ہوم << موت کی تعریف اورموت میں مدد دینے کا شرعی حکم - مفتی منیب الرحمن

موت کی تعریف اورموت میں مدد دینے کا شرعی حکم - مفتی منیب الرحمن

جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ عربی وعلوم اسلامیہ کی پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر محترمہ عائشہ نعیم نے چند سوالات بھیجے ہیں. ہم عام لوگوں کے استفادے کے لیے ان کے سوالات مع جوابات شائع کر رہے ہیں. اہلِ علم اپنے دلائل کی روشنی میں ہمارے موقف سے اتفاق یا اختلاف کرسکتے ہیں. سوالات درج ذیل ہیں:

(۱) اگر کسی شخص کی بیماری کو ڈاکٹرز لاعلاج قرار دے چکے ہیں تو کیا شدید تکلیف سے جلد نجات دینے کے لیے ایسے مریض کا علاج ترک کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ اس مرض سے جلد وفات پاکر تکلیف سے چھٹکارا حاصل کرلے. نیز اگر لا علاج مریض کو کوئی دوسری قابلِ علاج بیماری (جیسے کینسر کا مریض نمونیہ میں مبتلا ہوجائے) لاحق ہوجائے تو کیا نمونیہ کا علاج ترک کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کے علاج کو ترک کرکے مریض کی موت جلد واقع ہونے کا امکان ہے.

(۲)شرعی اعتبار سے کسی شخص کی موت واقع ہوجانے کا حکم کس صورت میں لگایا جاتا ہے:
(الف) حرکتِ قلب بند ہوجائے اور دماغی موت (Brain Death)بھی واقع ہو یا
(ب) صرف حرکتِ قلب بند ہوجائے ،خواہ دماغ ابھی زندہ ہو یا
(ج) جب دماغی موت واقع ہوجائے، لیکن حرکتِ قلب باقی ہو.

(۳) اگر کوئی شخص کوما میں ہو یا اس کی دماغی موت واقع ہوجائے تو اس کا علاج جاری رکھنا واجب ہے یامستحب یا مباح ، ہر صورت کا شرعی حکم بیان فرمائیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق زندگی کی امید ابھی باقی ہو، لیکن مریض کے رشتے دار اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تو کیا حکم ہوگا، کیا وینٹی لیٹر ہٹایا جاسکتا ہے یا نہیں. دوسری صورت میں اگر اخراجات ناقابلِ برداشت ہیں اور بچنے کی امید بھی نہیں تو کیا اب علاج ترک کیا جاسکتا ہے یا قرض لے کر علاج کروانا ضروری ہے‘‘۔

ہمارے نزدیک ان سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

ہمارے جسم وجاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق ، اس کی مِلک ، اُس کا انعام اور اُس کا عطیہ ہیں. خالق ومالک نے شریعت کی طے کردہ حدود کے اندر اپنے اختیارِ تمیزی کے ساتھ ان کو استعمال کرنے کا ہمیں حق عطا کیا ہے. اسی پر جزا وسزا کا مدار ہے اور اسی بناپر بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا مُکلَّف اور اس کے حضور جوابدہ ہے۔ہم اس جسم وجاں کے مالک نہیں ہیں،اس لیے ہمیں اپنی جان کو تلف کرنے کا قطعاً اختیار نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ شریعت کی رُو سے خود کشی حرام ہے.

