وہ برسوں سے ماند پڑے قسطنطنیہ کے آسمان پر نیا چمکتا ہوا ستارہ،
لاکھوں کے مجمع کو اِک ماں کی طرح محبت سے مخاطب کرکے پکار رہا تھا
”اے میری پیاری قوم!
مجھے سب سے زیادہ محبوب!“
اور جواب میں وہاں موجود جم غفیر اسے یہ پیغام دے رہا تھا کہ وہ ان لاکھوں دلوں میں دھڑکن کی طرح دھڑک رہا ہے۔
اور وہ اپنی قوم کے سامنے اپنا مقصدِ حیات بیان کررہا تھا:
” اے میری قوم! زمین پر میرے مقصد کو طول نہ دو“
وہ ان سے سوال کررہا تھا:
” کیا ملک کے پرندے تمھیں کوئی خبر نہیں سناتے؟“
کون نہیں جانتا کہ بھلا پرندے کون سی خبریں سنایا کرتے ہیں!
پرندے تو طوفانوں کی آمد کی خبر ہی لایا کرتے ہیں۔
مگر ان طوفانوں کی آمد کی خبروں میں بھی وہ خوشخبریاں سنارہا تھا
”تمھارے شہیدوں کی قبروں سے بہارامڈ رہی ہے“
اس کا اِک اِک لفظ گویا سننے والوں کے دلوں میں پیوست ہوتا جارہا ہے۔
اپنی قوم کو محبوب قرار دیتا یہ ستارہ ایک اور سچائی بیان کرنے لگا تھا
”جب محبوب کا ساتھ ہو تو بے جان انسان سے بھی محبت پھوٹتی ہے،
اسی طرح جس طرح زندگی اور موت کے درمیان اک منفرد زندگی“
وہ ان کو ایقان کی گہرائیوں میں اُتار رہا تھا:
”میں تم سے مایوس ہرگز نہیں ہوں۔“
اور ساتھ اپنے خدشات کا اظہار کررہا تھا:
”لیکن اِک شیطانی آنکھ ( دجالی آنکھ) ہے جو مجھے پریشان کررہی ہے۔“
مگر ساتھ ہی اس سے نمٹنے کا طریقہ سمجھارہا تھا:
”ہمیں پھر بھی یہاں محبتوں کے گیت گانے ہیں، ہمیں کوئی پروا نہیں کہ ہمارے مدِّ مقابل کیا کرتے ہیں۔“
وہ اللہ کے قادر مطلق ہونے کا کھلم کھلا اظہار کررہا تھا اور بتا رہا تھا کہ اللہ کے اذن کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔
” کیونکہ کچھ چیزیں آسمان (اللہ) کی طرف سے طے شدہ ہیں۔ “
وہ رب اعلیٰ کے بنائے گئے نظام کائنات کی حقیقتیں کھول رہا تھا۔
وہ پوچھ رہا تھا بتائو:
” کیا ہوتا ہے جب دن ڈھل جاتا ہے۔“
جواب بھی آپ ہی بتارہا تھا
” کوئی تو (اللہ) ہے نا جو اس رات کے گزرنے کا سبب پیدا کرتا ہے۔“
تو تم یاد رکھنا کہ راہ میں آنے والی ہر تاریک رات گزرنے والی ہے۔ وہ اس راہ میں اپنے کام آجانے (شہید ہوجانے) کے لیے بھی تیار کررہا تھا۔
”ممکن ہے اس راہ میں میں خاکستر (شہید) ہوجائوں لیکن میری خاک سے کامرانی کے قلعے تعمیر ہوں گے، کیونکہ ہر شکست کے بعد اک فتح ہے۔“
وہ بتا رہا تھا کہ کوئی بھی ہمیشگی کی زندگی ساتھ نہیں لاتا، مگر جس راہ پر وہ زندگی بھر چلتا ہے، اس کی خاک بھی بعد میں آنے والوں کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہے۔
وہ کہہ رہا تھا کہ بس یاد رکھنا کہ وقتی شکست سے نہیں گھبرانا کہ فتح تمہاری منتظر ہوگی۔
اور اس فتح کی کنجی کا پتا دیتے ہوئے وہ اپنی قوم کی تربیت کر رہا تھا اور یہ تربیت کیا خوب ہے:
” تمہارے پاس ہر راز (کامیابی) تک پہنچنے کی کنجی (قرآن کریم) موجود ہے۔
وہ تمھارے دل کی آواز ہے۔
وہ تمہیں تمہارے ماضی ( خلافت عثمانیہ) کی جانب بلاتی ہے۔
میں کبھی تم لوگوں سے مایوس نہیں ہوا ہوں کیونکہ تمھارے دلوں میں جذبوں کا اک طوفان ہے۔
وہ کتنی محبت اور چاہ سے اپنی قوم کو بلارہا تھا:
”اے میری پیاری قوم
مجھے سب سے زیادہ محبوب
اے میری محبوب قوم“
اور ان کے سامنے بیٹھے ہوئے ہجوم میں مائیں، بہنیں اور بھائی بزبان حال وبزبان قال یہ گواہی دے رہے تھے کہ ہم آپ سے کبھی بے وفائی نہیں کریں گے۔
وہ یہ سب دیکھ کر، اور تمام سازشوں کو روند کر غرور نہیں تھا، بلکہ وہ کہہ رہا تھا:
”میں تمام تعریفیں رب کے لیے خالص کرتا ہوں۔
