اقبال سے میرا پہلا تعارف 1999میں ہوا، جب میں پہلی بار سکول گیا، اور پہلے ہی دن صبح کی اسمبلی میں علامہ اقبال کی نظم (دعا)
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک نہایت ہی دلچسپ اور پسندیدہ تجربہ تھا۔ نظم اتنی اچھی لگی کہ چند ہی روز میں زبانی یاد ہو گئی۔ نظم کیا ہے گویا دعا اور عہد ہے جو ہر بچہ اپنے سکول کے شروع کے دنوں میں ہی نہ صرف ازبر کر لیتا ہے بلکہ اسے اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ اب بھی کہیں ریڈیو یا ٹی وی پر یہ نظم سننے کا اتفاق ہوتا ہے تو نہ صرف ماضی لپک آتا ہے بلکہ احساس خدمت و محبت اور اجاگر ہوتا ہے۔ علامہ کے انسانیت کے درس سے بہتر اور کوئی سبق بچوں کو نہیں پڑھایا جا سکتا۔ اس وقت تو سمجھ خیر اتنی نہیں آئی مگر اس نظم میں جو ردھم اور میلوڈی تھی اس نے گویا ہپناٹزم کر دیا اور سارے وجود میں سرشاری بھر دی۔ خیر سمے بیتتا گیا کہ اس کام ہی بیتنا ہے اور شعور پختہ ہوتا گیا رفتہ رفتہ اقبال نے اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا۔ اور مجھے اس کی شاعری کی تھوڑی بہت سمجھ آنے لگی۔ کہ مکمل سوجھ بوجھ تو شاید آج تک کسی کو نہیں آسکی۔
کالج میں آئے تو علامہ اقبال کو ذرا نزدیک سے جاننے کا موقع ملا۔ علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی اور جاوید منزل بھی دیکھ لی۔ گویا ان سے اپنی وابستگی کے جتنے لوازمات تھے سب پورے کر لیے۔ مگر اقبال کے ہاں ہمیں محض عقیدت نہیں ملتی کہ اقبال عمل کا درس دیتا ہے اور وہ مسلمانوں کے زوال کا ایک بڑا سبب مسلم نوجوانوں کی بے عملی کو سمجھتا ہے۔ اور کئی کئی بار مسلم نوجوان کو جھنجھوڑنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو اک ٹوٹا ہوا تارا
حضرت علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں جا بجا شاہین کا ذکر کیا ہے کیونکہ شاہین اپنی عادات و خصائل کی بناء پر ان کو بہت پسند تھا۔ اور پرندوں کی دنیا کا یہ درویش ان کے فلسفہ خودی کی بھی تشریح و توضیح کرتا تھا۔ اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان نوجوان بھی شاہین کی سی خوبیاں اپنائیں تاکہ مسلمان ایک بار پھر نشاۃ ثانیہ کو پا لیں۔ انہوں نے شاہین کی جو خوبیاں بیان کی ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔
غیرت و خود داری:
غیرت و خوداری درویش کی سب سے بڑی صفت ہے اور یہی حال شاہین کا بھی ہے اس لئے وہ مرغ سرا کے ساتھ دانہ نہیں چگتا جو دوسروں کے احسان کے باعث ملتا ہے اور نہ گرگس کی طرح مردہ شکار کھاتا ہے درویش اور فلسفی میں یہی فرق ہے کہ گدھ اونچا تو اُڑ سکتا ہے لیکن شکار ِزندہ یعنی حقیقت اس کے نصیب میں نہیں ہوتی۔
بلند بال تھا لیکن نہ جسور و غیور
حکیم ِ سر ِمحبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضائوں میں گرگس اگر چہ شاہیں وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
تیز نگاہی:
اقبال کو شاہین کی تیز نگاہی اور دوربینی بھی پسند ہے یہی خصوصیت اس کے خیال میں مردِ مومن میں بھی ہونی چاہیے شاہین کی پرواز اس کی نگاہوں کو وسعت بخشتی ہے
لیکن اے شہباز ، یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کی دم پرواز سرتاپا نظر
سخت کوشی:
اقبال جدوجہد او ر سخت کوشی کے مبلغ ہیں یہ صفت بھی شاہین میں ملتی ہے اقبال مسلم نوجوانوں میں شاہین کی یہ صفات پیدا کرکے انہیں مجسمہ عمل و حرکت بنانا چاہتے ہیں یہ سبق اقبال نے ایک بوڑھے عقاب کی زبانی اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے دیا کہ سخت کوشی اور محنت کی بدولت زندگی کو خوشگوار بنایا جا سکتا ہے
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ ِ زندگانی انگبیں