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(1)’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، (البقرہ:۱۹۵)‘‘
(2)’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بلاشبہ اللہ تم پر بڑا مہربان ہے ،(النساء :۲۹)‘‘

احادیث مبارکہ میں ہے:
(1)’’حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو آہنی ہتھیار سے قتل کیا ،تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور وہ ہتھیار اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گااور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا ، تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور زہر پیتا رہے گا اور جس نے کسی پہاڑ سے گر کر اپنے آپ کو ہلاک کیا تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور (جہنم کی گہرائیوں میں )لڑھکتا چلا جائے گا،(صحیح مسلم:109)‘‘

(2)’’حضرت جابرایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں: جب نبیﷺ نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو آپ کے ساتھ حضرت طفیل بن عمرو دَوسی اور اُن کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی، اس شخص کو مدینے کی آب وہوا راس نہ آئی ،سو وہ بیمار ہوگیااور فریاد کرنے لگا۔پس (تکلیف سے بے قابو ہوکر )اس نے چوڑے پھل کا ایک تیر لیا اور اپنی انگلیوں کو جوڑوں سے کاٹ دیا، پھر اس کے ہاتھوں سے خون بہتا رہا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگیا۔ بعد میں طفیل بن عَمرو نے اُسے خواب میں اچھی حالت میں دیکھا ،اچانک اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹا ہوا ہے ، طفیل نے اس سے پوچھا:

آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟، اس نے جواب دیا: نبی ﷺ کے ساتھ ہجرت کی برکت سے اللہ نے مجھے بخش دیا ۔ پھر انہوں نے پوچھا: یہ آپ کے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹا ہوا میں کیا دیکھ رہا ہوں؟، اس نے جواب دیا: مجھے فرمایا گیا: جس چیز کو تم نے خود بگاڑا ہے ،ہم ہرگز اسے درست نہیں کریں گے ، پس جب طفیل نے یہ خواب رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کی خطا کو بھی بخش دے.(صحیح مسلم:116)‘‘

الغرض حالتِ اضطرار میں ایک صحابی رسول ﷺ کے اس عمل کے باعث اُن کی اُس علامت کو برقرار رکھا جو اُن کی موت کا باعث بنی . سو رسول اللہ ﷺ نے اُن کے ہاتھوں کی خطا کی معافی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی. اُن کے لیے تو یہ وسیلہ موجود تھا، آج کے دور میں کوئی مسلمان خود کشی کے جرم کا ارتکاب کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کیا جواب دے گا۔ لہٰذا اگرکسی شخص کو ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دیا ہو یا وہ کسی بیماری کے سبب زندگی سے عاجز آگیا ہو اوراُس کے لیے تکلیف ناقابلِ برداشت ہوگئی ہو. تب بھی شریعتِ اسلامیہ کی رو سے موت میں اس کی مدد کرنا جائز نہیں ہے،راحت وتکلیف اور حیات وموت اللہ کے اختیار میں ہے، موت میں مددقتلِ نفس کے مترادف ہے۔

موت میں مدد سے مراد یہ ہے کہ اُسے کوئی زہریلا انجکشن لگادیا جائے یا کوئی ایسی دوا پلائی جائے جس سے اس کی موت واقع ہوجائے۔ طبی اصطلاح میں موت میں مدد دینے کو Mercy for Death(تَرَحُّمْ لِلْمَوت) یاEuthanasia یا Physician-Assisted DeathیاMedical Aid in Dyingکہتے ہیں ،ظاہر ہے یہ مریض کی خواہش اور درخواست پر ہوتا ہے ۔ہماری معلومات کے مطابق بیلجیم ، لگزمبرگ، کینیڈا، نیوزی لینڈ، اسپین، ہالینڈ، کولمبیا اور امریکہ کی ریاستوں کیلی فورنیا ، کولوراڈو ، ہوائے، مونٹانا ، میانی، نیوجرسی، نیومیکسیکو، اوریگن، ورمَنٹ اورڈسٹرکٹ آف کولمبیایعنی واشنگٹن میں بھی قانونی طور پر یہ سہولت موجود ہے۔

پس اسلام کی رو سے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، موت میں مدد کرنا جائز نہیں ہے، حیات وموت اللہ تعالیٰ کی قدرت واختیار میں ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وہ جس نے موت اورحیات کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے بہترین کون ہے، (الملک:2)‘‘

