اب تک تو معاملہ لشٹم بشٹم چل رہا تھا۔خزانچیوں کے لیے ٹیکس بھی آمدن تھا اور قرض ادھار کو بھی انھوں نے کمائی فرض کر لیا تھا۔سرد جنگ کی رقابت میں آڑے ترچھے اتحادیوں کی تلاش کی دوڑ میں کرپشن ، بدانتظامی ، نااہلی ، فرسودہ طبقاتی ڈھانچہ ، حکمران اشرافیہ کے اللے تللے اور عام آدمی کو نیم انسان کے درجے پر رکھنے والی پالیسیوں سمیت ہر گناہ چھپ جاتا تھا۔
سپر پاورز اور نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ کے بل پر خود کو مہذب سماج بنانے والے امیر ممالک کو انسانوں کی اجتماعی فلاح و بہبود سے زیادہ وہ کٹھ پتلیاں عزیز تھیں جو مشکل سوال نہ کریں ، ابرو کے اشارے پر گیند اٹھا لائیں اور بدلے میں اپنی اپنی ریاست اور رعایا کو جس طویلے میں چاہے باندھ کے رکھیں۔بھلے اپنے زیرِ پنجہ قدرتی وسائل پر اونے پونے دادا جی کی فاتحہ دلائیں یا چاکری کے عوض ملنے والے ڈالری بھتے کو خود کو مزید مستحکم کرنے کے لیے جیسے چاہیں بلا حساب کتاب و احتساب اڑائیں۔
لگ بھگ پینسٹھ برس بے فکری رہی۔ہم ایک کے بعد ایک عالمی و علاقائی بحران کی کمائی کھاتے رہے۔اس دورانئے میں ڈالروں کی اس قدر بارش ہوئی کہ یاد ہی نہ رہا کہ بارش بھی کبھی نہ کبھی رک جاتی ہے۔ہمارے سرپنچ چاہتے تو انھی ڈالروں سے اپنی معیشت کو ناگزیر چلچلاتی دھوپ سے بچانے کے لیے جیسا تیسا اقتصادی چھپر کھٹ بھی ڈال سکتے تھے۔بھلے مثالی اور مضبوط چھت نہ ہوتی مگر اتنی تو ہوتی کہ بارش کے بعد نکلنے والی تیز دھوپ سہار جاتی۔مگر ہم اس پورے عرصے میں دوسروں سے دان میں ملی مفاداتی چھتریوں کو چھت کا متبادل سمجھتے رہے۔
آج کی دنیا بیسویں صدی کی دنیا سے کہیں مختلف ہے۔نئی صدی میں پچھلی صدی کے مفتوں کی مانگ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ٹیکنالوجی تیزی سے سپر پاورز کو روایتی فوجی اڈوں اور روایتی بخشوؤں کی ضرورت سے بے نیاز کر رہی ہے۔اب انھیں اپنے نئے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے قلیوں کی نہیں آئیڈیاز سے مسلح نسل کی ضرورت ہے۔جانے پہچانے روایتی خطرات کی جگہ نئے اور زیادہ مہلک خطرات نے ہتھیا لی ہے۔بحران نیا ہے تو حل بھی نیا درکار ہے۔
اس نئی دنیا میں جغرافیہ بے معنی ہو چکا ہے۔ مروت پچھلی گلی سے نکل بھاگی ہے۔سفاک مفادات اور ماحولیاتی ابتری نے حالات اور پیچیدہ کر دیے ہیں۔ روایتی جنگیں ڈجیٹل مارا ماری میں بدل چکی ہیں۔جو ممالک اس راز کو وقت سے پہلے سمجھے وہ بال بال بچ گئے اور جو انیسویں اور بیسویں صدی کی دماغی قید میں رہ گئے وہ بالکل ہی رہ گئے۔
یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔گود کے عادی اور جا بے جا ضدیں منوانے والے کئی بگڑے ہوئے لاڈلوں کو ترقی یافتہ دنیا نے بیچ چوراہے میں چھوڑ دیا ہے اور اب ان ہکوں بکوں کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ جائیں تو جائیں کہاں۔بات کریں تو کس سے کریں۔مانگیں تو کیا مانگیں اور بدلے میں دیں تو کیا دیں۔
شکستگی کا یہ درماں ہے تیرگی میں رہیں
چراغ ہو تو جلائیں ، لباس ہو تو سئیں
اگر ہم اپنے ہی مثال لے لیں تو ہماری مختصر تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ جتنے روایتی دوست ممالک تھے ان میں نئی نسل برسراقتدار آ چکی ہے۔اس نسل کی آنکھوں میں نہ پرانے بزرگوں والی مروت ہے ، نہ پچھلی خدمات یاد ہیں ، نہ ابا کے دور کے وفاداروں کی پہچان ہے۔یہ خالص کاروباری نسل ہے۔ہم سے نقد میں کیا خریدو گے اور بدلے میں کیا دو گے۔ورنہ اپنا راستہ ناپو۔
