ہوم << پاک-افغان دوستی: ماضی، حال اور مستقبل-حماد یونس

پاک-افغان دوستی: ماضی، حال اور مستقبل-حماد یونس

پاکستان اور افغانستان کی دوستی کئی دہائیوں پر محیط ہے ۔ گو کہ یہ رشتہ ، اسلام کا رشتہ ، ساڑھے چودہ سو برس پر محیط ہے ، مگر پاکستان اور افغانستان کی ریاستوں کے درمیان بھی ایک اخوت کا رشتہ ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو ایک برادر اسلامی ملک کے طور پر سپورٹ کیا اور ہر ہر محاذ پر افغانستان کا ساتھ دیا۔ یہ تاریخ ستر کی دہائی تک جاتی ہے جب یو ایس ایس آر نے افغانستان میں غاصبانہ عزائم کے ساتھ اپنی فوج داخل کی۔ پاکستان ایک غیر جانب دار ملک کی حیثیت سے افغانیوں کو آگ اور خون میں برباد ہوتے دیکھ سکتا تھا ، مگر پھر اس دوستی اور اخوت کے رشتے کا کیا ہوتا جو دونوں ممالک کے درمیان تھا۔

پاکستان دفاعی ، معاشی ، اقتصادی کسی بھی حیثیت میں یو ایس ایس آر کے مقابل آنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ، یو ایس ایس آر اس وقت سپر پاور تھا ، جس کا براہ راست سامنا کرنے کی ہمت خود امریکہ میں بھی نہ تھی ۔ مگر پاکستان بے خطر اس آتشِ نمرود میں کود پڑا ۔ پاکستانی فوج نے افغانیوں کو عسکری تربیت دی ، جس کی مدد سے افغانی ان نو آبادیاتی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے ۔ اس کے علاوہ ہزاروں پاکستانیوں نے بھی افغانستان کے دفاع کے لیے براہ راست جہاد میں شرکت کی ۔ بہت بڑی تعداد میں پاکستانی مجاہدین ، افغانستان کا دفاع کرتے ہوئے اور غاصب سوشلسٹ افواج کا سامنا کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج نے براہ راست بھی اس جنگ میں حصہ لیا۔ جنرل اختر عبد الرحمٰن کا اس جنگ میں اہم کردار تھا۔ مگر صرف یہی سب کچھ نہیں تھا ۔ افغانستان ، جہاں آگ ، بارود اور گولیوں کا کھیل سوشلسٹ غاصب افواج نے رچا رکھا تھا، کسی بھی پر امن شہری کے رہنے کے لائق نہیں رہا تھا ۔ انسانوں کی جان کو ایسا شدید خطرہ شاید ہی کبھی رہا ہو۔ ایسے میں پاکستان نے اپنے دروازے ان مظلوم افغان بھائیوں کے لیے کھول دیے ، جو پناہ اور تحفظ کے متلاشی تھے۔ پاکستان ، جو خود بھی اس ہجرت کے جذبے کے ساتھ پیدا ہوا تھا، جب 1947 میں ایک کروڑ سے زائد مسلمانوں نے مشرقی و مغربی پاکستان کی جانب تاریخ کی شاید سب سے بڑی ، قانونی ہجرت کی تھی ۔ اسی پاکستان نے بیس لاکھ سے زائد افغان بھائیوں کی داد رسی اور میزبانی کا ذمہ اپنے سر لیا۔ غور کیا جائے تو پاکستان تاریخ کے کسی مرحلے میں مکمل فارغ البال نہیں رہا۔ ہمیشہ ہماری معیشت تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑی نظر آئی ہے۔ مگر جنگ کی صورت حال میں تو یہ معاشی تباہی اپنے عروج پر رہتی ہے ۔ ایسے میں بیس لاکھ مسلمان مہاجرین کو پناہ دینا اور ان کو سینے سے لگانا ، قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کرواتا ہے۔
آج تک یہ افغان بھائی پاکستان میں مقیم ہیں ۔ اس سلسلے میں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن پاکستان نے سب کچھ خندہ پیشانی سے سہا ہے۔