علاج بعض صورتوں میں واجب ہے ،بعض صورتوں میں سنّت اور بعض صورتوں میں مباح ہے۔ نیز جن صورتوں میں علاج واجب ہے ،وہ اس امر کے ساتھ مشروط ہے کہ علاج دستیاب ہو ، اُس پر قدرت ہو اور اُس کی مالی استطاعت بھی رکھتا ہو، ورنہ استطاعت نہ رکھنے والا علاج نہ کرنے کی صورت میں گناہگار نہیں ہوگا،اس علاج سے صحت یابی کا ظنِّ غالب ہو، کیونکہ پھر یہ تکلیف مالا یُطاق یعنی بندے کو ایسے فعل کا پابند بنانا ہوگا ،جس سے عہدہ برآ ہونا اُس کے بس سے باہر ہوگااور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اللہ تعالیٰ کسی انسان کو صرف ایسے کام کے لیے جوابدہ بناتا ہے جس سے عہدہ برآ ہونا اُس کے بس میں ہو،(البقرہ:286)‘‘

جن صورتوں میں علاج واجب ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) عورت مرجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو، اگر اس کے پیٹ کی سرجری کر کے زندہ بچے کو مردہ عورت کے پیٹ سے نہ نکالا جائے تو وہ بچہ مرجائے گا .اور اگر اس عورت کو یونہی دفن کردیا گیا تو اس بچے کو زندہ درگور کرنا لازم آئے گا۔ لہٰذا اس صورت میں سرجری کے ذریعے زندہ بچے کو مردہ عورت کے پیٹ سے نکالنا فرض ہے۔

ایک دلچسپ واقعہ :
شرح معانی الآثار کے مصنف امام ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ طحاوی، شافعی المذہب تھے. انھوں نے فقہِ شافعی کا ایک مسئلہ پڑھا:
’’حاملہ عورت اگر فوت ہوجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو تو عورت کے پیٹ کا آپریشن کر کے اس زندہ بچے کونہیں نکالا جائے گا‘‘. جبکہ امام اعظم کا مذہب یہ ہے:
’’مردہ عورت کے پیٹ کو جرّاحی کے ذریعے چیر کر زندہ بچے کو نکالا جائے گا‘‘
اور امام طحاوی اسی طریقے سے پیدا ہوئے تھے، جب انھوں نے فقہ شافعی کا یہ مسئلہ پڑھا تو انھوں نے کہا: ’
’مجھے مذہبِ شافعی پسند نہیں ہے، جو میری ہلاکت پر راضی ہو‘‘.
سو انھوں نے مذہبِ شافعی ترک کرکے مذہبِ حنفی کو اختیار کرلیا اوراُن کا شمار فقہ حنفی کے عظیم المرتبت مجتہدین میں ہوتا ہے، (النبراس، ص:110)‘‘

(۲) ایک شخص بلڈ کینسر کا مریض ہے اور اس کا علاج یہی ہے کہ اس کے جسم کے پورے خون کو تبدیل کردیا جائے ،ورنہ وہ شخص مرجائے گا. لہٰذا اس صورت میں بھی انتقال خون کے ذریعہ علاج کرنا فرض ہے،بشرطیکہ اُسے یہ سہولت دستیاب ہو، انسانی خون کا فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے. البتہ جان بچانے کے لیے مریض کو خون کاعطیہ کیا جاسکتا ہے، اگر بغیر قیمت کے خون دستیاب نہ ہو تو جان بچانے کے لیے خریدنا جائز ہے، لیکن فروخت کرنے والے کا یہ فعل ناجائز ہے۔

(۳) ایک شخص کا جگر فیل ہوگیا اس نے خون بنانا بند کردیا، اب اس کو زندہ رکھنے کے لیے انتقال خون کے ذریعہ اس کے جسم میں نیا خون پہنچانا ضروری ہے ، ورنہ وہ شخص مرجائے گا۔