یعنی بچارے ممالک کے لیے زرِ بخشیش کی سپلائی لائن سوکھ چکی ہے۔اب خود ہی کمانا اور خود ہی زندہ رہنا ہے۔اس کے لیے دماغ لڑانا پڑتا ہے اور ہم تو وہ ہیں جہاں دماغ سے کام نکل سکتا تھا وہاں بھی بے دماغی سے کام نکالنے کے عادی رہے۔ہم چاہتے تو سات دھائیوں میں جتنی بیرونی امداد اور گرانٹس اور حوصلہ افزائی نصیب ہوئی اس سے ایک اعلیٰ تعلیمی نظام تیار ہو سکتا تھا۔اس نظام سے فارغ التحصیل ہونے والے بچوں کو مساوی و مسابقتی میدان فراہم کر کے تمام ضروری دنیاوی بالخصوص معاشی شعبوں میں مہارت و تجربہ حاصل ہو سکتا تھا۔
ایسا سیاسی ڈھانچہ اور ادارے بنائے جا سکتے تھے جن کی بڑھوتری و تحفظ میں تمام شہری خود کو ساجھے دار سمجھیں۔انھیں محض خام دماغ و خام مال اور بلاواسطہ ٹیکس کا دودھ دینے والی گائے نہ سمجھا جاتا اور بنیادی سہولتیں ہی دے دی جاتیں تب بھی وہ جذبہِ شکر گذاری سے سرشار خوشی خوشی ضرورت پڑنے پر پیٹ پر پتھر باندھنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے۔مگر آنجناب اسی گمان میں رہے کہ ہمیں تو مسلسل چپڑی روٹی میسر رہے گی اور عام آدمی ہماری گاہے ماہے نوازشوں کے ٹکڑوں پر پلتے ہوئے فرشی سلام کرتا رہے گا۔
پھر آپ کو شاید یہ خوف بھی لاحق تھا کہ اگر جدید تعلیم کے دروازے بلا امتیاز ہر بچے کے لیے کھول دیے گئے تو اس کا ذہن منطق سے آلودہ ہوتا چلا جائے گا اور اللہ ماری منطق وہ وہ سوالات اٹھوائے گی کہ جن کا جواب آپ کے پاس نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو آپ اسے قومی سلامتی و قومی مفاد کے کپڑے میں لپیٹ کر طاق پے رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔عام آدمی باشعور ہو گا تو خطرہ ہے وہ سینہ بسینہ پیڑھی در پیڑھی منتقل ہونے والا نسخہِ حکمرانی نہ چرا لے جو آپ کی طاقت کا اصل منبع ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ آج جب اونٹ پہلی بار عالمی اقتصادی بحران اور مفاداتی خود غرضی کے پہاڑ تلے آیا ہے تو اسے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اب اپنے قد و قامت کا کیا کرے۔وسائل و امداد کی جھیل میں پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے۔چنانچہ پہلی بار وسائل پر پہلی ملکیت جتانے والے طبقات اور ادارے ایک دوسرے سے بدظن ہو رہے ہیں ، گھور رہے ہیں اور چھین جھپٹ کے فیصلہ کن معرکے کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں۔ پہلی بار عام آدمی انتہائی پریشان ہونے کے باوجود یہ تماشہ نہ صرف دلچسپی سے دیکھ رہا ہے بلکہ اپنی اپنی بساط کے مطابق لطف اندوز بھی ہو رہا ہے اور اس لطف کا سوشل میڈیا کے ذریعے کھل کے بیان بھی فرما رہا ہے۔
اقتصادی بحران کوئی بھی ہو۔اکثریت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔مگر جب اکثریت کو پچھلی سات دہائیوں میں بھینس سمجھ کے صرف چارہ دیا گیا اور اسی کے دودھ سے اسی کے بچھڑوں کو محروم رکھا گیا۔تو اب اس بھینس اور بچھڑوں کو کوئی بھی ہنکال کے کسی بھی طرف لے جائے کیا فرق پڑتا ہے۔چارہ تو ہنکالنے والا بھی دے ہی دے گا۔دودھ تو اسے بھی چاہیے۔
پہلے جب اقتصادی حالت قدرِ غنیمت تھی تب مجھے کیا اور کتنا حصہ مل گیا جو اب اقتصادی حالت کو انتہائی برا بتا کے مجھے ڈرایا جا رہا ہے۔اس وقت اصل پریشانی اگر ہے تو اپنی پریشانی عام لوگوں کی طرف منتقل کرنے کے عادی ان شرفا کو ہے جو اس چترائی کے عوض راحت و مراعات کا گودام گھیر کے بیٹھنے کے پشتینی ماہر ہیں ۔
ڈرائیور اور خانساماں وغیرہ کا تو صرف روزگار جائے گا اور ان ہنر مندوں کو شاید دوسری نوکری مل بھی جائے۔مگر مسئلہ تو صاحب کا ہے جن کا بنگلہ پہلی بار براہِ راست داؤ پر لگا ہوا ہے۔
کروں گا کیا جو تسلط میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
تبصرہ لکھیے