آسیہ بی بی کیس جوکہ اس وقت ملکی و بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کر چکا ہے، آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے جرم میں ملک کی بڑی عدالتیں سزائے موت دے چکی ہیں۔ مذکورہ کیس کے بارے میں نہایت خوش آئند امر یہ ہے کہ اس کی تفتیش و عدالتی کاروائی نہایت شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارنہ طور پر کی گئی ہے، ابتدائی تفتیش سے لے کر سیشن کورٹ تک ہر جگہ ملزمہ نے اعتراف جرم کیا جس کی بناء پر اسے سزائے موت سنائی گئی، پھر اس کی جانب سے ہائی کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی تو ہائی کورٹ نے از سرنو کئی سال تک اس کیس کا تفصیلی جائزہ لے کر سزا کی توثیق کی، پھر اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیا تو سپریم کورٹ کے جج نے حال ہی میں اس کی سماعت سے معذرت کر لی لیکن جلد یا بدیر سپریم کورٹ اس کیس کا فیصلہ کرے گا۔
بعض حلقوں کی جانب سے جو یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کیس میں انصاف کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے ہیں۔ یہ اعتراض سراسر بے بنیاد، جہالت اور بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ قانون توہین رسالت کے اطلاق و تفتیش کا الگ طریقہ کار اور کڑی شرائط ہیں، ایسے مقدمات میں تھانہ ایس ایچ او کے بجائے پولیس کے اعلی و ذمہ دار افسران بذات خود تفتیش کرتے ہیں تو ایسی صورت میں کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کا کوئی احتمال نہیں ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کیس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا کر مجرمہ کو سزا دلوائے۔ اور اگر خدانخواستہ حکومت کی جانب سے اس فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہو سکا تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے جس کا اندازہ اس واقعہ توہین رسالت کے بعد پائے جانے والے چند واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں عوام اپنے طور پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کی توہین کرنے والوں کو حتی کہ قانون توہین رسالت پر تنقید کرنے والوں کو سزا دینے کی کوشش کریں گے جو کہ ایک خطرناک عمل ہے۔
اس سے بڑھ کر ایک اند یشہ یہ بھی ہے کہ پھر لوگ خود ہی گستاخ رسول کا تعین کرکےاس پر سزا جاری کریں گے جیسا کہ ممتاز قادری کے چالیسویں کے موقع پر چند لوگوں نے معروف نعت خواں جنید جمشید کو گستاخ رسول قرار دے کر حملہ کر دیا اور انتظامیہ نے بیچ میں آکر بچ بچاؤ کیا۔ عموما جو یہ کہا جاتا ہے کہ قانون توہین رسالت میں ترمیم کی جائے کیونکہ اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، یہ بات درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
حکومت اگرچہ شدید مشکلات اور مغربی ممالک کے دباؤ کا شکار ہے لیکن اسے بہرحال دو میں سے ایک کام کرنا ہوگا یا تو عدالتی فیصلہ کے مطابق مجرمہ کو سزا دلوائے یا معاشرہ میں انارکی پھیلائے، گستاخ آسیہ کو بچائے یا پورے معاشرہ کو، حکومت کو کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
تبصرہ لکھیے