(۴) ایک شخص شوگر کا مریض ہے اس کا پیر زخمی ہے، اس میں زہر پھیل گیا ہے، اگر سرجری کے ذریعہ اس کا پیر کاٹ کر الگ نہ کیا گیا تو یہ زہر پورے جسم میں پھیل جائے گا اور اس کی موت واقع ہوجائے گی اس صورت میں اس کی جان بچانے کے لیے سرجری کے ذریعہ اس کا علاج کرانا ضروری ہے،اسے طبی زبان میں Gangreneکہتے ہیں ،اس میں بتدریج جسم مردہ ہوتا ہے اور یہ بیماری دوسرے حصوں میں سرایت کرتی جاتی ہے۔

(۵) ایک شخص کو برین ہیمبرج ہوگیا یعنی اس کے دماغ کی شریان پھٹ گئی ،اگر سرجری کے ذریعہ اس کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو اس کی موت واقع ہوجائے گی ،اس صورت میں بھی سرجری کے ذریعے اس کا علاج کرانالازم ہے۔

(۶) دہشت گردی کی کارروائی کے نتیجہ میں اچانک ایک شخص کے سینہ اور پیٹ میں کئی گولیاں لگ گئیں، اگر بروقت کارروائی کر کے سرجری کے ذریعے اس کے جسم سے گولیاں نہ نکالی گئیں تو اس کی موت واقع ہوجائے گی، اس صورت میں بھی سرجری کے ذریعے اس کا علاج کرانا فرض ہے.

(۷) شدید زخمی ہونے کی صورت میں کسی شخص کے جسم سے بڑی مقدار میں خون نکل گیا ،اگر بروقت اس کے جسم میں خون نہ پہنچایا گیا تو وہ مرجائے گا، اس صورت میں بھی انتقال خون کے ذریعے اس کا علاج کرانا ضروری ہے۔

(۸) ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے کسی شخص کے کسی عضو پر فالج گر گیااورمستقل معذوری کا خطرہ ہے، اب چونکہ فالج قابلِ علاج ہے، اس لیے علاج کرانا واجب ہے۔

(۹) شوگر، ہائی بلڈ پریشر ایسی بیماریاں ہیں کہ اگر ان کا باقاعدگی سے علاج اور پرہیز نہ کیا گیا تو فالج، برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک، گردے یاجگریا کسی اور عضو کے ناکارہ ہونے اور کینسر وغیرہ کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ان بیماریوں کا علاج نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت کے خطرے سے دوچار کرنا ہے۔

(۱۰) شدید کالی کھانسی، نمونیہ، چیچک، تپ دق، گردن توڑ بخار وغیرہ ایسی بیماریاں ہیں کہ اگر ان کا بروقت علاج نہ کر ایاجائے تو انسان مرتا تو نہیں ،لیکن وہ ناقابلِ کار ہوجاتا ہے اور اس کے لیے زندگی عذاب بن جاتی ہے ، پس ان صورتوں میں بھی علاج کرنا ضروری ہے۔

یہ ایک واضح اور بدیہی بات ہے کہ شدید بیماری کے سبب انسان اپنے معمول کے کام انجام نہیں دے پاتاحتیٰ کہ عبادت سے بھی قاصر ہوجاتا ہے ، اگر وہ مزدور ہے یا روز مرہ کی اجرت پر کام کرتا ہے ، اگر وہ علاج نہیں کرے گا تو کام پر نہیں جاسکے گااور نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کی عبادات میں خلل واقع ہوگا، بلکہ زندگی بوجھ بن جائے گی ،اس صورت میں بھی علاج واجب ہے۔ عام حالات میں شریعت کی رُو سے علاج سنّت ہے، فرض کے درجے میں نہیں ہے کہ اس کا تارک گناہگار قرار پائے ، لہٰذا مہلک امراض کے انتہائی درجے میں کہ جب علاج کے باوجود بحالی اور نفع مند زندگی گزارنے کا یقین یاظنِّ غالب نہ رہے ، تو علاج ترک کیا جاسکتا ہے۔شریعت نے ضرورت کے وقت قرضِ حسن لینے کی اجازت دی ہے، لیکن ہر ایک کی استطاعت کی حد تک ہے۔

