جمعہ کی سہہ پہر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی ،جو اس لحاظ سے اہم رہی کہ ان کے حالیہ موقف کے حوالے سے کئی چیزیں سمجھنے کا موقعہ ملا۔
پی ڈی ایم کی جانب سے جو اعتراضات یا الزامات لگائے جاتے ہیں ، ان کی وضاحت بھی کی ، بعض آف دی ریکارڈقسم کی باتیں بھی کھل کر آن دی ریکارڈ کہہ ڈالیں اور صرف ایک دوباتیں ہی آف دی ریکارڈ کہیں۔ زماں پارک میں ان کے گھر ہونے والی اس ملاقات میں چھ سات اخبارنویس شامل تھے۔
عمران خان نے ڈیڈھ گھنٹے سے زیادہ وقت دیا، تفصیل سے اپنی باتیں کہیں، ہر سوال کا جواب دیا۔ممکن ہے وہ مزید گفتگو بھی کرتے مگر اس دوران ان کی اگلی شیڈولڈ میٹنگز کا دباﺅ بڑھتا جا رہا تھا، مجبوراً معذرت خواہانہ مسکراہٹ کے ساتھ بات ختم کی۔ سابق وفاقی وزیر فواد چودھری بھی عمران خان کے ساتھ بیٹھے تھے ، ایک دو سوالات کے جواب انہوں نے عمران خان سے اجازت لے کر دئیے ، خان صاحب بڑے ذوق شوق سے فواد چودھری کے دلائل پر تائیدی انداز سے سر ہلاتے رہے ۔
عمران خان سے میری کئی برسوں بعد ملاقات ہوئی،ان کے دور اقتدار میں پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو زیادہ جگہ نہیں ملی۔ عمومی طور پر وہ ٹی وی اینکرز اور بعد میں وی لاگرز، ٹک ٹاکرز وغیرہ کو بھی وقت دیتے رہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جمشید اقبال چیمہ کی اہلیہ مسرت جمشید چیمہ آج کل عمران خان کے ترجمان اور میڈیا خاص کر پرنٹ میڈیا کے حوالے سے کوارڈی نیٹ کر رہی ہیں۔ ان کی کوشش سے یہ تفصیلی ملاقات ممکن ہو پائی۔
ایک صحافی دوست نے مسرت چیمہ سے یہ شکوہ بھی کیا کہ یو ٹیوبر اور وی لاگر حضرات کو ضرور وقت دلانا چاہیے مگر اخبارات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی عمران خان سے ملاقات اس لئے ضروری ہے کہ آج بھی سوشل میڈیا سے زیادہ مین سٹریم میڈیا اور خاص کر اخبار کی خبر ، تجزیے اور کالم کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ مسرت چیمہ نے اس کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دو تین ہفتوں سے اس ملاقات کی کوشش کر رہی تھیں، مگر سیاسی حالات ایسے بنے کہ بہت سی دیگر ملاقاتیں ترجیحی بنیاد پر ہوتی رہیں، خاص کر صوبائی اسمبلی کے اراکین کے وفود کی ملاقاتیںوغیرہ۔
وہیں پر تحریک انصاف سوشل میڈیا کے روح رواںاور عمران خان کے فوکل پرسن اظہر مشوانی بھی موجود تھے۔ نوجوان مشوانی کا نام تو سنا تھا، ملاقات پہلی بار ہوئی۔ دھان پان سے اس نوجوان نے تحریک انصاف کے میڈیا سرکلز میں اہم ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ اظہر مشوانی نے سلام دعا کے بعد پہلا جملہ یہی کہا کہ آپ کو کئی برسوں سے پڑھ رہے ہیں، آپ ہمیشہ غیر جانبداری سے لکھتے رہے ہیں، آج کل مگر کچھ تلخ ہوئے ہیں، تحریک انصاف کے حوالے سے۔میرے پاس نرمی سے اس کا کندھا تھپتھپانے کے سوا اور کوئی جواب نہیں تھا۔ کیا کہتا کہ پہلے یہ بات مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن کے حامی کہتے تھے۔
