ہوم << مستقبل کی تعمیر کرنے والے سنجیدہ مزاج لوگ کہاں ہیں؟ - اسامہ سعدی

مستقبل کی تعمیر کرنے والے سنجیدہ مزاج لوگ کہاں ہیں؟ - اسامہ سعدی

قوموں کی تعمیر گہری سوچ بچار، واضح اہداف اور انتہائی مستقل مزاجی سے کیا جانے والا کام ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سطحی مزاج کی بدولت معاملات کو اوپری سطح سے دیکھنے اور قلیل المیعاد کام کرنے کا رواج ہے۔ اولاً تو کوئی اجتماعی اصلاح کے کام کی طرف کم ہی متوجہ ہوتا ہے۔

اور جو تھوڑے بہت آتے ہیں، وہ زیادہ تر جزوقتی اصلاح پہ ہی کام کرتے رہتے ہیں. اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی بحری جہاز ڈوب رہا ہو ۔ اور اس کے ملاحوں میں سے کچھ خیر خواہ اس کے کچھ سوراخوں کو بند کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ اس کام کا جو بلآخر نتیجہ ہونا ہے، وہ ظاہر ہی ہے۔ اس سعی سے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہےکہ ڈوبتا جہاز بس کچھ دیر مزید سطح آب پہ رہ جائے۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کا انحصار اس کے سماج کی مجموعی کیفیت پر ہوتا ہے۔ اگر سماج میں صالحیت، صلاحیت، خدا خوفی، علم، تحقیق اور مثبت اقدار کا مجموعی غلبہ ہے تو لازمی طور پہ اس سماج کو چلانے والے اداروں میں ان ہی اوصاف کے حامل لوگ جائیں گے۔ اور سماج کی مجموعی صورت حال بدتر ہے تو اس سماج کے اداروں میں بدتر لوگ ہی موجود ہوں گے۔

ہماری سیاسی قیادت، آرمی و اسٹیبلشمنٹ، ججز، اساتذہ، تاجر ، صحافی و دیگر تمام ادارے ہمارے ہی سماج کے افراد چلا رہے ہیں۔ اب کوئی ایسا شارٹ کٹ نہیں ہے کہ بالائی سطح بھی کوئی ایک آدھ قدم اٹھا کہ سب کو یکلخت ٹھیک کر لیا جائے. اس ضمن میں حالیہ تبدیلی تجربہ سمیت 75 سالہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اہل فکر ایک نکتہ بیان کرتے ہیں کہ سسٹم اپنی اصل میں بے روح ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ بے رنگ پانی کی طرح یہ وہی شکل اختیار کرتا ہے، جیسے اس کے چلانے والے افراد و رجالِ کار ہوتے ہیں۔ کیا ہم سنجیدگی سے سوچ سکتے ہیں کہ عشروں سے یہ قوم جس گول دائرے میں گھوم رہی ہے اس کی مستقل بہتری کے لیے کن کن خطوط پہ کام کرنے کی ضرورت ہے؟

معاشرے کے سوچنے والے دماغوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حالات کی نبض پہ ہاتھ رکھ کر ماضی کے تجربہ، حال کے مشاہدے اور مستقبل کے اندازے کے مطابق درست لائحہ عمل اور راستے تجویز کرتے ہیں۔ پھر کچھ کر گزرنے والوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں ،جو اس رہنمائی کے مطابق کر گزرتے ہیں۔عملی راستے تلاش کر جاتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ اس طرح کے کام کیے جا سکتے ہیں ،جو متوقع طور پر درست نتائج کی طرف سفر ممکن بنا سکتے ہیں:

1. سب سے پہلی ذمہ داری سماج کے دماغ کی ہے، وہ اس معاملے کو اپنی اولین ترجیح میں شامل کرے۔ اور غیر جانب دار ہو کر، اخلاص کے ساتھ اس کام کے بارے میں سوچ و فکر کو اپنی پہلی ترجیح میں لائے۔

2. کوئی غل غپاڑہ نہیں، سطحی مقبولیت نہیں، ڈوبتے جہاز کے چند سوراخ بند کرنے کی کوشش نہیں بلکہ تمام چیزوں کو broad picture میں دیکھ کر ،حالات کا درست تجزیہ کر کے قوم کے لیے کچھ قابلِ عمل اور موثر راستے تجویز کرنا۔

3. اس پچیدہ سماجی و عالمی نظام میں ایک فرد انفرادی طور پہ کچھ بڑا کام نہیں کر سکتا۔ یاد رکھیے دو چار کیسز کو مجموعی اصول نہیں بنایا جاتا، یہ دور اداروں کا دور ہے۔ ایسے ادارے بنانے اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے دائرہ کار میں مستقل اور موثر کام کر سکیں اور صدیوں تک کرتے رہیں۔

4. سماج کے مجموعی شعور کی بلندی کے لیے مربوط کوشش کی جائے۔

5. تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے، جس کے ذمہ سماج نے ذمہ داری ہی یہ لگائی ہے کہ قوم کی نسل کی تعمیر کرتا رہے، اس لیے شعبہ تعلیم کو ترجیح بنا کر اس میں ایسے اقدام کیے جائیں جو ہمارا مطلوب سماج و معاشرہ تیار کرنے کا سر انجام دیتا رہے۔

6. یہ کچھ ابتدائی نوعیت کے خیالات ہیں۔ آپ بھی سوچیے، اپنے لیے کوئی راستہ تلاش و متعین کیجیے۔ اور پھر تا دمِ آخر اس کے حصول کے لیے جدو جہد کرتے رہیے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