ہوم << اردگان بمقابلہ گولن - آصف رفیق

اردگان بمقابلہ گولن - آصف رفیق

آج کل ترک صدر اردگان اور بغاوت کے مبینہ خالق جناب گولن صاحب ذرائع ابلاغ کا سب سے گرم موضوع ہیں اور رائٹ لیفٹ ہر طرف سے اس پر اپنے اپنے دلائل کی بھرمار ہے. چند گزارشات اس سلسلے میں ضروری ہیں.
دنیا واقعی ایک گلوبل گاؤں ہے، اس کا اندازہ ترک بغاوت کے سلسلے میں پوری دنیا کے تاثرات سے لگانا آسان ہو گیا ہے. دنیا بھر سے سیاست، مذہب، انسانی حقوق قانون اور فوجی امور میں دلچسپی رکھنے والے بےشمار حضرات نے اس سے اپنے اپنے علم و نظریے سے تجزیہ اور نتائج اخذ کیے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آپ دنیاسے کٹ کر یا لاتعلق ہو کر نہیں رہ سکتے. اب کسی بھی گروہ یا معاشرے کے افکار و اعمال صرف ایک خطے یا ملک تک محدود نہیں رہے بلکہ دنیا اس سے براہ راست متاثر ہوتی ہے اور جواب طلبی بھی کرتی ہے جو کہ تمدن اور ارتقا کا بہت بڑا تحفہ اور فلاح و اصلاح انسانیت کی طرف ایک قدم ہے.
اس سارے عمل سے لاتعلق حضرات اس پر ایک رائے یہ بھی دیتے ہیں کہ یہ ترکی کا داخلی معاملہ ہے، اس پر اپنے اپنے راگ الاپنے کا شاید کچھ خاص فائدہ نہیں. میرے خیال میں یہ ایک بوگس رائے ہے، اس سے آپ معاشرے کو دقیانوسی کی دعوت تو دے سکتے ہیں، ترقی اور علم وعمل کی طرف نہیں لے جا سکتے. رہی بات یہ کہ ہر شخص اپنی پسندیدہ شخصیت کے حق میں دلائل گڑھ رہا ہے تو یہی تو وہ عمل ہے جس سے آپ گولی اور بم کی جگہ دلیل کی فصل کاشت کر سکتے ہیں. مجھے پورا حق ہونا چاہیے کہ میں اپنے مذہب، ملک، خطے اور اس سے بڑھ کر دنیا بھر کے بارے میں ایک رائے رکھوں اور ضد اور فساد کے بجائے دلیل کے پھول کھلا کر دنیا کے سامنے عمدگی سے پیش کر سکوں.
اس بغاوت نے عملا دنیا کو بالکل دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے، ایک طرف قانون اور آئین کی حفاظت میں ٹینکوں کے آگے لیٹا ہوا گروہ جبکہ دوسری طرف ناکامی کے غم میں کڑھتے کوسنے دیتے وہ لوگ جو اردگان کو ظالم و جابر کہہ کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں، اہل نظر و عقل کو یہ تفریق بہت واضح نظر آ رہی کہ کون کہاں کھڑا ہے؟ سب سے اہم اور آخری بات یہ کہ وقت کے بڑے صوفی اور تارک دنیا گولن صاحب کی مداح سرائی کرتے وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ درج بالا تجزیے کے بعد اگر گولن صاحب بغاوت کی پشت پناہی کا الزام ثابت ہونے کے بعد سامراج کے ساتھ کھڑے نظر آئیں تو اپنی راۓ پر ایمانداری سے غور ضرور کیجیے گا. جو شخص کسی بھی مثبت یا منفی تبدیلی کے لیے قانون اور آئین توڑ سکتا ہے تو معاف کیجیے پھر داعش اور طالبان ان سے بڑے صوفی اور تارک دنیا ہیں اور عصر حاضر کے قلندر بھی. اصول ہر جگہ ایک ہی ہونا چاہیے، اسے موم کی ناک بنا کر آپ کسی اور کا کیا خود اپنا بھلا نہیں کر رہے ہوتے.
اب رہ جاتے ہیں جناب اردگان تو حضور اس قحط الرجال میں جو شخص ظلم کو ببانگ دہل ظلم کہہ دے اور سامراج کو للکار بھی دے تو اس کی ایک صدا پہ رقص کرتے متوالے بھی قلندر کی پکار پہ رقصم ہیں. دل بڑا کیجیے اور مان لیجیے کہ صوفی شازش نہیں رچاتے بلکہ کلمہ حق کہہ کر سردار جھول جاتے ہیں

Comments

Click here to post a comment