ڈاکٹر انورسدید کا نام اردوادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ ایک جامع الجہات شخصیت کے مالک تھے 4 دسمبر 1928 کو سرگودھا میں پیدا ہوئے -
انھوں نے محقق، ناقد، مترجم، مبصر،مورخ، صحافی، مدیر، شاعر، افسانہ نگار،خاکہ نگار،انشائیہ نگار اورکالم نویس کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی، نیز طنزومزاح اور سفرنامے کے حوالے سے بھی انھیں شہرت حاصل ہے۔ انھوں نے 80 سے زائدکتابیں تصنیف کیں اور 20 مارچ 1916 کو جہان فانی سے رخصت ہوئے-
ان کا پیدائشی نام محمد انوار الدین تھا۔ ان کے والد کا تعلق محنت کش راجپوت قبائل سے تھا۔ والد مولوی امام الدین کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ اقبال اور رومی کو اپنا مرشد سمجھتے تھے۔
انوار الدین نے اسکولی تعلیم سرگودھا میں مکمل کی۔ انہوں نے جامعہ پنجاب سے ادیب فاضل کیا۔ پھر ایف اے اور بی اے کے امتحانات انگریزی میں مکمل کیے۔
1966ء میں انسٹی ٹیوٹ آف انجنئرس ڈھاکا سے سول انجنئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور محکمہ آب پاشی پنجاب میں سرکاری ملازم ہوئے۔سنہ 1988 میں اسی محکمے سے ایگزیکٹو انجینئر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
وہ پیشے کے اعتبارسے انجینئر تھے مگر اردوادب ہی ان کا اوڑھنا اوربچھونا تھا۔
بچپن ہی سے شعروادب کاچسکاپڑگیاتھا۔ شاعری میں اپنے دورکے معروف استادمولوی محمدبخش کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا، اوران سے اپنے کلام پراصلاح لینے لگے۔ ابھی نویں جماعت میں ہی تھے کہ ’سوتیلی ماں‘ کے عنوان سے ایک عمدہ ڈرامہ تحریرکیا جوبہت پسند کیا گیا۔ اُسی زمانے میں ایک قلمی رسالہ ’شوق‘ کے نام سے جاری کیا جس کے تمام مضامین وہ خود لکھتے رہے۔ اپنے ادبی سفرکے آغاز میں وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل تھے۔ یہ افسانے ہمایوں،کامران،عالم گیر،نیرنگِ خیال، ساقی، آج کل، اورماہِ نو جیسے موقررسائل میں شائع ہوئے۔
1964میں ان کا تبادلہ ان کے اپنے وطن ’سرگودھا‘ میں ہوگیا۔یہاں ان کی ملاقات اردوکے معروف نقاد اور ادیب وزیرآغاسے ہوئی۔ وزیر آغاکی ملاقات ان کے ادبی سفرکے لیے سنگِ میل ثابت ہوئی۔ ان کے فیضِ تربیت سے ان میں کافی تبدیلی رونماہوئی۔ پہلے وہ جزوقتی ادیب تھے اب ہمہ وقتی ادیب ہوگئے۔ غالباً انھیں کے کہنے پر انورسدید نے ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور امتیازی نمبرں سے کامیاب ہوئے اورگولڈ میڈل سے بھی نوازے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے ’اردوادب کی تحریکیں‘ کے عنوان پر پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کے نگراں بھی وزیرآغا ہی تھے۔وزیر آغا بہت پرمذاق شخصیت کے مالک تھے ان کے گھر پر ادبی اورعلمی محفلوں کا سلسلہ رہا کرتا تھا۔