فقہائے متقدمین کے زمانے میں میڈیکل سائنس ابتدائی مراحل میں تھی اور بہت سی پیچیدہ بیماریوں کے علاج کے نتائج زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے، علاج کے باوجود ہلاکت کا تناسب زیادہ تھا، اسی وجہ سے علماء نے علاج کو صرف مستحب کہا تھا اور ان کے نزدیک علاج نہ کرانے والا گناہگار نہیں قرارپاتاتھا۔ لیکن آج صورتِ حال مختلف ہے جو ہر ذی شعور پر واضح ہے۔ لہٰذا ہم نے جوعلاج کو بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے، وہ ان علماء کے قول کی مخالفت نہیں ہے،بلکہ امراض اور علاج کے بارے میں جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں انسانی جان کی حرمت کے تحفظ اور انسان کو ممکن حد تک راحت پہنچانے اور تکلیف سے نجات دلانے کے لیے ہے،تبدیلی حالات سے بعض اوقات احکام بھی بدل جاتے ہیں۔

اسی طرح اگر مریض کی بحالی اور صحت یابی کی صورت میں نفع بخش زندگی کا امکان ہو تو مریض کووینٹی لیٹر پر ڈالاجاسکتا ہے، لیکن اگرڈاکٹروں کو یقین یا ظنِّ غالب ہو کہ وینٹی لیٹر کے ہٹانے سے موت واقع ہوجائے گی، تو محض حرکتِ قلب جاری رکھنے کے لیے مریض کووینٹی لیٹر پر ڈالے رکھنا یعنی مشینوں کے ذریعے زندہ رکھنا ضروریاتِ شرعیہ میں سے نہیں ہے اور اس کے ہٹانے پر ڈاکٹر یا وارث گنہگار نہیں ہوں گے، یہ لمحات شدید کرب اور اذیت کے ہوتے ہیںاور شریعت اس امر کا پابند نہیں بناتی کہ آلات کے ذریعے محض سانس کی آمد ورفت کو جاری رکھا جائے.

جبکہ خدا ترس ماہرڈاکٹر یہ کہیں کہ انھیں یقین یا ظنِ غالب ہے کہ اب یہ شخص نفع بخش زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہااور وینٹی لیٹر ہٹانے کی صورت میں موت واقع ہوجائے گی۔تاہم ہمارا مشاہدہ ہے کہ مالدار لوگ بعض اوقات اپنے مریضوں کووینٹی لیٹر پر ڈالے رکھتے ہیں ، ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا بل بنتا رہتا ہے جو اُن کے لیے مسئلہ نہیں ہوتا، لہٰذا نہ وہ وینٹی لیٹر کو ہٹانے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ڈاکٹر اس کامشورہ دیتے ہیں۔

1990کے عشرے میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں اس موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہواتھا، اس موقع پر شفاء انٹرنیشنل ہاسپیٹل کے ایک اسپیشلسٹ ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا:
’’فرض کریں!ہمارے پاس ایک ہی وینٹی لیٹر ہے جو ایسے مریض کو لگا ہوا ہے ،جس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ اگر وینیٹی لیٹر ہٹا دیا جائے تو جلد اس کی موت واقع ہوجائے گی، پھر اس دوران ایک نوجوان کو حادثہ ہوتا ہے ،اس کے دماغ پر چوٹ لگتی ہے ، وہ کومے میں چلا جاتا ہے، ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اگر ہم اس لا علاج مریض سے وینٹی لیٹر ہٹاکر اس نوجوان کو لگادیں تو اس کی زندگی بچ جائے گی اور یہ نفع بخش زندگی گزار سکے گا۔