ہم جیسے اخبارنویسوں کا یہی مسئلہ ہے کہ جس پارٹی پر تنقید کریں، ان کے کارکنوں کو وہ پسند نہیں آتی۔ ایک وقت یہ آتا ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے کارکن اور رہنما ناخوش ہوجاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کسی آزاد اخبارنویس کا یہی تمغہ اور یہی اعزاز ہے ۔ سیاست کے اس نوکیلے جنگل میں صحافی اگر غیر جانبداری اور آزادی کے ساتھ مثبت تنقیدی کردار ادا کرے تو اپنے پرائے سب اس سے خفا رہتے ہیں۔ اسلام آباد کے فسوں ساز اخبارنویس ہارون الرشید ایک جملہ اکثر لکھا کرتے ہیں کہ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گاتو بھوکا مرے گا، اخبارنویس اور سیاستدانوں کا بھی یہی تعلق ہے۔
عمران خان سے ملاقات میں پہلا سوال ہی یہ ہوا کہ آپ اپنے کل کے خطاب میں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کر رہے ہیں یا نہیں ؟عمران خان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، کل یہ مسئلہ کلیئر ہوجائے گا۔معروف تجزیہ کار برادرم سلمان عابد نے پوچھا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ شائد آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کے صاحبزادے نے اگلے دوماہ تک اسمبلی نہ توڑنے کے لئے قائل کر لیا ہے اور اب اسمبلی دسمبر کے بجائے فروری میں تحلیل ہوگی۔
عمران خان نے آنکھ اٹھا کر شرکا محفل کو دیکھا اور نرمی سے بولے، اگر فروری تک انتظارکرنا ہے تو پھر اگست تک انتظار کیوں نہیں؟اس موضوع پر دو تین بار گھما پھرا کر سوال ہوئے،مجھے ہر بار عمران خان اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے بڑی یکسو اور واضح لگے۔ میرا تاثر یہی تھا کہ وہ کل لبرٹی، لاہور کے جلسہ میں دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی واضح تاریخ دے دیں گے اور اگلے چند دنوں میں یعنی اسی دسمبر میں صوبائی اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی۔
چودھری پرویز الٰہی کے حوالے سے ایک بار پھر سوال کیا گیا کہ آف دی ریکارڈ ہی بتا دیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، ان کا موقف کیا ہے؟ عمران خان نے دھیرج سے کہا کہ دیکھیں ، وہ چاہتے تو ہیں کہ دو تین ماہ صوبائی اسمبلیاں رہ جائیں ،یہ فطری بات ہے، کچھ ڈویلپمنٹ ورک وغیرہ بھی چل رہے ہیں ، مگر وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عوامی موڈ کیسا ہے اور عوام کن کے ساتھ ہیں؟ جیسا ہم کہیں گے ، ویسا ہی چودھری پرویز الٰہی کریں گے۔چند لفظوں کے ہیرپھیر سے ایک اور سوال ہوا، اس پر بھی عمران خان کا جواب یہی تھا کہ چودھری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے ہمارے ساتھ ہی ہیں، میں کل جو بھی اعلان کروں گا، وہ اس پر عمل کریں گے۔
زماں پارک میںخان صاحب کے گھر کے باہر ویسی گہماگہمی تھی جیسا اقتدار میں موجود سیاستدانوں کے ہاں دیکھی جاتی ہے۔ باہر گاڑیوں کی طویل قطار، بھانت بھانت کے لوگ، مختلف لباس اور حلیہ رکھنے والے پرجوش کارکن، بے شمار پولیس کے گارڈز۔ اندر ملاقاتی کمرے میں البتہ مکمل سکون اور طمانیت کی کیفیت تھی۔ عمران خان گرے رنگ کی شرٹ اور ٹراﺅزر میں ملبوس تھے، ان کی دائیں ٹانگ پر پٹی اب نہیں، البتہ لگتا ہے تکلیف ابھی موجود ہے۔وہ اپنا دایاں پیر ایک سٹول پرٹکائے ہوئے تھے، مگر اپنی مضطرب اور سیماب صفت شخصیت کے پیش نظر بار بار بے چین ہو کر کبھی پیرسٹول سے ہٹا کر زمین پر رکھتے اور پھر اسے اٹھا کربائیں گھٹنے پر ٹکا دیتے ، گاہے ہاتھ سے دبانے لگ جاتے۔ چہرے پر درد اور تکلیف کے اثرات جھلکتے مگر انہوں نے اس کا زبان سے اظہار نہیں کیا۔
