ہوم << محب علی پور کا دکھ -ڈاکٹر محمد عمار رشید

محب علی پور کا دکھ -ڈاکٹر محمد عمار رشید

یہ کہانی سڑکوں ، گلیوں اور کھلے دالانوں میں بکھری ہوئی عام کہانیوں کی طرح عام سی کہانی ہے اس کہانی میں کوئی بھی خاص بات نہیں ہے جس دیوار سے جھانکو اس سے بڑھ کر داستانیں موجود ہیں پر یہ میرے لئے خاص ہے یہ کہانی مجھ سے جڑی ہوئی ہے شائد میری رگوں میں بہتی سرخی مجھے اس کہانی سے جوڑتی ہے اور مجھے یہ کہانی یاد دلاتی رہتی ہے ۔ یہ کہانی کیا ہے اجھڑے ہوئے پریوار کی داستان ہے دکھوں کی بپتا ہے کبھی کبھی سوچتا ہوں دکھ کیسے دکھتے ہوں گے ۔ دکھوں کی ہمجولیاں بھی ہوتی ہوں گی ۔کیا دکھ بتایا جا سکتا ہے سجھایا جا سکتا ہے ۔ سوچتا رہتا ہوں پر کچھ بن نہیں پاتا

دکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں
نہ کوئی بات ہی ایسی جو بتائیں تجھ کو

کہتے ہیں محب علی شہنشاہ شاہجاں کے دور میں “ طوطی منیا لا” کا کماندار تھا اس کا تعلق گجر قبیلے سے تھا ۔ جب اسے شہنشاہ کی طرف سے جاگیر دی گئی تو اسنے ریاست کپور تھلہ تحصیل سلطان پور میں رہنا پسند کیا ۔اس عطا کی گئی جاگیر کا نام “ محب علی پور “ ہو گیا ۔ اسکی اولاد میں سے حسن ، مکھن اور محکم ان تینوں بھائیوں کی اولاد اس گاؤں میں سکونت پذیر ہوئی ۔ محب علی پور والوں کی کچھ باتیں خاص تھیں ۔ نہ متقی تھے نہ پرہیز گار ۔چھکڑی اور تاش کھیلتے اور پوست کی کاشت بھی کرلیتے ۔ پر محب علی کے خون کی دلیری ضرور تھی تبھی محب علی پور والے بات کا ، ذات کااور پات کا ادھار نہ رکھتے چاہے جھگڑے اور فساد میں جانیں ہی کیوں نہ چکانی پڑتیں ۔ ایک بات جو قریبأ ایک صدی سے چلی آرہی ہے کہ محب علی پور کے لوگ کبھی بھی شیعہ سنی تنازعہ میں نظر نہیں آسکتے وہ جوڑنے والے تو ہو سکتے ہیں توڑنے والے نہیں اسی لئے تحصیل سلطان پور میں شیعہ ہندو تنازعہ میں اپنے سید بھائیوں کے ساتھ کھڑے تھے پھر ۱۰ محرم کے تعزییے کے انتظامات اور انعقاد کرانا انکی مستقل روایات میں رہا ہے