پس اگر ہم اس لاعلاج مریض سے وینٹی لیٹر ہٹاکر زندگی بچانے کے لیے اس نوجوان کو لگائیں ،تو کیا ہم پہلے مریض سے وینٹی لیٹر ہٹانے پر گناہگار ہوں گے ‘‘، میں نے انھیں جواب میں کہا: ’’میری دینی معلومات کے مطابق یہ عمل کرنے سے آپ گناہگار نہیں ہوں گے، کیونکہ ایک طرف جان بچانے کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف محض مشین کے بل پر تنفُّس کو جاری رکھنے کا مسئلہ ہے، تو ترجیح جان بچانے کو دینی چاہیے اور میری اس رائے کی حکمت یہی تھی کہ اگر خداترس اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو یقین یا ظنِّ غالب ہے کہ پہلے مریض سے وینٹی لیٹر ہٹانے کی صورت میں تھوڑی دیر میں اس کی موت واقع ہوجائے گی ،تو یہ ضروریاتِ شرعیہ میں سے نہیں ہے کہ مشینوں کے ذریعے اذیت پہنچاکر سانس کو جاری رکھا جائے‘‘۔

عرفِ عام میں حیات کی ظاہری علامت تنفُّس کا جاری رہنا ہے ،چنانچہ حرکتِ قلب بندہوجانے یعنی تنفُّس کے منقطع ہونے کو موت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔بعض صورتوں میں دماغ مفلوج یا ناقابلِ کار ہوجاتا ہے،لیکن تنفُّس کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اسی کو ’’کوما‘‘کی کیفیت کہتے ہیں ،لیکن ڈاکٹروں کے نزدیک Brain Stemکے مرجانے سے موت واقع ہوجاتی ہے ،اسے Brain Deathبھی کہتے ہیں۔ہمیں ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ یہ دماغ کی وہ اصل ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے مرتبط رہتی ہے،باقی سارے بدن اور دماغ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے، یعنی یہ دماغ کو سگنل دیتا ہے اور اس سے ہدایات لے کر جسم پر نافذ کرتا ہے،پس جب تکBrain Stemکام کرتا ہے، زندگی باقی رہتی ہے اور اس کی موت کی صورت میں طبی اعتبار سے موت واقع ہوجاتی ہے ۔

ہم نے امریکہ میں مقیم ایک اسپیشلسٹ پاکستانی ڈاکٹر محترم خالد اعوان صاحب سے رابطہ کیا ،ڈاکٹر صاحب وسیع المطالعہ ہیں، دیندار ہیں اور ان کی دینی معلومات بھی قابلِ رشک ہیں، انھوں نے کہا: حرکتِ قلب بحال کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو دفعہ مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈالنا کافی ہے، مستقل طور پر ایسا کرنا ضروری نہیں ہے، انھوں نے لکھا:

’’میرے خیالات اُسی کے مطابق ہیں جو آپ نے جواب کے اس حصے میں لکھا ہے۔ بہت عرصہ سے میں نے بیماری کے بہت بڑھ جانے کی حالت میں مریض کو حرکتِ قلب رک جانے کے سبب دوبارہ جاری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو دفعہ وینٹی لیٹر پر ڈالنے کو کافی قرار دیا ہے.

میں نے اس حدیث کوبنیاد بنایا :
’’حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ان کے گھر میں بیبیوں کو غم کی حالت میں نوحہ کرنے سے دو دفعہ منع کیا گیا اور تیسری دفعہ منہ کو مٹی سے بھردیے جانے کا حکم ہوا‘‘۔

