محمد اسد (پیدائشی نام لیوپولڈ ویس) ایک صحافی، مصنف اور سفارت کار تھے جو متعدد عرب مملکتوں کے بطور باقاعدہ ریاست تشکیل میں شریک رہے تھے، وہ بیسویں صدی کے ممتاز ترین مسلم مفکرین میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے تقریباً چالیس فلسفیانہ تصانیف تحریر کیں، اور پاکستان کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے "روحانی والد" بھی سمجھے جاتے ہیں۔
محمد اسد یوکرین کے شہر لِویو سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل کے بیٹے تھے البتہ پہلی عالمی جنگ کے بعد ان کا خاندان آسٹریا کے دارالحکومت ویانا منتقل ہوگیا تھا۔ اوائل عمر ہی سے اسد ایک خود پرداختہ شخصیت کے طور پر ابھرے تھے۔
بیس سال کی عمر میں ہی انہوں نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور ویانا سے برلن چلے گئے، جہاں انہیں جرمنی کے مشہور ترین اخبارات میں سے ایک، فرانکفرٹر زیتونگ، میں ٹیلی فون آپریٹر کی نوکری مل گئی۔ جب انہوں نے برلن وارد ہونے پہ ، عظیم روسی مصنف میکسم گورکی کی اہلیہ، ایکاترینا پیشکووا کا معجزانہ طور پر انٹرویو کیا تو بطور صحافی ان کی اس خوش قسمتی کے طفیل انہوں نے جلد ہی ترقی پائی اور رپورٹر بن گئے ۔
تاہم، بائیس سال کی عمر میں، انہوں نے اپنی زندگی کو پھر سے نئے رخ پہ ڈالا اور فرانکفرٹر زیتونگ کے مشرق وسطیٰ کے نامہ نگار بن گئے۔ وہ یروشلم میں اپنے چچا کے ساتھ رہنے لگے۔
1920، فلسطین، جب محمد اسد ابھی لیوپولڈ ویز ہی کہلاتے تھے
محمد اسد کو چار براعظموں میں وقت گزارنے اور کام کرنے کا موقع میسر آیا، انہوں نے مختلف (یہودی، یورپی، اسلامی) ثقافتوں کا گہرا مطالعہ کیا اور آٹھ زبانیں سیکھیں۔ وہ کئی حکمرانوں کے حلقہ آشنائی سے وابستہ تھے بلکہ کئی کے تو ذاتی دوست تھے، جن میں اردن کے بادشاہ عبداللہ، تحریک آزادی پاکستان کے نظریہ ساز علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح شامل تھے۔ وہ سعودی عرب کے پہلے بادشاہ، عبدالعزیز ابن سعود کے مشیر بھی رہے تھے۔
لیویو کا یہ رہائشی قرآنی افکار سے اتنا متاثر ہوا کہ جب وہ 1926ء میں برلن واپس آیا تو اس نے اسلام قبول کر لیا اور ایک نیا نام اختیار کیا: وہ محمد اسد بن گیا (عربی میں "اسد" کا مطلب "شیر" ہے، اس طرح یہ لیویو کے لیوپولڈ کے مماثل بھی ہے- - یاد رہے کہ لیویو کی سرکاری علامت بھی شیر ہے)۔ انہوں نے مسلم ممالک کی خودمختاری کے لیے جدوجہد کی فعال حمایت کی ۔
جب نوآبادیاتی نظام ختم ہوا اور بہت سے نئے آزاد مسلم ممالک وجود میں آئے تو یوکرین کے اس رہائشی نے ان میں سے بیشتر ، جیسے کہ پاکستان، سعودی عرب، اردن، افغانستان، لیبیا، شام، مصر، ایران، مراکش، فلسطین، کویت اور دیگر کے قیام یا ان کی اس جدوجہد میں ہاتھ بٹایا ۔ اسد کو "مسلم دنیا کے لئے یورپ کا فیاضانہ تحفہ" کہا گیا۔
پاکستان کے لیے روڈ میپ
علامہ محمد اقبال کی اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے کہ "خودمختار پاکستان کے بروئے کار آنے کی فکری شرائط کی وضاحت" کی جائے، اسد نے ایک اسلامی ریاست کے قیام کے اصولوں کی تشکیل اور "روڈ میپ" تیار کرنا شروع کیا، اور اسے بین الاقوامی سطح پر کیسےمستحکم و ممیز کیا جائے، اس کا منصوبہ بھی بنایا۔ ان کی یہ سخت محنت آٹھ سال (1947-1955) تک جاری رہی۔
1947 میں، لیویو کے اس سابق باسی کو پاکستانی حکومت کی طرف سے "اسلامی احیاء ڈویژن" کا سربراہ مقرر کیا گیا، جس کا کام نوپید اسلامی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کا ایضاح اور عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی تیاری کرنا تھا ۔ دو سال بعد، وہ وزارت خارجہ کے مشرق وسطیٰ ڈویژن کے سربراہ بن گئے۔ بعد ازاں، وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سرکاری نمائندے کے طور پر کام کرنے لگے، جہاں انہوں نے اس مسلم ریاست کے حقوق کا بھرپور دفاع کیا، اور یوں انہیں "یہودی مرتد" کی ہجو سننا پڑی ۔