تقسیم کے قریب محب علی پور میں محکم کی پیڑھی سے تعلق رکھنے والا بابا جھنڈا کا پریوار اپنی خوشحالی میں مگھن روٹین کی زندگی گزار رہا تھا ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا انہیں اپنی اس جنت کو چھوڑ کر کہیں جانا ہوگا ۔ اسکے اکلوتے بیٹے چوہدری محمد بوٹا کے دوبیٹے اور دو بیٹیاں تھیں بڑے بیٹے کانام علی محمد ، بیٹی کا نام تاج اور چھوٹے بیٹے کا نام فقیر محمد تھا چوہدری بوٹا نے تقسیم سے کوئی چھ سات سال قبل اپنے بڑے بیٹے علی محمد کو بیاہ دیا تھا علی محمد کی عمر شادی کے وقت ابھی کوئی سترہ سال ہی ہوگی ۔ اس کا بیاہ بڑے سوچ بچار کے بعد چوہدری محمد بخش کی بیٹی رحمت بی بی سے کیا تھا ۔چوہدری محمد بخش اپنی شرافت اور پرہیزگاری میں مشہور تھا اور بڑا پکا نمازی ہونے کے ساتھ ساتھ ، قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے کا ذوق و شوق رکھتا تھا اس شادی کروانے میں سب سے زیادہ دلچسپی علی محمد کی ماں “بسو “ نے لی تھی اسکا خیال تھا شائد اس سے اس شریف پریوار کی توجہ نماز روزہ کی طرف بھی ہو جائے ۔ چوہدری علی محمد کے تین بیٹے تھے بڑے بیٹے کا نام رشید احمد ، منجھلے کا نام تفضل حسین اور چھوٹے بیٹے کا نام خیرات علی تھا ۔ تقسیم جوں جوں قریب آتی جا رہی تھی اپنے پرائے ہوتے جا رہے تھے دوستیوں اور رشتوں سے اعتبار اٹھ رہا تھا “محب علی پور “کے جوان ٹولیوں میں کر پانیں اور برچھیوں سے لیس ہو کر راتوں کو پہرہ دیتے ۔ پر محب علی پور کے سب لوگ سمجھ رہے تھے جلد امن ہو جائے گا اور ہم کہیں نہیں جانے والے ۔ گزرتے وقت نے ہولے ہولے سجھائی دی کہ سب کچھ بدل چکا ہے ایسی خبریں روز کا معمول بن گئیں فلاں گاؤں سے قافلہ چلا گیا یا راستے میں مارا گیا ۔ ساون بھادوں شروع ہوا تو ایسی خبروں میں بھی شدت آنا شروع ہوگئی ۔ بڑے سیانے بھی کہنے لگے ہجرت ہونی ہے ایسی باتوں نے ہولے ہولے بابا جھنڈا کے پریوار کا بھی ذہن بنا دیا تھا اور چوہدری بوٹا کے پڑھے لکھے بھتیجوں نے بھی گاؤں والوں کو سمجھایا اور دیہی علاقوں میں سرکار کی نوکری کرتے ہوئے اپنی جانکاری سے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ساہیوال کے علاقے میں ایسی ہی بھر پور زرخیزی والی زمین موجود ہے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ سب کا پڑاؤ وہیں ہونا چاہئیے ۔ بابا جھنڈا کا پریوار بھی جانے کی تیاریوں میں تھا جب اسکے قریبی سکھ دوست مسلح ہو کر اسکے گھر کے دالان میں آ بیٹھے ۔ عجب منظر تھا بچپن ، جوانی جن کے ساتھ گزری ۔ جن کے ساتھ مل کر کبڈی کے مقابلے جیتے ، مل کر دھمال ڈالی ۔ آج وہ جان کے در پے تھے شائد آنکھوں کا پانی ابھی مکمل خشک نہ ہوا تھا پرانے سانجھیوں نے مال لے لیا پر جان نہ لی ۔ بابا جھنڈا اپنی پسندیدہ گھوڑی پر سوار تھا ۔ باقی لوگ پیدل تھے خواتین گڈوں پر تھیں جن پر پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بھنے ہوئے چنے رکھے تھے اس قافلے کی منزل ہیڈ گھنڈا سنگھ کے رستے قصور داخل ہونا تھا اس منزل کا رستہ خون کی ندیوں سے اٹا ہوا تھا ہیضے کی وبا تھی اور سکھوں کی برچھیاں تھیں کون کس کے کام آرہا ہے کچھ پتا نہ تھا جو جہاں مرا وہیں دفنا دیا گیا اور جو سکھوں کے حملے میں شہید ہوئے انکے زخم انکے پیاروں نے سینوں میں چھپائے اور آنکھوں میں بھر لئے لیکن انہیں کوئی نہ مل سکا جسکے ساتھ ملکر وہ اپنے غموں کو رو لیتے ۔ اس پریوار کی کہانی بھی ایسی ہی تھی ۔ بچھڑے ، کیمپوں میں رہے اور اک دوجے کو ڈھونڈتے جب ملے تو اپنے جوان بیٹوں کی موت پر رو بھی نہ سکے ۔ بابا جھنڈا نے بیٹوں کا پوچھا کسی کے پاس جواب نہ تھا بابا جھنڈا ہجرت کے چند دن بعد اس غم کی چادر اوڑھے بن روئے ہی چلا گیا ۔ اس پریوار میں جھنڈا کا بیٹا چوہدری بوٹا ، اسکا پوتا علی محمد اور اسکی بیوی رحمت بی بی اور پڑپوتا خیرات علی سب ہجرت کی نظر ہو گئے تھے فقیر محمد ( میرے والد کے چچا ، جن کی عمر ہجرت کے وقت ۱۲ سال تھی۔ انکو میں بچپن سے “دادا جی “ کہہ کر پکارتا ہوں ) دادا، باپ اور بھائی سے محروم تھا صرف ماں ( ماں بسو ، میرے والد کی دادی ) تھی اور رشید احمد ( میرے والد ، ہجرت کے وقت انکی عمر چار پانچ سال تھی ) اپنے پڑ دادا ، دادا ، باپ ، بھائی اور ماں سب رشتوں سے محروم تھے ایک دادی تھی ماں بسو، تین سال کا بھائی تفضل حسین اور ایک چچا جو خود ۱۲ سال کے بچے تھے ۔ہجرت کو سال بھر ہی ہوا ہوگا جب تفضل حسین بیمار ہوا اور جانبر نہ ہوسکا۔ زمین کی الاٹمنٹ کی کوشش کی تو سرگوشی سنی “ لا الہ الا للّٰہ ۔ سو روپے میں ایک کلہ “۔ جو ہو سکا وہ کیسے ہوا وہ ا لگ سے ایک داستان ہے ۔ ہجرت کے اس ڈیڑھ دو ماہ کے عرصے میں قیامت گزر گئی تھی ۔ کہکشاؤں میں بیٹھ کر ستاروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے لوگ آج یتیمی کی بے ردا دھوپ میں مسائل کے ریگزار میں کھڑے تھے ایک ماں تھی اور یتیم بچے تھے۔ وہی ماں جس نے اپنے بیٹے علی محمد کے لئے بہو تلاش کرتے وقت رحمت بی بی کے باپ کی دینداری کو ترجیح دی تھی اپنے پوتے رشید احمد کی تربیت میں جت گئی ۔ ایک ہی دھن تھی اسکو پڑھانا ہے وقت کا سورج ماں بسو کے دکھوں کو امید بنا کر رشید احمد کی صورت دکھانے لگا ۔ رشید احمد ایک چھوٹے سے گاؤں سے اٹھا اور یونیورسٹی پہنچ گیا ۔ ہسٹری میں ماسٹرز کیا ، لیکچرر ہوئے ، پروفیسر ہوئے ، پرنسپل بنے اور اب آسودہ ریٹائرڈ لائف ہے ( ماشاءاللہ) ۔ کتاب بینی اور کاشت کاری انکے شوق ہیں ۔ مجھ نالائق سمیت تین بیٹیوں کے باپ ہیں وہ میرے باپ بھی ہیں ، بڑے بھائی بھی ہیں اور دوست بھی ۔ میرا بچپن انکی قربت میں گزرا اور آج بھی انتہائی قربت ہے ہم دوستوں کی طرح ہنس بھی لیتے ہیں اور لڑ نے میں بھی گریز نہیں ۔ تاش اور شطرنج میں میں انکا شاگرد ہوں