میرے نزدیک غم بھی ایک بیماری ہی ہے، لہٰذا دو دفعہ انتہائی قدم اٹھانے کے بعد ایمان کا تقاضا ہے کہ مسلمان صبر کرے اور معاملہ اللہ کے سپر د کرے،جیساکہ آپ نے فرمایا ہے:میرے نزدیک زندگی اور موت کا فیصلہ سانس کے مکمل بند ہوجانے کے ساتھ ہے، حقیقت یہ ہے کہ طبی علم کی بنیاد پر بھی دل اور دماغ دونوں کا انحصار سانس پر ہے، مثلاً دماغ کے خلیے آکسیجن نہ ملنے پر دس منٹ بعد مرنا شروع ہوجاتے ہیں، اسی طرح ہارٹ اٹیک میں دل کے اعصاب (پٹھوں) کو آکسیجن نہ ملے، تو ایک گھنٹے کے بعد وہ مرنا شروع ہوجاتے ہیں اور چار گھنٹے کے بعدنہ ان کو آکسیجن بحال کرسکتی ہے ،نہ وہ دوبارہ بن سکتے ہیں اوراگر بن بھی جائیں تو فقط Scarیعنی Dead Tissuesپیدا ہوتے ہیں.

Muscle یعنی پٹھینہیں بنتے۔ دینی طور پر بھی زندگی کا آغاز روح کے نفخ (Blow)سے ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ نفخ کا تعلق سانس کے جاری رہنے سے ہے ،اس کا تعلق دورانِ خون یا دماغ کے اعصاب سے نہیں ہوتا۔ لہٰذا میرے نزدیک موت سانس کے مکمل بند ہونے کا نام ہے ، اگر ایک دو گھنٹوں سے زیادہ انسان کا سانس بند رہے تووہ طبعی اور شرعی دونوں اعتبار سے مرجاتاہے ۔

نیز انھوں نے لکھا:
’’ میں اسی کا قائل ہوں کہ Euthanasia یا خودکشی یا مریض کا اجازت دینا کہ مجھے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، مریض اور ڈاکٹر دونوں کے لیے حرام اور ممنوع ہیں،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو، (المائدہ:2)‘‘۔

’’ کوما‘‘ کی حالت میں مریض ہوش میں نہیں رہتا ، مگر تنفُّس(Breathing) کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ الغرض دماغ پورے بدن پر حاکم ہے ، لیکن دل پر اس کا اس طرح کا کنٹرول نہیں ہے جیساکہ باقی بدن پر ہے، چنانچہ کوما کی صورت میں مریض کے دیگراعضاء کام نہیں کرتے، لیکن بعض صورتوں میں جب تک زندگی ہے، تنفُّس کا عمل جاری رہتا ہے، اس لیے دماغ اور دل دونوں کواعضائے رئیسہ کہتے ہیں ۔ بعض اوقات حادثے یابرین ہیمبرج یا دماغ تک خون پہنچانے والی رگ بلاک ہونے کے نتیجے میں وقتی طور پر انسان ہوش میں نہیں رہتا، لیکن علاج کے ذریعے یاوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوش میں آجاتا ہے،پس ایسے مریضوں کے لیے ،جن کے ہوش میں آنے اور نفع بخش زندگی گزارنے کا یقین یاظنِّ غالب ہو،وینٹی لیٹر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ انسانی جان کا تحفظ مقدم ہے ، مقاصدِ شرعیہ میں سے ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو پسند ہے، لیکن محض سانس جاری رکھنے کے لیے وینٹی لیٹر پر ڈال کر مریض کو اذیت سے دوچار کرنا شریعت کا مطلوب نہیں ہے ، اگر مریض یا اُس کے قریبی رشتے دار یا ڈاکٹر ایسا کرنا چاہیں تو یہ اُن کی صوابدید ہے، یہ لمحات انتہائی کرب ناک ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو ایسے احوال سے عافیت اور امان میں رکھے ، یہ اس صورت میں ہے کہ جب ڈاکٹروں کو یقین یا ظنِّ غالب ہو کہ وینٹی لیٹر ہٹانے کی صورت میںمریض کی موت جلد واقع ہوجائے گی، حقیقتِ حال صرف اللہ کے علم میں ہے ۔