ہوم << بند گلی - محمد اکرم چوہدری

بند گلی - محمد اکرم چوہدری

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت تھانہ مارگلہ میں اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران و عدلیہ کو دھمکی دینے پر مقدمہ درج ہو چکا ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ ڈیوٹی مجسٹریٹ علی جاویدکی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ عمران خان کی گفتگو قابل گرفت ہے اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

ریاستی اداروں کے خلاف اس طرح کی بیان بازی سے نفرت پھیلتی ہے۔ ایسے بیانات سے ناصرف ملک میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ عمران خان کا موجودہ طرز سیاست ایسا نہیں کہ جس کی حمایت کی جا سکے، سیاسی فیصلوں میں یا سیاسی میدان میں اتار چڑھاو¿ آتے رہتے ہیں لیکن کسی بھی لمحے ریاستی اداروں کے خلاف بیانیہ قائم کرنا اور اس سلسلے میں مسلسل بیانات تبدیل کرنا اور عام آدمی تک غلط معلومات پہنچانا بہرحال ناقابلِ برداشت ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں کی اہم شخصیات کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بات چیت ہوتی رہی لیکن کیا پاکستان تحریکِ انصاف جانتی ہے کہ ان جماعتوں نے اپنے اس موقف کی کیا قیمت ادا کی ہے۔ اگر کسی بھی سیاسی جماعت نے ریاستی اداروں کے خلاف مہم شروع کی ہے تو انہوں نے نقصان بھی برداشت کیا ہے۔

ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آپ تو ایک صفحے کے دعویدار تھے اگر آپ نے بھی اختلافات کی وجہ سے ایسے معاملات میں ان لوگوں کی پیروی کرنی ہے جنہیں آپ صبح ، دوپہر شام، رات برا بھلا کہتے ہیں تو پھر ایسے مشورے دینے والوں اور ایسے دلائل پیش کرنے والوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ آپ اپنے دفاع کے لیے ان لوگوں کی غلطیوں کی مثال دے رہے ہیں جن سے آپ بات بھی نہیں کرنا چاہتے، نہ ان کی شکل دیکھنا چاہتے ہیں پھر اپنی غلطیوں کا دفاع کرنے کے لیے کسی کی غلطی کو دلیل بنانا کہاں کہ عقلمندی ہے۔ یعنی اگر کل کلاں آپ پر کوئی کرپشن کیس بنتا ہے تو کیا یہ کہیں گے کہ نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی تو ایسا کیا تھا۔ یہ صورتحال افسوسناک ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان ملک و قوم کو ہی ہو گا۔

یہ درست ہے کہ ملک میں دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی مختلف اوقات میں ریاستی اداروں کے حوالے سے متنازع گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن وہاں حالات نسبتاً مختلف تھے۔ بھلے گفتگو پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے ہوئی یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے یا پھر مولانا فضل الرحمٰن کا ذکر ہو، وہاں اگر کوئی سخت زبان استعمال کرتا ہے تو کئی لوگ بیک وقت اس نامناسب گفتگو کا اثر زائل کرنے اور معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کے لیے بھی کام کرتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں اپنی غلطیوں کا نقصان برداشت کرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ قومی دھارے کی سیاست کا حصہ بنی رہیں بدقسمتی سے پاکستان تحریکِ انصاف میں ایسی صورتحال نہیں ہے۔

عمران خان کے اردگرد کھڑے افراد غلط مشورہ دیتے ہیں پھر نامناسب گفتگو کو پھیلاتے ہیں اور پھر بھاری نقصان کا انتظار کرتے ہیں۔ کیا ان میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہو سکتی کہ درجہ حرارت میں کمی کے لیے کردار ادا کریں۔ یہاں ایسا نہیں ہے ان کے ساتھ کھڑے لوگ ناصرف تماشا دیکھ رہے ہیں بلکہ وہ اپنے قائد کو اس بند گلی میں لے گئے ہیں جہاں سے واپسی کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ نجانے سورج طلوع ہونے تک کیا کچھ بدل جائے کیونکہ حالات پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے بیانات سے بھی زیادہ تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ایک دن آپ شہباز گل کے بیانات کو غلط قرار دیتے ہیں دوسرے دن آپ اس کی حمایت میں ریلی نکالتے ہوئے اپنے پہلے موقف کی ناصرف نفی کرتے ہیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر سب کو دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔ یہ طریقہ کار نہیں ہے۔ سیاست ایسے نہیں ہوتی۔ سیاست میں اتار چڑھاو¿ کا نام ہے۔ آپ ضمنی انتخابات جیت رہے ہیں، پنجاب میں کامیابی حاصل کی ہے کراچی میں بھی جیت گئے ہیں پھر کون سی چیز ہے جو آپ کو جلد بازی پر مجبور کر رہی ہے۔

موجودہ حالات میں سیاسی عدم استحکام کا نقصان ملک کو ہو گا۔ سیاست دان معاشی عدم استحکام کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ ہر وقت مظاہروں ، احتجاج، عدالتوں، اداروں کے خلاف بیان بازی، جرائم پر قابو نہ پانا اور میرٹ کو پامال کرنا، بدعنوانی کو عام کرنا، بددیانت افراد کے لیے ترقی کے راستے کھولنے کا ذمہ دار کوئی اور تو نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدان اقتدار میں واپسی کے لیے ہر وقت سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ عدم استحکام کی بنیادی وجہ "پاور گیم" کوئی بھی دوسرے کو موقع نہیں دینا چاہتا۔ آج بھی وہی حالات ہیں، نون لیگ کی حکومت میں عمران خان کا دھرنا تھا تو عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن جماعتیں احتجاج کی سیاست میں مصروف رہیں۔

اب متحدہ حکومت ہے تو عمران خان سڑکوں پر ہیں پھر ہم عدم استحکام کا الزام کسی اور پر عائد کرتے ہوئے خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے وہ لوگ جو بات چیت کر سکتے ہیں انہیں ڈائیلاگ کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے۔ ہر غلط پالیسی پر سر جھکانے کے بجائے درست راستے کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ بہرحال موجودہ سیاسی صورتحال تشویشناک ہے۔ اللہ ملک کو کسی بھی بڑے نقصان سے محفوظ رکھے۔

Comments

Click here to post a comment