ماں بسو ، جنہوں نے والد صاحب کو ماں باپ سب کچھ بن کر پالا پوسا تھا انہیں ابو ماں جی کہہ کر پکارتے اور ہمُ سب بچے بھی ماں جی ہی کہا کرتے تھے۔ ماں جی کیا تھیں ایک شجر سایۂ دار تھا اوائل بچپن کی یادوں پر دھندلکا سا ہے پر کچھ باتیںُ بڑی صاف یاد آتیںُ ہیں میرا جب بھی ماںُ جی کے پاس جانا ہوتا، میرا صدقہ دینا انکا معمول تھا او ر دوسرا ایک دلچسپ واقعہ جو بھلانے سے نہیں بھولتا کہ میرے بڑے ہوئے بالوں کو دیکھا تو ڈیرے پر نائی کو بلوایا اور اسنے خاص دیہاتی سٹائل سے میرے سر کو دونوں گھٹنوں میں لیا اور ٹنڈ کردی ۔ تقسیم کی باتیں کرتے تو ناراض ہو جاتیں اسی طرح بارش سے خوف کھاتی تھیں ہم بارش دیکھ کر خوش ہوتے تو ڈانٹ پلا دیتی ۔ تب ان کی باتیں ، انکی ناراضی سمجھ نہ آتی تھی اب پتا چلتا ہے کہ تقسیم، ہجرت اور اس سے جڑا بارشوں کا موسم انہیں اپنے خاندان کے بکھرنے کی یاد دلاتا رہتا تھا