وہ میڈیا سے اردو میں بھی بات کرتے تھے اور انہوں نے پاکستان کے آئین کے مسودے کی تیاری میں بھی فعال کردار ادا کیا تھا۔ وہی تھے جنہوں نے پاکستان کے آئین میں ایک شق کا مطالبہ کیا تھا جس کی بنیاد پہ برسوں بعد بینظیر بھٹو اس مسلم ملک کی پہلی خاتون رہنما، پاکستان کی وزیر اعظم ،بننے کے قابل ہوئیں۔بے نظیر بھٹو نے اس سلسلے میں محمد اسد کی خدمات کو خاص طور پر سراہا، اسی لیے انہیں عقیدتاً بے نظیر بھٹو کا "روحانی والد" بھی کہا جاتا ہے۔
اسد سے متعلق کچھ دلچسپ حقائق:
• محمد اسد کے دادا کئی نسلوں سے ربیوں (یہودی مذہبی علماء) کے ایک معتبر خاندان کے اکابر میں سے تھے ۔
• اسد کو اپنا پیدائشی شہر خوب یاد تھا، انہوں نے ایک جگہ لکھا: "میرا بچپن لِویو میں گزرا، جو اس وقت آسٹریا کے زیر حکمرانی تھا، ایک ایسے گھر اور گلیوں میں جو پرسکون اور شاندار تھیں۔"
• دوسری عالمی جنگ کے دوران، ان کے والد اور بہن ایک جرمن تعذیبی کیمپ میں مارے گئے۔
• انہوں نے پانچ مرتبہ حج کا شرف حاصل کیا اور قریب چھ سال مدینہ، شہرِ رسول ﷺ میں رہائش پذیر رہے۔
• ان کا نکتہ نظر تھا کہ مسلمان عورتوں کو برقع نہیں پہننا چاہیے، کیونکہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ صرف نبی ﷺ کی بیویوں نے ہی چہرہ ڈھانپا تھا ۔
• "دی روڈ ٹو مکہ"، مشہور کتاب جو اسد کے یہودیت سے اسلام کے سفر کے احوال پر مبنی ہے، کئی زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
• یونیورسٹی آف ویانا (آسٹریا) کے ڈاکٹر گنتھر ونڈھاگر نے "لیوپولڈ ویس ثم موسوم بہ محمد اسد: گلیشیا تا عرب ، 1900-1927" نامی کتاب شائع کی ہے۔
• اسد نے تین شادیاں کیں، انہوں نے اپنی پہلی اور تیسری غیر مسلم بیویوں کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی۔ ان کی دوسری بیوی شادی کے وقت صرف 15 برس کی تھیں ۔
• وہ آٹھ زبانوں پر عبور رکھتے تھے: انگریزی، فرانسیسی، جرمن، پولش، عربی، عبرانی، اردو، اور فارسی۔
• اسد کے تئیں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے "خفیہ آپریشنز" کی افواہیں اڑتی رہی ہیں ۔ تاہم ان میں سے صرف برطانیہ کے خلاف سعودی عرب کے حق میں استخباراتی سرگرمیوں کا ثبوت ہی میسر ہوا ہے۔
• کبر سنی میں، انہوں نے اعتراف کیا کہ اگر وہ اب کسی مسلمان سے ملتے، تو وہ انہیں نہ بھاتا۔ اس کی وجہ ان کا نبیﷺ کے فرامین سے بُعد و یاس نہ تھا بلکہ ان احکامات سے متعلق اہل اسلام کی عملی صورت حال تھی۔
کچھ مزید حقائق:
• اسد 12 جون (کچھ ذرائع کے مطابق 2 جولائی) 1900 ءکو لِویو میں پیدا ہوئے۔
• انہوں نے ویانا اور قاہرہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔
• نوجوانی میں، انہوں نے جرمن فلم ڈائریکٹر فریڈرک وِلہلم مُورناؤ کے معاون اور کئی اخبارات کے نامہ نگار کے طور پر کام کیا۔
• انہوں نے قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جس کا عنوان "ان کے لیے جو غور و فکرکرتے ہیں" (یہ ایک قرآنی آیت کا اقتباس ہے) رکھا۔ وہ جامعہ الازہر (قاہرہ) میں پروفیسر بھی رہے ۔
• وہ 20 فروری 1992 ءکو وفات پا گئے۔ انہیں اسپین کے شہر ماربیلا کے قبرستان میں دفن کیا گیا ۔
• 2008 ءمیں، ویانا میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے مرکزی دروازے کے سامنے والے چوک کو محمد اسد کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یہ مغربی یورپ کا پہلا چوک ہے جسے اعزازی طور پہ کسی مسلمان سے موسوم کیا گیا ہے۔
• 2015 ءمیں لِویو میں ایک اسلامی ثقافتی مرکز کھولا گیا جس کا نام محمد اسد اسلامک کلچرل سنٹر" رکھا گیا ۔
(یہ مضمون نادیہ آورامچُک اور میکولا سُخوموزسکی کا تحریر کردہ ہے اور پبلشر کی اجازت سے کتاب "(UN) Celebrated Ukrainians Who Changed the Course of History" سے یہاں شائع کیا گیا ہے
تبصرہ لکھیے