میں حمد بیان کرتا ہوں اس رب کی جس نے اس دور میں ہمیں اپنے مقصد کے لیے چنا۔
جس نے ہمیں حوصلہ اور جوش عطا کیا، جس نے ہمیں صبر کی تعلیم دی۔ مزاحمت کا حوصلہ بخشا۔
تعریف اس کے لیے جس نے ہمیں خوبصورت اقدار بخشیں، جس نے ہمارے دلوں میں محبت بھر دی ہے۔
اس ملت اور ملک کی خدمت کا موقع اور جذبہ دیا ہے۔
میں اس اللہ تعالیٰ کی جانب ان تمام تعریفوں کا رخ موڑتا ہوں۔
یہ جو کچھ میں نے بیان کیا وہ اس وجہ سے کہ ہمیں اس سے محبت کرنا چاہیے۔
اسی طرح ہم سب دوستوں کو سجدہ کرنا چاہیے۔
اور ہم سب کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔
جو موجود ہیں، وہ بھی جو اس ہال میں ہیں اور وہ بھی جو باہر سڑکوں پر بیٹھے ہیں
تاکہ دل کی گہرائیوں سے اس کی حمد بیان ہوجائے۔“
اس کی زباں سے ادا کیا گیا اک اک لفظ اپنی سچائی کی گواہی دے رہا تھا اور بلا تفریق مرد و زن لاکھوں حاضرین کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ ان میں بوڑھے اس چمکتے ستارے میں اپنے تڑپتے ماضی کی جھلک پاکر اشک بہارہے ہیں تو جوان بھی ہیں۔ اک نیا حوصلہ اور اک جنوں ہے جو ان کے رخساروں پر عیاں ہورہا ہے۔
اسکارف والی خواتین اگر نم دیدہ ہیں تو اسکرٹ اور بلائوز میں بغیر اسکارف کے کھلے بالوں والی بھی اپنی قوم سے مخلص اس مردِ دانا کی باتیں سن کر اپنے آنسوئوں پر قابو نہیں رکھ پارہی تھیں۔
بہت خوبصورتی سے یہ چمکتا دلوں میں دھڑکتا ستارہ اپنی اور اپنی محبوب قوم کی تمام تر کامیابیوں کو رب کی جانب موڑ دیتا ہے۔
اورفضا رب کی بڑائی سے گونج اٹھتی ہے۔
وہ اپنی جذبات سے لبریز قوم کی تربیت کر رہا ہے۔
اسے اس کے حقیقی مرکز (اللہ) کا واشگاف الفاظ میں پتا دے رہا ہے، اور اپنے اور اس قوم کے چنے جانے پر اپنے رب اعلیٰ کا شکر گزار ہو رہا ہے
وہ محبتوں کے اس سیل رواں کو اللہ رحمت قرار دے رہا ہے
وہ اپنے رب اعلیٰ کی وحدانیت کا پرچار کر رہا ہے
وہ موجود اور غائب سب کو پکار کر کہہ رہا ہے:
جس رب اعلیٰ نے تمہیں یہ سب عطا کیا، اس کو سجدہ کرو
بہتے آنسو بتا رہے ہیں کہ اس کے سچے ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں۔
اس کی آواز میں سچائی کی گونج ، اور لہجے کی دھمک حاضرین کے دلوں میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی ہے۔
جو اس کے سامنے ہال میں موجود ہیں وہی نہیں بلکہ میلوں تک سڑکوں پر بیٹھے وہ سارے عشاق ایسے ہی اس کے کہے کو سچا مان رہے ہیں، اس پر اپنے یقین کے اشک ثبت کررہے ہیں
اور وہی کیا، ہزاروں میل دور بیٹھی گھنٹوں سے اپنی اسکرین پر آنکھیں جمائے
ہتھیلیوں سے اپنے اشکوں کو صاف کرتی یہ اسریٰ
ہاں میں بھی تمھارے اِک اِک حرف کی سچائی اور تمھارے جذبوں کی گواہ ہوں
میری دعائیں تمھارے ساتھ ہیں
تم صرف قسطنطنیہ کے آسمان کا چمکتا ستارہ نہیں
بلکہ تم ملت اسلامیہ کے ماتھے کا وہ جھومر ہو
جسے برسوں سے تلاشا جارہا ہے
خدا تمہیں سلامت رکھے
میرا رب تمہیں اپنی پناہوں میں رکھے
تم اس ملت اسلامیہ کے آنگن میں چاند بن کر چمکو
تم سچے اور حقیقی قائد ہو اور قائد کواپنی قوم کی تربیت کرنا ہوتی ہے
سلام ہے اے قائد! آپ نے اپنی قوم کی کیا ہی خوب تربیت کی ہے
اس قوم کو مبارک ہو کہ …
اسے ایسا قائد نصیب ہوا جو صدیوں میں پیدا ہوا کرتا ہے
یہ بڑے نصیبے کی بات ہے
بخدا! یہ بڑے نصیبے کی بات ہے۔
(طیب اردگان کا وہ خطاب جس سے متاثر ہوکر یہ تحریر لکھی گئی)
https://www.facebook.com/RTEUrdu/videos/vb.2068542976704892/2081033938789129
it is a best pegham and best salam