انورسدید ان محفلوں میں پابندی سے شریک ہونے لگے۔ اس سے ان کے ادبی شعور کو مزید تقویت اورجلاحاصل ہوئی اور شاید اِنھیں علمی صحبتوں کا فیضان تھاجس نے انھیں ایک دن اردو ادب کے معماروں کی صف میں لاکھڑاکیا۔
1948ء سے 1966ء تک انور سدید نے سرگودھا سے شائع ہونے والے اردو ماہنامہ اردو زبان کی ادارت کی۔ 1988ء سے 1992ء تک وہ وزیر آغا کے اوراق سے جڑے تھے۔ اس کے علاوہ وہ 1990ء سے 1995ء تک قومی آواز کے مدیر اعلٰی تھے اور 1995ء میں روزنامہ خبریں ، لاہور کے مدیر بنے۔ اس کے بعد انہوں نے چند سال روزنامہ نوائے وقت کے ادارتی عملے کی قیادت بھی کی۔ نوائے وقت میں گفتنی کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔
ان کا پہلا تنقیدی مضمون رسالہ’اوراق‘ کے پہلے شمارے میں ’مولانا صلاح الدین احمدکا اسلوب‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعدازاں وہ صحافت سے وابستہ ہوئے اورکئی رسالوں کے ادارتی فرائض انجام دیے۔ اسی دوران ان کا میلان انشائیہ نگاری کی طرف ہوا، چنانچہ انشائیے پر ایک جامع حوالہ جاتی کتاب ’انشائیہ اردوادب میں ‘ کے نام سے لکھی۔یہ کتاب ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ ان کی پہلی تنقیدی کاوش فکروخیال ہے جو 1971میں منظرعام پرآئی۔ یہ ان کے تنقیدی وتحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ا س مجموعے کے دو مضامین خصوصیت کے ساتھ قابل ذکرہیں ’اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش‘ اور’ اردو ادب کی چند فکری تحریکیں‘۔ اس میں سے اول الذکرمقالہ بعد میں ایک مستقل تصنیف کی حیثیت سے منصہ شہودپر آیا۔
دوسرامضمون اردوادب کی چند فکری تحریکیں ان کی تنقید کے ارتقائی سفرکی ایک اہم منزل ہے۔ اگرچہ یہ مقالہ قدرے مختصرہے لیکن ان کی وسعت مطالعہ کا آئینہ دار ہے۔ ولی دکنی سے لے کروزیرآغا کے عہد تک کے فکری دبستانوں کو اس طرح بیان کرناکہ ان میں سے ہرایک دوسرے سے ممیز نظرآئے کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن انھوں نے اس دشوارکام کوبھی بہت اچھی طرح انجام دیا۔حیرت تویہ ہے کے ان کے سامنے کوئی ایسا نمونہ بھی موجودنہ تھا۔ اس کے لیے جس طرح کی ریزہ چینی اوردماغ سوزی کرنی پڑی ہوگی ا س کا اندازہ کچھ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جنھیں اس طرح کے کام کرنے کااتفاق ہوا ہو۔
تنقیدبنیادی طورپرکسی ادب پارے کوپرکھ کراس کی قدروقیمت کا تعین ہے۔ سستی جملے بازی، جذباتیت اور محض اپنے افکارونظریات کی ترویج واشاعت تنقیدکے لیے سم قاتل ہے۔ تنقیدنگار کا مطالعہ موضوع کی مناسبت سے وقیع اورہمہ جہت ہونا چاہیے۔ انورسدیدکی تحریرکی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کے ان کی تنقید ان عیوب سے پاک ہے، ان کا لہجہ سپاٹ نہیں بلکہ تخلیقی اور رومانی ہے۔ سجادنقوی ایک جگہ انور سدید کے فن کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹرانورسدیدکے فن کی اساس ان کا مطالعہ ہے جس کے لیے انھوں نے زندگی کا بیشترحصہ صرف کیا اور ان کے تخلیقی اور تنقیدی کام کو غیرمعمولی قرار دیا گیا۔ انور سدید کی ایک اورخوبی ان کا رومانوی اندازنگارش (اسلوب) ہے جوہرصنف ادب کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیقیت کے جوہرسے مملوہے۔ ان کی ادبی جہات کثیرہیں اوراتنی جہات اُردوکے بہت کم ادیبوں میں مجتمع نظرآتی ہیں‘‘۔