اسی کی دہائی کے آخر میں افغانستان ، اللہ تعالی کی نصرت اور پاکستان و دیگر مسلمان بھائیوں کی مدد کے ذریعے فتح یاب ہوا اور یو ایس ایس آر ٹکرے ٹکرے ہو گیا ۔ ایسے حالات میں افغانستان میں قیادت کے سلسلے میں عجیب بد نظمی کا عالم پیدا ہو گیا۔ مجاہدین کے دھڑے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گئے۔ قریب تھا کہ افغانستان ایک بار پھر اسی خون کے دریا میں غرق ہو جاتا ، جس سے وہ ابھی ابھی بمشکل نکلا تھا۔ ایسے میں پاکستان نے برادر ملک کی رہنمائی کی ۔ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کی کوششیں کبھی بھی فراموش نہیں کی جا سکتیں ۔ پاکستان کا روزِ اول سے یہ نظریہ رہا ہے کہ مستحکم افغانستان ، پاکستان کے استحکام کے سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ 1996 وغیرہ میں جب طالبان نے ملا عمر کی قیادت میں افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کا اعلان کیا تو پاکستان نے اسے بھی خوش اسلوبی سے تسلیم کیا۔ دو ہزار ایک تک پاکستان اور افغانستان تاریخ میں قریب ترین اتحادی ممالک کی حیثیت سے رہے۔ پھر امریکہ نے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو ٹوین ٹاورز پر حملے کا الزام براہ راست اسامہ بن لادن پر عائد کیا ، جو افغانستان میں مقیم تھے۔ امریکہ نے طالبان سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو طالبان نے اپنے مہمان کو کسی کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ، جو روایات کے اعتبار سے بہت احسن اقدام تھا مگر اسٹریٹجک اعتبار سے بد ترین غلطی تھی۔ امریکہ چالیس ممالک کی افواج لے کر اپنے ملزم کی تلاش میں افغانستان کود پڑا۔ ایسے حالات میں کس کی جرات تھی جو کھل کر امریکہ کے خلاف جا سکتا۔ پاکستان نے کھل کر تو عالمی دہشت گرد امریکہ کی مخالفت نہ کی مگر اندرونِ خانہ افغانیوں کی امداد اور افغانستان میں قیامِ امن کے سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اس کا خمیازہ پاکستان نے دہری حیثیت میں چکایا ۔ پاکستان کی معیشت کو کھربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ، اور دوسری طرف پاکستان کے ایک لاکھ کے لگ بھگ شہری بھی اس جنگ ک نذر ہوئے ۔ پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی، را کے ایجنٹس نے بدنامِ زمانہ اسرائیلی تنظیم موساد اور امریکی بلیک واٹرز کی مدد سے جو آگ بھڑکائی ، اس کے شعلے آج بھی بجھنے اور سرد ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ افغان پناہ گزینوں کا بہروپ بھرے ہوئے یہ دہشت گرد ، جو بنیادی طور پر ان دشمن ممالک کے ایجنٹس تھے ، جیسا کہ سربجیت سنگھ اور کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی خفیہ ایجنٹس اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے ماسٹر مائنڈز کی گرفتاری کے بعد واضح ہوا۔ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان جیسی دہشت گرد تنظیمیں قائم کیں ، جن کا مقصد افغانوں کو بدنام کرنا اور پاکستان میں امن کو سبوتاژ کرنا تھا۔

پاکستان نےبارہا امریکہ اور افغان طالبان کے بیچ مذاکرات کروانے کی کوشش کی مگر امریکہ اپنی توسیع پسندی اور عالمی چودراہٹ کو ترک کر کے ٹیبل ٹاک کرنے کو تیار نہیں تھا۔ پھر جب افغانستان میں اس کے پاؤں دلدل کی مانند دھنسنے لگے تو اسے مذاکرات ہی واحد حل محسوس ہوئے۔ پاکستان نے اس قیامِ امن اور امریکیوں کے انخلاء میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جنرل حمید گل ، سابق آئی ایس آئی چیف کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں جو مار پڑی وہ پاکستان کی حکمتِ عملی کے مرہونِ مِنّت تھی۔

آج جب امریکہ افغانستان سے بہت بے آبرو ہو کر نکل چکا ہے ، پاکستان کی واحد آرزو اور تمنا افغانستان کا استحکام ہے۔ پاکستان ، جس کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی کافی وسائل نہیں ، جو قرض کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے ، اسی پاکستان نے اپنے افغانی بھائیوں کی امداد کے لیے خطیر رقم اور دیگر ساز و سامان افغانستان کے حوالے کیا ہے۔ پاکستان افغانستان سے یہی توقع کرتا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا دوست تسلیم کرے اور ماضی میں اگر کوئی قدورتیں کہیں کسی نہاں خانۂ دل میں رہی ہیں تو ان کو ختم کرے ۔ بھارت اور دیگر دشمن ممالک کی دشمنی سے آگاہ رہے ، یا ، حبیب جالب کے الفاظ میں ، دوستوں کو پہچانو ، دشمنوں کو پہچانو ،
بلکہ خواجہ پرویز کے الفاط میں ؎
مَیں نے ہر کانٹا تری راہ کا پلکوں سے چُنا
لوگ کہتے ہیں مَیں دشمن ہوں تِرا، تُو نے سُنا؟