ان کا مجموعی تاثر پراعتماد اور ریلیکس تھا۔ باڈی لینگویج سے کسی قسم کی پریشانی، خوف یا بے یقینی نہیں جھلک رہی تھی۔ جب بھی الیکشن کی بات ہوتی ، عمران خان نہایت پراعتماد انداز میں یقینی جیت کی بات کرتے۔ انہیں یہ لگتا ہے کہ اگردونوں صوبائی اسمبلیاں فوری تحلیل ہوگئیں اور الیکشن اگلے دو تین ماہ میں ہوگئے تو وہ آسانی سے بڑی واضح اکثریت حاصل کر لیں گے۔ پی ڈی ایم پر وہ اپنے مخصوص انداز میں برستے رہے، حکومتی اتحاد کے رہنماﺅں کی مبینہ کرپشن، نیب کیسز سے بریت وغیرہ کے حوالے سے بار بار کہتے رہے کہ انہیں این آر او2 ملا ہے اور اس کے ذمہ دار باجوہ صاحب ہیں( یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ صاحب کا لاحقہ خاکسار ہی نے لگایا)۔ سابق چیف پر انہوں نے سخت تنقید کی اور ایک دو آف دی ریکارڈ واقعات بھی سنائے جو خاصے ڈرامائی تھے ۔
سابق چیف کو مطعون کرنے میں اپنا خاصا قیمتی وقت صرف کرنے کے بعد موجودہ چیف کے بارے میں سوال ہوا تو محتاط الفاظ میں صرف اتنا کہا کہ ہم نے ان کی تعیناتی کی حمایت کی کیونکہ وہ ایک اچھے پروفیشنل سولجر ہیں اور ہمیں ان سے امید ہے کہ وہ مکمل غیر سیاسی رہیں گے۔ ایک اور موقعہ پر عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی کسی بھی قسم کی مدد نہیں چاہیے۔ یہ الزام ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے اس لئے خلاف ہوئے کہ وہ ہماری مدد نہیں کر رہے۔ ہمیں عوامی تائید اور حمایت پر بھروسہ ہے، ہماری توقع صرف یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار اور غیر سیاسی رہے ۔
اکانومی ، ری سٹرکچرنگ اور دیگر حوالوں سے انہوں نے اپنا ویژن اور روڈ میپ بھی کسی حد تک شیئر کیا۔ بعض الزامات کا جواب دیا اور اپنا موقف وضاحت سے پیش کیا۔ میں نے ایک سوال کیا کہ آپ کے حوالے سے حکمران اتحاد کے بعض حلقے یہ تاثر دیتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی ناتجربہ کاری اور غیر ذمہ داری سے پاکستان کے دوست ممالک سے ریاستی تعلقات خراب کر دئیے اورہم یہ تعلقات بہتر کر رہے ہیں۔
عمران خان کے چہرے پر پہلے حیرت کے آثار پیدا ہوئے ، جیسے یہ الزام انہیں ناقابل یقین لگا، پھر ان کی تیز چمکدار مگر قدرے چھوٹی آنکھیں ایک لمحے کے لئے پھیلیں، چہرے پر سرخی دوڑی اور پھر وہ اس موضوع پر تیزی سے بولنے لگے۔ بیچ میں فواد چودھری نے بھی ایک آدھ لقمہ دیا، مگر عمران خان اپنی روانی میں مسلسل بولتے گئے۔
جب سات آٹھ صحافی کسی ملاقات میں اکھٹے ہوں تو بیک وقت کئی لوگ بول پڑتے ہیں اور جواب مکمل ہونے کا انتظار نہیں کرتے۔ اس بار بھی ایسا ہوا تو عمران خان نے ہاتھ اونچا کر کے نیا سوال کرنے والے کو روکا اور کہا، ”میں پہلے اس اعتراض کا جواب دے دوں، مجھے بات مکمل کرنے دیں۔ “ (جاری ہے)
تبصرہ لکھیے