میرے والد اپنے پریوار کی ہجرت کو یاد کرتے ہوئے مجھے بتاتے ہیں بچپن میں اپنے خاندان کی قربانی اور اپنی محرومی کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں مل رہی تھی پھر مجھے نظریہ ، انصاف اور انقلاب مل گیا اور میرا دل مطمئن ہوگیا کہ میرے بزرگوں کی قربانی اور مہاجرت رائیگاں نہ جائے گی ۔ قربانیوں اور شہادتوں کو امید اور وجہ تسمیہ مل گئی ۔پر گزرے ماہ و سال میں دیدہ وروں کی مہربانی سے نظام مصطفی ، انقلاب ، انصاف اور ریاست مدینہ کے سراب ہمارا مقدر ٹھہرے ۔امید اور خوش گمانی کا رشتہ تھا جو وقت کا دریا اپنے ساتھ بہا لے جا رہا ہے اور آجکل وہ مسعود مفتی کے افسانے “ فاطمہ کس کے لئے “ کو بہت یاد کرتے ہیں انکی “فاطمہ “ ریاست پاکستان” ہے وہ اپنے پریوار کی ہجرت کو یاد کرتے ہیں خوابوں اور آدرشوں کو یاد کرتے ہیں ہمُ گزرے ۷۰ سالوں کو یاد کرتے ہیں رائیگانی کا سفر ہے یا کچھ اور ؟ نہیں معلوم اور نہ ہی معلوم کرنے کا حق ہے ۔ کہیں نہ کہیں انکے لہجے کی تلخی کہہ رہی ہوتی ہے “ فاطمہ کس کے لئے”۔ آخر “ کس کے لئے “

یہ کہانی عام کہانیوں کی طرح ایک عام سی کہانی ہے دکھوں کی یہ عبارت انتہائی عام اور غیر اہم لوگوں کی ہے یہ ان لوگوں کہانی ہے جن کا کوئی ذکر کسی کتاب میں ہے نہ کسی داستان میں ۔ یہ کہانی ان لوگوں کی ہے جو کبھی نہ فیلڈ مارشل تھے نہ صدر نہ وزیر اعظم اس لئے یہ انتہائی غیر اہم لوگوں کی کہانی ہے ۔ پر یہ ایک عام پاکستانی کی داستان ہے ۔ یہ تقسیم کے دوران مہاجرت کے دکھوں کی داستان ہے ان دکھوں کی داستان جن کا کوئی مداوا نہیں ۔

کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ

ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