(دیباچہ، ص11 ’پاکستانی ادب کے معمارانورسدید شخصیت اور فن‘ پروفیسرسجادنقوی اکادمی ادبیات پاکستان2010 )
انورسدیدنے جہاں علامہ اقبال پر’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘ اور’اقبال شناسی ‘ جیسی اہم کتابیں تحریرکی ہیں وہیں ’اردوافسانے میں دیہات کی پیش کش‘ ان کی بہت ہی اہم کتاب ہے جو افسانوی ادب میں دیہی زندگی کی عکاسی کو ایک نئے زاویے سے متعارف کراتی ہے اور اس کے نئے دریچے وا کرتی ہے۔
اس کے علاوہ ’انشائیہ اردو ادب میں‘، اردو ادب میں سفرنامہ، اردو ادب کی تحریکیں، اردو ادب کی مختصر تاریخ، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ ان کی تاریخ نویسی اور تحریری وتحقیقی صلاحیت کی غماز ہے۔ ان کی کتاب ’اردوادب کی تحریکیں‘ سے تو تقریباً پوری اردو دنیا واقف ہے۔ ان کی دوسری ایک اوراہم کتاب ’اردوادب کی مختصرتاریخ‘ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ اس مختصرسی کتاب میں جتنی جہات اورموضوعات کوشامل کیا گیا ہے شاید ہی کسی اردو کی تاریخ میں اتنی جہات اور موضوعات کاتعارف کرایا گیاہوگا۔
انورسدیدخودایک کہنہ مشق شاعر تھے ان کو مرثیہ سے خاص لگاؤ تھایہی وجہ ہے کہ انھوں نے میر انیس کی اِقلیم سخن، میر انیس کی قلم رو لکھ کر مرثیہ سے اپنے لگاؤ اور مرثیہ کی عظمت کوواضح کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ’اس کے علاوہ غالب کا جہاں اوراردوشاعری کا دیا، اردونظم کے اربابِ اربعہ، غزل کے رنگ وغیرہ جیسی تالیفات ان کی شعرفہمی اور کلاسکی ادب پران کی عمیق نظری کوواضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اردونثرمیں اپنی تحریروں کے قوس وقزح بکھیرنے والے انورسدیدنے اردونثرکے حوالے سے بھی کئی اہم اوریادگارکام کیے جن میں شمع اردو کا سفر، نئے ادبی جائزے، برسبیل تنقید، اردو افسانے کی کروٹیں، اردو نثر کے آفاق، وزیر آغا ایک مطالعہ، غالب کے نئے خطوط، (طنز ومزاح)، دلاور فگاریاں (سوانح)، جیسی کتابیں شامل ہیں۔
ان کی کتابوں کی فہرست پرایک سرسری نظرڈالنے سے بھی اندازہ ہوجاتاہے کہ ان کی تنقیدی روش کس قدرمستحکم اوران کی جہات کتنی مختلف النوع ہیں۔
ادبی تحقیق تخلیقات میں نئے زاویے، اصناف کی نئی تفہیم اور اس کے ارتقائی مراحل کی نئی حالتوں کا بیان ہے۔تحقیق و تخلیق ایک ایساعمل ہے جودنیاکے مختلف گوشوں میں جاری وساری ہے۔ ان سب کوتلاش کر اکٹھا کرنا بھی ادبی تحقیق کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی ادب کی نئی سمتوں کے تعین کا عمل بھی محقق ہی ناقدکی صورت میں انجام دیتاہے۔ ورنہ بنیادی طور پرتحقیق ادب میں صرف دریافت تک محدود ہے!۔