سخت کوشی دراصل لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہے۔
جھپٹنا پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گر م رکھنے کا ہے اک بہانہ
قوت اور توانائی:
اقبال کو شاہین اسی لئے پسند ہے کہ وہ طاقتور ہے قوت اور توانائی کے تمام مظاہر اقبال کو بہت مرغو ب ہیں ۔ اقبال کو طائوس ، قمری اور بلبل اسی لئے پسند نہیں کہ محض جمال ِ بے قوت کی علامت ہے اس طرح تیتر اور کبوتر جیسے پرندے محض اپنی کمزوری کی وجہ سے شکار ہو جاتے ہیں ۔
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
آزادی:
اقبال کو حریت اور آزادی کی قدر بہت پسند ہے یہ قدر بھی شاہین کی ذات میں انہیں نظر آتی ہے ۔ اقبال کا شاہین میر و سلطاں کا پالا ہوا باز ہر گز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے آزادی ضروری ہے۔
وہ فریب خورہ شاہیں کہ پلا ہو گرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسمِ شاہبازی
فقراور استغنا:
فقر بھی اقبال کے نزدیک مرد درویش کی بڑی خصوصیت ہے جس طرح شاہین چکور کی غلامی نہیں کر سکتا اُسی طرح درویش شاہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اقبال کہتے ہیں کہ شاہین کو چکور و گرگس کی صحبت سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شان ِ بے نیازی
کنجشک و حمام کے لئے موت
ہے اس کا مقام شہبازی
آشیانہ نہ بنانا:
اقبال کو شاہین کی یہ ادا بھی پسند ہے کہ وہ آشیانہ نہیں بناتا ، آشیانہ بنانا اس کے فقر کی تذلیل ہے۔
گذر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ بیاباں میں
کہ شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی
عقابی روح:
اقبال کے خیال میں جب نوجوانوں میں عقابی روح پیدا ہوتی ہے تو انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں ترا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
بلند پروازی:
اقبال کے شاہین کی ایک خوبی اُس کی بلند پروازی ہے اقبال کو شاہین کی بلند پروازی اس لئے پسند ہے کہ یہ اس کے عزائم کو نئے نئے امکانات سے روشناس کرتی ہے اقبال شاہین کے اس وصف کو اپنے مرد مومن میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
خلوت پسندی:
اقبال کا شاہین خلوت پسند ہے وہ کبوتر ، چکور یا زاغ کی صحبت سے پرہیز کرتا ہے۔ اقبال کو ایسا شاہین پسند نہیں جو گرگسوں میں پلا بڑھا ہو کیونکہ وہ رسم شاہبازی سے بیگانہ ہو جاتا ہے
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلندی پرواز
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت ِ زاغ
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو گرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم ِ شاہبازی
پرواز ہے دونوں کا اسی ایک فضا میں
گرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
تجسّس:
اقبال کے نزدیک آزادی کے عالم میں ہی شاہین کے لئے تجسس ممکن ہے ورنہ غلامانہ ذہنیت تو اس بزدل اور کمزور بنا دیتی ہے وہ پر تجسس نگاہ کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی چیتے کے جگر کو ان کے خیال میں یورپی علوم ہمارے لئے اتنے ضروری نہیں جتنا تجسس کا ذوق ضروری کیونکہ اسکے بغیر ہم تخلیقی صلاحیتوں سے محروم رہیں گے۔
چیتے کا جگر چاہئیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش افرنگ
اقبال ملک کے نوجوانوں کو شاہیں بچے قرار دیتے ہیں جو اگرچہ شاہین کی صفات رکھتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ان کو مناسب تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی ۔ وہ اربابِ تعلیم کے خلاف خدا سے شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
شکایت ہے مجھے یا رب خداونداں مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
تبصرہ لکھیے