ہوم << جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر - نوشین رمضان

جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر - نوشین رمضان

16نومبر 2022 کو لاہور اور شیخوپورہ کے سنگم میں واقع مضافاتی علاقے عابد ٹاؤن میںHelp line کے زیر انتظام الکتاب سکول میں گلوبل وارمنگ کے متعلق ایک آگاہی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔

جس کا مقصد گلوبل وارمنگ جیسے خطرناک ترین مسئلہ کی طرف طلبا کی توجہ مبذول کروانا اور اس کے اثرات کم کرنے کی طرف راغب کرنا تھا۔اس پروگرام میں شرکت کے لیے لاہور کے مختلف بہترین اسکولوں کے مہتمم حضرات، اساتذہ اور طلبا کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ علم و ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ساتھ ساتھ صحافت کے بے تاج بادشاہ محترم جناب مجیب الرحمن شامی صاحب نے بھی اس تقریب کی رونق کو چار چاند لگائے۔ جبکہ پروگرام کے مہمانِ خصوصی محترم Mr. Arash Radgoudarzi جو بین الاقوامی کمپنی Henkelکے روح رواں ہیں نے بھی اپنا قیمتی وقت نکال کر اس محفل کو عزت بخشی۔

مہمانوں کی آمد پر الکتاب ہائر سکینڈری اسکول کے چاق وچوبند دستے نے سلامی پیش کی۔ کڈز سیکشن کی بچیوں نے انہیں پھولوں کے گلدستے پیش کرتے ہوئے خوش آمدید کہا۔ سکول گیٹ سے پنڈال تک طلبا اور طالبات دو رویہ صف بنا کر تالیوں کے شور میں مہمانان گرامی کا استقبال کر رہے تھے۔ یہاں سے مہمانوں کو ان کی نششت تک رہنمائی کرنے کے لیے گرل گائیڈز اور بوائے اسکائٹس ہر پل ہر دم تیار موجود تھے۔

مہمان ِخصوصی نے استقبال کے فوراً بعد سکول کی آئی ٹی لیب کا افتتاح کیا۔ جسے ’’ہینکل کمپیوٹر لیب‘‘سے موسوم کیا گیا ہے۔محترم مہمان نے اس لیب کے لیے ضروری ’’لیپ ٹاپس‘‘ کا تحفہ بھی عنایت فرمایا۔ جس کے لیے انتظامیہ اور طلباتہہِ دل سے ان کی شکر گزار ہیں۔ اس خوبصورت تقریب میں نقابت کے فرائض سکول کی مایہ ناز ٹیچر محترمہ اقرا علی صاحبہ کے ساتھ گیارہویں جماعت کے حسین اعجاز اور جماعت نہم کی عدیلہ رمضان نے انجام دیے۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز جماعت ہفتم کے طالب علم عبدالرحمن اشفاق نے تلاوتِ قرآن پاک سے کیا جبکہ انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کا شرف جماعت نہم کی علیشہ سجاد نے حاصل کیا۔اس کے بعد تمام شرکا کو مجموعی طور پر خوش آمدید کہنے کے لیے نرسری جماعت سے علی حسن اور صالحہ عبداللہ جبکہ دوم جماعت سے ایان شاور آئے۔ بچوں نے بالترتیب انگلش، اردو اور عربی زبان میں حاضرین محفل کو استقبالیہ پیش کیا۔ پھر بارہویں جماعت کی سعدیہ نے ’’ہماری لاپرواہی اورفصلِ گل‘‘ کے عنوان سے تقریر کی۔ پرجوش مقررہ نے شجر کاری کی اہمیت کو ناصرف سائنسی نقطہ نظر سے اجاگر کیا بلکہ اسلامی لحاظ سے بھی اسے امرِ لازم قرار دیا۔ مقررہ نے حالیہ سیلابی صورت حال کے تناظر میں یہ اشعار پیش کییجو بہت پسند کیے گئے۔

کسی ظالم کسی غاصب کسی قاتل کے لیے

خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگوں

اب کے گر سیلاب آیا تو قیامت ہو گی

میرے دلگیر میرے درد کے مارے لوگو

سعدیہ نے اس شعر کے ساتھ حاضرین کے دلوں میں شجر کاری کرنے کے جذبے کومہمیز دیتے ہوئے اجازت چاہی۔

ہم اپنے خون سے صحرا میں فصل گل اگا دیں گے

چمن میں کون بہاروں کاانتظارکرے؟

ارے یہ کیا! ہماری اتنی خوبصورت تقریب میں ایک بن بلایا مہمان بھی آگیا ہے، وہ بھی سٹیج پر۔کمپیئرز کو چپ کروا حاضرین سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ یہ تھا ایک آم کا درخت جو بچوں کو آپ بیتی سناتے ہوئے انہیں درخت لگانے پر اکسا رہا تھا۔

کہتا تھا بچو!