’’اردوافسانے میں دیہات کی پیش کش‘‘ انورسدید کی پہلی تحقیقی کاوش ہے۔ا س کے علاوہ نہوں نے اردوادب میں انشائیہ، اردوادب میں سفرنامہ جیسی اہم تحقیقی خدمات انجام دیں۔ اردوادب میں انشائیہ یوں تو دس ابواب پرمشتمل ہے، اوریہ کتاب اردو انشائیہ کی تفہیم میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کتاب کے آٹھویں باب میں انورسدیدنے: جس طرح اُردوکے گمشدہ انشائیہ نگاروں کی بازیافت کی ہے، اوران کومتعارف کرایا ہے یہ ایک کارنامہ ہے۔
ان کی کتاب ’اردوادب میں سفرنامہ‘ تقریبا ساڑھے سات سوصفحات پرمشتمل ہے۔ یہ کتاب سفرنامے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ انورسدید اس جہاں دیدہ شخصیت کا نام ہے جوہرسال ایک ایسا مضمون لکھا کرتے تھے جس میں دنیا بھرمیں اردوادب کے تحقیقی اور تنقیدی کاموں کا لیکھا جوکھا ہواکرتا تھا جو نہایت معلوماتی ہوا کرتاتھا۔ جو اہل تحقیق کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ تھا۔
اس کے علاوہ ان کے مقالے ہوںیا ان کے وہ مضامین جس میں وہ دنیا بھرمیں خصوصاً برصغیرمیں ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ ان کی تاریخ نویسی بھی تحقیق کا عمدہ نمونہ ہے۔جائزے نئے ادبی جائزے 1988، جائزہ اردوادب 1998 ء تا 2008 اس طرح کے ان کے مضامین اردوتحقیق کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔
ڈاکٹرسدیدنے اردوانشائیہ کومتعارف کروانے اور اس کی شناخت کے لیے جوخدمات انجام دی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اگرچہ وہ بنیادی طورپرناقدتھے لیکن انھوں نے سفرنامے، انشائیے اور افسانے بھی تحریر کیے۔ ان کی کتاب ’انشائیہ اردوادب میں‘ ان کی تنقیدی اورتحقیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ دسمبر، مچھرکی مدافعت میں، مونچھیں، شور، غلطی کرنا، تاروں بھری رات اور ذکر اس پری وش کا ‘ ان کے انشائیہ کے عمدہ نمونے ہیں۔ان کے انشائیوں میں کہیں شاعرانہ احساس توکہیں افسانوی اور ڈرامائی رنگ کے ساتھ ساتھ طنزومزاح کے عمدہ نمونے جابہ جا نظر آتے ہیں۔ آسمان میں پتنگیں، ذکراس پری وش کا انورسدیدکے انشائیوں کے مجموعے ہیں۔
انورسدیدایک اچھے افسانہ نگاربھی ہیں اوراس حیثیت سے بھی کسی حدتک انھوں نے شہرت پائی۔ ان کا ادبی سفرافسانے سے ہی شروع ہواتھا۔ ان کا پہلا افسانہ ’مجبوری‘ تھا۔ جس افسانے نے انورسدیدکوشہرت دی وہ ’مایوس آنکھیں‘ تھا جو ماہنامہ’ مشہور‘ کے انعامی مقابلے میں شامل ہوا اوراول انعام کے لیے منتخب ہوا۔ انور سدید نے اس کے علا وہ کئی اچھے افسانے تخلیق کیے جن میں وکٹوریہ کراس، لاوارث، ستاروں کے موتی، نیل کنٹھ، دلِ ناتواں، شیش محل، پوپھٹے،کچی مٹی کا بند اورسجدہ سہو، وغیرہ ہیں۔ چونکہ انورسدیدنے افسانے کو بہت کم منہ لگایا ا س لیے کوئی لافانی افسانہ ان کے نوک قلم سے قاری تک نہیں پہنچا۔البتہ جو بھی افسانے انھوں نے تحریرکیے اس میں ایک ادبی شان بہر حال دیکھی جاسکتی ہے اوران کے افسانوں اورکردارمیں فطرت کی عکاسی اوردیہی زندگی کا اچھابیان نظرآتاہے۔
