے نام لگا کر اسے برائے فروخت رکھ دیا۔
اس کمپنی کی نجکاری کے لیے اس سال مئی میں جو اعداد شمار جاری کیے گئے اُسے تمام دلچسبی رکھنے والے سرمایہ کاروں نے گمراہ کُن قرار دے کر مسترد کر دیا۔ جس کے بعد نجکاری کے لیے معروف بین الاقوامی پیشہ ورانہ خدمات دینے والی کمپنی "ارنسٹ اینڈ ینگ" کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جس نے تین ماہ کے آڈٹ کے بعد نئے اعداد و شمار جاری کیے۔
پی آئی اے کی دلچسبی رکھنے والے خریداروں کو جو دستاویزات دی گئی، اُن کے مطابق اس کے فروخت کے لیے پیش کیے گئے اثاثوں کی مجموعی مالیت 57 ارب روپے ہے،
جبکہ خریدار کو پی آئی اے کے ذمے قابل ادائیگی واجبات میں سے 200 ارب روپے کی ذمہ داری لینی ہوگی۔
پی آئی اے لیے ابتک لیے گئے قرض پر اگلے دس سال تک 12 فیصد کی منجمد شرح سے سالانہ 32 ارب روپے سود ادا کرنا ہے۔
پی اے اے کے ذمہ اپنے اندونی قرض الگ سے ہیں، مثلا پینشن ٹرسٹ فنڈ کے 40 ارب روزمرہ کے خرچے پورے کرنے کے لیے استعمال کر چکی ہے۔ فیول، پینشن فنڈ اور پراویڈنٹ فنڈ ادھار الگ سے ہے۔
پی آئی اے کے پاس کل 31 جہاز ہیں، جن میں سے 15 لیز پر ہیں۔ اپنے صرف 6 جہاز اس وقت قابل استعمال حالت میں ہیں۔
7200 مستقل ملازمین اور 3 ہزار ڈیلی ویجز ملازمین ہیں۔
سرمایہ کاری کے ماہرین نے حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی 25 ارب سے 40 روپے کے درمیان ریزو پرائس کی توقع ظاہر کی۔ جس کو مد نظر رکھ کر کوئی بھی غیر ملکی انویسٹر نہیں آیا۔
صرف چھ مقامی سرمایہ کاروں۔۔۔ ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، ایئر عربیہ کی فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ، پاک ایتھنول پرائیویٹ اور بلیو ورلڈ سٹی نے اظہار دلچسبی کے اشتہار کے جواب دیا۔
تاہم جب حکومت نے برائے فروخت کمپنی کے صرف 60 فیصد تک شیئرز فروخت کرنے کا اعلان کیا تو ان میں سے پانچ انویسٹرز نے بولی میں شرکت نہیں کی۔
واحد کنسوشیم بلیو ورلڈ سٹی تھا۔ جس نے 60 فیصد شیئر کی 10 ارب روپے کی بولی دی۔ لیکن حکومت کی جانب سے 85 ارب روپے کی ریزو پرائس مقرر ہونے کے بعد نجکاری کی یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی۔ کیوں کہ یہ رقم 100 فیصد حصص کی متوقع زیادہ سے زیادہ قیمت 40 ارب روپے کے دوگنا سے بھی زیادہ تھی۔
پی آئی اے، نجکاری اور سرمایہ کاری بورڈ جتنے لوگوں سے میری بات ہوئی ہے۔ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ بیورو کریسی، سیاستدان اور مقتدرہ کے لوگ پی آئی اے کی نجکاری کرنا ہی نہیں چاہتی۔ قومی خزانے کے لیے سفید ہاتھی ادارہ اشرافیہ کی عیاشی کی اہم ضرورت ہے۔ مفت اور رعایتی ٹکٹس، بیرون ملک مفت رہائش، پروٹوکول۔۔ نوکریاں سب اسی کے دم سے ہیں۔
اگر ٹیکس کے ڈھائی سو ارب سالانہ اس کا خسارا پورا کرنے پر لگتے ہیں تو ان کی بلا سے۔
تبصرہ لکھیے