درخت لگا لو درخت ورنہ

گرمی پڑے گی سخت

بارشیں، سیلاب زیادہ ہونگے

پریشان ہو جائیں گے بخت۔

آم کا درخت آئے اور آم کھلائے بغیر چلا جائے۔ کمال نہ ہو جائے؟وہ تو کھسکنے کیموڈ میں تھا ہماری کمپیئر نے بلا ہی لیا کہ آم تو کھلاتے جائیں۔اس نے خود سے ایک آم توڑا اور اس کی طرف اچھالتے ہوئے کہا

ساہڈے نال رہوو گے تے عیش کرو گے

زندگی دے سارے مزے کیش کرو گے

واہ جی واہ! اس کردارکو جماعت دوم کے علی حیدر نیبخوبی ادا کیا اور ڈھیروں داد وصول کی۔ اگلی تقریر زوہیب میراں نے ’’شب سیہ میں یقیں کا سورج‘‘ کے عنوان سے پیش کی۔ شعلہ بیاں مقرر نے صنعتی انقلاب سے پہلے اور بعد والی زندگی کا موازنہ پیش کرتے ہوئے مشینوں کے استعمال سے بیزاری کا اظہار کیا اور حاضرین کو سادہ زندگی گزارنے پر راغب کیا تاکہ ماحول میں موجود خطرناک گیسوں کی شدت کم کی جا سکے۔زوہیب کے مطابق حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ جاننے والوں کی اکثریت مایوسی کا شکار ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے۔

شبِ سیاہ میں یقیں کا سورج اچھال دو گر تو بات بھی ہے۔

چراغ ِ رخ سے فضائے تیرہ اچھال دو گر تو بات بھی ہے۔

دلوں کی بنجر زمیں کب سے سحابِ رحمت کی ہے سوالی

حیاتِ تازہ کو پھر سے جاہ وجلال دو گر تو بات بھی ہے۔

پرائمری سیکشن سے بچوں نے ایک ٹیبلو پیش کیا سب بچے درخت کی صورت اختیار کیے ہوئے تھے اور انسانوں سے گذارش کر رہے تھے’’نہ کاٹو مجھے دُکھتا ہے‘‘ بچوں نے درختوں کے جذبات کو بہترین انداز میں پیش کر کے حاضرینِ ِمحفل کے دل موہ لیے۔ انگریزی میں تقریر کرنے کے لیے کشف الطاف کو دعوت دی گئی جن کا موضوع ’’گلوبل وارننگ‘‘ تھا۔ ان کے مطابق روئے زمین پر صرف انسان وہ جاندار ہے جو اسی تھالی میں چھید کر رہا جس میں کھاتا ہے۔کشف نے فورسٹیشن اور ری فورسٹیشن کرنے پر زور دیا اورکہا کہ اگرہماری مثبت کوششوں سے کوئی ایک جان بچ گئی تو وہ ایسا ہو گا جیسے ساری انسانیت موت کے منہ سے بچا لی گئی ہو۔

سعدیہ اصغر نے محترم مہمانوں کو ہیلپ لائن اور الکتاب سکول کا طلبا سے تعلق واضح کرنے کے لیے ایک سچی کہانی انگریزی میں سنائی۔اس کے بعد ہائی سیکشن کے طلبا اور طالبات ماحول کو مضر بنانے والے عناصر کا بھیس بدلے آئے اور انسانوں کو بتایا کہ یہ سب تباہی آپ کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ بچوں نے طنز و تشنیع کر کے لوگوں کو ماحولیاتی بہتری کی طرف گامزن کرنے کی بھر پور کوشش کی جو بے حد پسند کی گئی۔ اس ٹیم نے آخر میں مسائل کے حل بھی بتائے۔ اقصی کے گروپ نے مادرِ وطن سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے بڑے جوش و ولولے سے ملی نغمہ دل دل پاکستان جاں جاں پاکستان سنایا۔ تقریب کے اس حصے میں سامعین بھی گنگنانے لگے اور ہر طرف پاکستان پاکستان گونجتا ہوا محسوس ہوا۔

آخر میں ڈائریکٹر ہیلپ لائن محترم جناب محمد نعیم صاحب نے مہمانان گرامی کو سپاس نامہ پیش کیا۔ بانی ہیلپ لائن محترم جناب اخلاق الرحمن صاحب نے مہمانوں کو ہیلپ لائن سے متعارف کروایا اور اس کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی۔ مہمانوں کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی تو محترم مجیب الرحمن صاحب نے ہیلپ لائن اور الکتاب کی کوششوں کو سراہا۔ اور ماحول کو بچانے کے لیے کی گئی کاوشوں پر داد دیتے ہوئے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ہینکل کے سرپرست محترم جناب عرش صاحب نے انتظامیہ کے ساتھ طلبا و اساتذہ کی محنت اور لگن کی تعریف و توصیف کی۔

انکا کہنا تھا کہ وہ یہاں سے خوشگوار یادیں سمیٹے ہوئے بہت کچھ سیکھ کر جا رہے ہیں۔ محترم مہمان نے جب اپنے انگلش لہجے میں دل دل پاکستان جاں جاں پاکستان کہا تو ہر چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔انہوں نے الکتاب ہائیر سکینڈری سکول کی پرنسپل محترمہ سونیا گلزار صاحبہ کو بہترین کارکردگی پر اعزازی سرٹیفیکیٹ سے نوازا۔ جبکہ ہیلپ لائن و الکتاب کی جانب سے محترمہ لبنی یعقوب صاحبہ نے مہمان خصوصی کو ایک سر سبز نہالِ زیتون تحفے میں دیا۔تقریب کا اختتام اسمائُ الحسنی کے پرنور ورد سے ہوا۔بعد میں مہمان خصوصی نے الکتاب میں ایک باغ کا افتتاح کیااور اس میں طلبا کے ساتھ مل کر نئے پودے لگا کر باقاعدہ شجر کاری کی۔

معزز قارئین!

ہمارے طلبا اور اساتذہ زمین اورماحول کو بچانے کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مگر انہیں یہ جنگ جیتنے کے لیے شجر کاری کرنے والے شہبازوں کی کمک کی اشد ضرورت ہے کیا آپ انکا ساتھ دیں گے؟ چلیے پھراپنے اردگرد چند پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال کیجیے۔

Comments

Click here to post a comment