غزل،نظم، قطعہ اورحمدونعت انورسدیدکی شعری کائنات کے کواکب ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کاآغاز 1968سے کیا،ان کی بیاض میں اتنے کلام ہیں جن سے کئی مجموعے ترتیب دیے جاسکتے ہیں لیکن ا س جانب ان کی رغبت ذرا کم ہی ہوئی۔ ان کے اشعارمیں بلا کی روانی شوخی اورندرت پائی جاتی ہے۔ حمد کے چنداشعار ملاحظہ ہوں :
اے خدا کربِ نا صبوری دے
دردبھی دے تولاشعوری دے
رب کعبہ مری گذارش ہے
مجھ کو دیدارِ آنحضوریؐ دے
مجھ کو کچھ خواہشِ دوام نہیں
زندگی دے مگر ادھوری دے
یہ ہے انور سدید کی عرضی
اس کو منظوریِ ضروری دے
چندا شعاردیکھیں:
ڈھونڈ اپنا آشیانہ آسمانوں سے پرے
یہ زمیں تو ہوگئی نامہرباں انورسدید
جب بھی گزراہوں اس شہرکی گلیوں سے سدید
آنگھ ہنستی ہے تودِل آبلہ پا ہوتا ہے
انور سدید یہ بھی ہے فطرت کا معجزہ
پھل پھول لگ رہے ہیں جو سوکھے درخت کو
ان چند اشعار کو پڑھ کرجو انورسدیدکی شاعری کا تصور ابھرتاہے وہ یہ ہے کہ ان کے کلام میں گہرائی وگیرائی کے ساتھ ساتھ ترنم جدید اسلوب اظہار، ایمائیت اور روایتی بوباس بھی ملتی ہے۔ غزلوں کے علاوہ انھوں نے بہت اچھی نظمیں بھی لکھی ہیں۔ پتھر، نروان، زمیں، استنباط، پورے سیب کی تلاش، شب خون، خزاں، سنّاٹے کی سرگوشی وغیر ان کی عمدہ نظموں میں شمار کی جاسکتی ہیں، جن میں نئی لفظیا ت کے ساتھ کلاسیکل راگوں کی گھن گرج صاف سنائی پڑتی ہے۔ انھوں نے شاعری کی دیگراصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے مثلاہائیکواوردوہے وغیرہ بھی لکھے ہیں۔
کسی بھی اخبارکی انفرادیت اس میں لکھے جانے والے کالم سے ہی قائم ہوتی ہے۔ اس کی پالیسی اور نظریات کو سلیقے سے کالم نگارہی کے توسّط سے قاری تک پہنچایا جاتا ہے۔ بنیادی طورپر کالم نویسی صحافت ہی کی ضرورت ہے۔ انور سدید اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں کالم لکھاکرتے تھے۔ وہ مدۃالعمر نوائے وقت، حریت،جسارت، خبریں جیسے روزناموں اور پورٹل کے لیے کالم نویسی کرتے۔ انھوں نے ادبی اورغیرادبی دونوں قسم کے کالم لکھے۔
انھوں نے بہت سے کالم اپنا نام بدل کرفرضی ناموں سے لکھے مثلاً زوداندیش، قلم بردار، تُلسی داس گریب، ڈاکٹر فرنویس جیسے قلمی ناموں سے بھی انھوں نے کالم تحریرکیے۔ وہ اپنے کالموں میں سیاسی، سماجی، ثقافتی، ادبی اورعالمی منظرنامے پربے باکی سے اظہار خیال کیاکرتے تھے۔عوام میں انھیں کافی مقبولیت حاصل تھی اورلوگ ان کے کالموں کو دلچسپی سے پڑھاکرتے تھے اوراس کے لیے اخبارکی آمدکے منتظررہاکرتے تھے۔ اگران کے کالموں کویکجاکیاجائے تواس زمانے کی سیاسی، تاریخی، ثقافتی اورادبی دستاویز مرتب کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر انور سدید کی ادبی وعلمی خدمات کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
تبصرہ لکھیے